تحریر:محمد سلیم سالک
(پیش نوشت :اگر خداناخواستہ کسی” صاحب“ کو یہ تحریر پڑھ کر اپنی شخصیت کے ایکسپوز ہونے کا خدشہ محسوس ہوتو وہ براہ مہربانی اس تحریر کو Share نہ کریں )
جب سے میں سرکاری ملاز م ہوگیا ہوں تب سے گھر ،دفتر کیا پاس پڑوسی بھی مجھے صاحب کے نام سے پکارتے ہیں ۔مجھے آج تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ میری عزت افزائی کررہے ہیں یا مضحکہ اڑاتے ہیں ۔بہرحال جو بھی ہو یہ طے ہے کہ اب میں بھی یہ محسوس کرنے لگا ہوں کہ میں واقعی صاحب ہوں۔
پہلے جب ٹوٹی پھوٹی چپل پہن کر بازار کی طرف نکلتا تھا تولوگ پھٹیچر سمجھ کر خود بخود راستہ چھوڑ دیتے تھے جیسے انہیں کورنا روائرس کی لاگ لپہٹ کا خطرہ ہو لیکن اب سوٹ بوٹ اورماسک پہن کربازار کی طرف نکلنے کو دل نہیں کرتا بلکہ قدم خود بخود سسرال کی جانب اٹھتے ہیں اب اگر لاک ڈاون میں بھی ایسا نہ کروں تو لوگ احسان فراموشی کے طعنے دے کر میرا جینا دوبھر کردیں گے ،کیونکہ یہ نوکری دراصل سسرال والوں کی دین ہے اب اگر صبح سویرے ان کی مزاج پرسی کے لئے نہ جاٶں تو شرافت کے سارے بانڈے بیچ چوراہے پھوٹ جائیں گے ۔
اس پر طرہ یہ کہ جب دفتر کی دہلیز سے ہی چپراسی فرشی سلام مارنے لگتا ہے توخوشی کے مارے پھولا نہ سماتے ہوئے بے اختیار ایک ہاتھ ٹائی کے ناٹ کی جانب تو دوسرا ہاتھ سلام کا جواب دینے کے لئے اٹھتا ہے تاکہ رعب داب جمانے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے پائے ۔کمرے میں داخل ہوتے ہی ٹیبل پر رکھی فائلیں پڑھتا ہوں جو میں ہزار بار پڑھنے کے بعدبھی سمجھ نہیں پاتا ،لیکن دفتر کے باقی ملازمین یہی سمجھتے ہیں کہ میں کام میں بہت مشغل ہوں ،ابھی ایک آدھ گھنٹہ بھی پورا نہیں ہوتا کہ Bellکا بٹن دباکر چائے کی طلب کرنا صاحبی کا ضروری جزو سمجھتا ہوں ۔ابھی سگریٹ کے چند کش ہی لیۓ ہوتے ہیں کہ فیس بک کی سیر کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ساتھ ہی اپنے اوٹ پٹنگ سٹیٹس کی خیر وعافیت بھی معلوم ہوجاتی ہے ۔اب اگر اپنے ماتحت ملازمین بھی اپنے باس کے سٹیٹس پر اچھا سا کومنٹ نہ کریں تو وہ صاحبی کس کام کی ۔کبھی کبھار تو اپنے ماتحت ملازمین کی سرزنش کرنے کی بھی سوجتی ہے کہ انہوں نے میرے پروفائل تصویر کو لیک بھی نہیں کیا ہے ۔فیس بک کے معاملات سے نپٹ کراب اگرکسی صاحب کی فائل میرے ٹیبل پر اٹکی ہوئی ہو تو معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے اس شخص کے سرسے پاٶں تک کا جائزہ لے کر یہ اندازہ کرلیتا ہوں کہ فائل کتنی اہم ہے ۔اگر ہتھیلی میں کھجلی محسوس ہوتو یہ طے ہوجاتا ہے کہ فائل ہم ہے اس لئے اشاروں کنایوں سے سائل کو گھر پر ملنے کی تلقین کرتا ہوں تاکہ صاحبی کا جولبادہ میں نے اوڑھ رکھا ہے اس سے تھوڑا بہت انصاف کرسکوں ۔ورنہ ترقی کا زینہ دیکھنا عمر بھر نصیب نہیں ہوگا۔
گھر پر بھی وقت بے وقت نوکر کو بلا کر کوئی دوسرا کام یاد پڑنے کے بہانے اسے واپس بھیجتا ہوں پھر بلاتا ہوں ایک کام کہہ کرآدھے راستے سے ہی واپس بلاکر دوسرا کام بتادیتا ہوں تاکہ اس گنواردیہاتی کو بھی یہ پتہ چلے کہ میں کتنا مصروف ہوں ۔اس طرح وہ محلے کے دوسرے نوکروں تک میری بے حد مصرفیت کی خبریں پہنچا کر میری صاحبی کی دھاک میں اضافہ کرتا ہے لیکن جب یہی نوکر تنگ آکر سارے مہینے کی پیشگی پگار لے کررفو چکرہوجاتا ہے توبیوی صاحبہ گلے پڑجاتی ہے ۔سخاوت اور دریادلی کے طعنے مار مار چار جوڑے کپڑے بیگ میں بھر کے میکے جانے کی تیاری کرتی ہے تاکہ نوکر کی عدم موجودگی میں اس کے ہاتھوں کی مہندی کارنگ پھیکا نہ پڑجائے ۔
ؓٓ اب آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ گھر کے باہر اور دفتر میں تو صاحب ہوں لیکن گھر کے اندرمیری حالت ایسی بنتی ہے جیسے سرکاری ہسپتال کی دال ۔جب بیوی میک اپ سامان کی لسٹ میرے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے دھمکی دیتی ہے کہ اگر چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر یہ ساری چیزیں میرے ڈرائسنگ ٹیبل پر نہیں ہوں گی تو دوسری ملاقات کورٹ کے کٹہرے یعنی سسرال کی چوپال میں ہوگی ۔یہ سنتے ہی میرے ہاتھ پاٶں جواب دینے لگتے ہیں کہ اگر کہیں میں سسر اور ساس کے سامنے پیش ہوا تو نوکری سے برطرفی کا خطرہ لاحق ہوگا کیونکہ سسر صاحب پولیس میں اور ساس صاحبہ انکم ٹیکس محکمہ میں کام کرتے ہیں ۔
