
ترقی اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں سرزمین کشمیر شاید واحد ایک خطہ ہے جہاں پر بے روزگاری کا مسئلہ حد سے زیادہ درپیش ہے. یہاں اگرچہ تعلیمی شعبے سے روز بے شمار فارغ طلبا کاغذ کی سندیں حاصل کرکے نکلتے ہیں لیکن اس کے بعد سرکاری نوکری ہی ان کے پاس ایک واحد خیال ہوتا ہے جس کے سبب آج کی تاریخ تک ہماری ساری قوت زنگ آلودہ ہوگئ ہے. کالج یا یونیورسٹی سے فارغ ہوکر ہی ہمارے ماتھے پر بے روزگاری کا بدنما داغ کیوں لگ جاتا ہے.کیا ہماری تعلیم صرف ڈگری کا نام ہے یا ہمارے ادارے ہمیں وہ تعلیم دینے میں کمزور نظر آتے ہیں جس سے ہمارے اندر کی دنیا جاگ جائے اور سرکاری نوکری کی تسبیح کو پڑھے بغیر اپنے پاوں پر کھڑا ہوجائیں گے.کیوں ہم فارغ ہوتے ہی اپاہج بن کر بے روزگاری کا مرثیہ سناتے ہیں. کیا ہمارے ادارے جدید لائحہ عمل کو اختیار کرکے ہمیں اس قابل نہیں بنا سکتے کہ ہم جو ش و جنون کے ساتھ سرکاری ملازمت کو یکطرف رکھ کر کسی نئی سوچ کو آزما کر کچھ نیا کریں . کیا ان اداروں میں وہ طریقہ ہی نہیں اپنایا جاتا جس سے ہم اپنی دنیا خود تعیمر کرسکیں . اس تعلیم سے جو بیج حاصل ہوتا ہے اس کی پیداوار ہی کمزور ہے. کیوں مختلف تکنیکی تعلیم پانے والے نوجوان فارغ ہوتے ہی بے روزگاری کا ماتم منانے لگتے ہیں. تعلیمی اداروں کو تعلیم میں وہ روح پھونکنی چاہیے کہ نوجوان اپنی صلاحیت کو بروئے کار لاکر اوروں کو بھی روزگار دے سکیں. اب ان کاغذی ڈگریوں سے سارا سماج پریشان ہے اور ہر ایک بندہ بے روزہ گاری کا نوحہ کررہا ہے. طالب علموں کو انہی کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ایسی تربیت دینی ہے کہ یہ سرکاری نوکری کو ترجیح دینے کے بجائے "ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہے”کا فلسفہ سمجھ سکے. موجودہ دور میں کارروبار کی کتابیں پڑھنے والا ایم بی اے کا طالب علم بھ فارغ ہونے کے بعد کلاس فورتھ نوکری پانے کے لیے کوشش کرتا ہے. کئی ٹیکنکل ڈگریاں لینے والے بھی معمولی نوکری کے لئے خود کو پریشان کرتے ہیں. ایک نوجوان کو ہر حال میں جینے کا فن تعلیمی اداروں کے سوا اور کون سکھا سکتا ہے. یہاں کے تعلیمی صورتحال میں کسی چیز کی کمی ہے جو کہ جانچنا وقت کی ضرورت ہے. اسی کمی کے سبب ہمارا شاہین اعتماد سے خالی ہے. اس خیال پر کئ لوگوں کا خیال یہاں قلمبند کرتا ہوں. معروف نوجوان اور جموں کشمیر ٹیچرس فورم بارہمولہ کے صدر محترم جاوید احمد بٹ صاحب کے مطابق ہمارے نوجوان تعلیم صرف سرکاری نوکری کے لئے حاصل کرتے ہیں جو ایک کمزور خیال ہے.ستم ظریفی یہ کہ ہمارا سسٹم بھی اسی خیال کو فروغ دیتا ہے.
چیف ایجوکیشن آفیسر رجوری محترم محمد شبیر صاحب کے مطابق اس سوچ کا جواب اب نئی ایجوکیشن پالیسی میں ترتیب کیا گیا ہے. جہاں سے بچے کو ایسے کام کے لیے تربیت یافتہ کیا جائے گا جو اس کے فہم و ادراک کے موافق ہے. شبیر صاحب کے مطابق وقت کی ضرورت بھی ہے کہ شاہینوں کو وہ تربیت دی جائے کہ ان کے اندر سرکاری نوکری کا بے معنی خیال ختم ہوجائے ۔
معروف اسکالر اور قلمکار ڈاکٹر مبارک صاحب کے مطابق گاندھی جی کا تو یہی رونا تھا پڑھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو مختلف فنون سکھائے جائیں تاکہ وہ کم سے دو وقت کی روٹی اپنے دم پر کما سکے ـ کتابیں ذہن میں بھرنے سے تھوڑی جیب بھرتے ہیں ـ
صوفی نائلہ نامی طالبہ کے مطابق آج کے تعلیمی ادارے ہی بے روزگاری کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہاں پر بچوں کو وہ تعلیم فراہم نہیں کی جاتی ہے جس کی ایک بچےکو ابتدائی مرحلے میں ضرورت ہوتی ہے ۔
یہ خیالات پڑھ کر حاصل کلام یہ ہے کہ شاہین کو بیدار ہونا ہے اور تعلیمی اداروں کو جگانا ہے تاکہ ہم ایک کامیاب, خوشحال اور ترقی یافتہ جہاں آباد کرسکیں .
