تحریر:سید مصطفیٰ احمد
آج ہمارے سماج میں بہت سارے مسائل ہیں۔ ان میں ایک مسئلہ ایسا ہے جو دوسرے بہت سارے مسائل کو جنم دیتا ہے اور یہ مسئلہ بےروزگاری کا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق کشمیر میں بہت سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ طلاب بےروزگار ہے۔ سرکاری ادارے ہوں یا نجی دفاتر، بیشتر اعلیٰ اذہان نوکری کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اپنی حاصل کردہ ڈگریوں کو وہ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ محنت سے کمایا ہوا پیسہ، طاقت اور دوسرے وسائل کو بروئے کار لاکر نوجوانوں نے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کئی تھی،مگر اب حالات ایسے ہیں کہ وہ اپنا پیٹ بھی نہیں پال سکتے ہیں۔ ان جوانوں کی زندگیوں میں کیا بیت رہی ہے، صرف وہی جانتے ہیں۔ اپنی فکر، ماں باپ کی فکر، بھائی بہنوں کی فکر اور سماج کے توقعات پر کھرا اترنا، ایک جوان کو چین سے جینے نہیں دیتے ہیں۔ کب تک ایک جوان ماں باپ کی کمائی پر پلتا رہے گا؟ کب وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا خواب پورا ہوگا؟ کب وہ اپنی کمائی سے ماں باپ کو خوش کرے گا؟
ایسے کتنے سوالات ہیں جو آج کے نوجوان کی زندگیوں کو بد سے بدتر بنا رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ اب مایوسی اور ذہنی تناؤ کی شکلوں میں نکل کے آیا ہے۔ مستقبل کی فکر نوجوان کو کھائی جارہی ہے۔ ایک فارم کو بھرنے کے لئے پانچ سو روپے وہ ماں باپ سے لیتا ہے۔ اب جہاں فارم بھرنا ہے وہاں تک جانے کے لیے بھی کرایہ والدین سے لیتا ہے۔ امتحان کے دنوں بھی کرایہ کا خرچہ والدین کے کندھوں پر ہوتا ہے۔ پھر جب نتائج آتے ہیں تو وہ امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جن کے پاس رشوت اور اثرورسوخ ہوتا ہے۔ ہاں اگر غریب جوان امتحان میں کامیاب بھی ہوتا ہے، مگر نتائج آنے کے بعد امتحان کو ہی رد کیا جاتا ہے کیونکہ امتحان دھاندلیوں کا شکار ہوا تھا۔ تو اس صورتحال میں اب یہ امید لگائے بیٹھنا کہ نوجوان اپنی توانائیاں کارآمد کاموں میں صرف کرے گے،ایک سراب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ میری رائے کے مطابق اس جیسے امتحانات میں اپنا وقت اور توانائی لگانا، دونوں ضائع ہے۔
پہلے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ علم نور ہے اس سے جہالت دور ہوتی ہے اور اچھا روزگار ملتا ہے۔ مگر آج لگتا ہے کہ پڑھائی سے ذہنی کوفت زیادہ ہوتی ہے اور روزگار کا ملنا لگ بھگ محال ہے۔ میں نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ جتنی جہالت پڑھے لکھے طلاب میں ہیں، اتنی ان پڑھ لوگوں میں نہیں ہے۔ ایک ان پڑھ ترکھان مہینے میں لگ بھگ پندرہ ہزار روپے کماتا ہے۔ زندگی کسی بھی افراتفری کے بغیر گزارتا ہے۔ ایک مزدور مہینے میں لگ بھگ دس ہزار روپے کماتا ہے اور زندگی آرام سے گزارنے کی حتالامکان کوشش کرتا ہے۔ مگر اس کے برعکس آج کا جوان اپنا پیٹ پالنے سے بھی قاصر ہے۔ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے وہ دوسروں کا محتاج ہیں۔ تو اس قسم کی پڑھائی کسی بھی لحاظ سے پڑھائی کے زمرے میں نہیں ڈالی جاسکتی۔
اب اس صورتحال سے نکلنے کے بہت سارے راستے تھے۔ مگر وہ بھی اب بند دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر رشوت کی لعنت پر روک لگائی جاتی، تو کسی حدتک اعلیٰ اذہان ضائع نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ اگر نجی سیکٹر کو فروغ دیا جاتا اور بڑے بڑے کارخانے لگاۓ جاتے،تو بھی بےروزگاری پر قدغن لگائی جاسکتی تھی۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ کے حکومت اس ضمن میں پہل کرے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں زیادہ سے زیادہ نوکری کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ ملکوں کے درمیان چلے آرہۓ سیاسی یا مذہبی مسائل کو نظر انداز کرکے، پوری انسانیت کی ترقی کے بارے میں سوچے۔ اپنے ملک میں باہری کمپنیوں کو کام کرنے کے لئے وسائل مہیا کرے۔ اس کے لئے بڑے بڑے ممالک کی طرف دیکھنا پڑے گا کہ کیسے انہوں نے صفر سے شروع کرکے سو کا ہندسہ چھولیا۔ اگر ہم سارے واقعی جوانوں کی موجودہ صورتحال کی طرف سنجیدہ ہے، تو ہمیں جلد سے جلد کوئی حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ ہم نوجوانوں کو ایسے ہی مایوسیوں کے دلدل میں جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے حال پر رحم کرے۔ ہمارے نوجوانوں کو روزگار عطا کرے۔ ان کی زندگیاں سکوں سے بھرے۔
