تحریر:- قاضی سلیم الرشید لاروی
پچھلے کچھ عرصہ سے جموں و کشمیر میں ایک گھناؤنا اور خطرناک سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ریزرویشن کی سبز پری کو سیاسی سٹیج پر لاکر سماج کے مختلف طبقات کے درمیان ایک قسم کی سرد جنگ شروع کی گئی ہے۔ سماج کے ایک طبقے کو دوسرے طبقے کے آمنے سامنے کھڑا کیا گیا ہے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔ گوجر بکروالوں کے خلاف صف آراء ہوۓ ہیں۔ پہاڑی دونوں گوجروں اور بکروالوں کے مد مقابل کھڑے ہوۓ ہیں۔ پہاڑیوں کو ریزرویشن کی سبز پڑی دکھا کر اپنی طرف کھینچا جارہا ہے۔ آج جموں وکشمیر کے پہاڑی یکجا ہوکر اپنا حق مانگ رہے ہیں اور بہت حد تک یہ اس کو منوانے میں کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔ آج راجوری کا پہاڑی بولنے والا کنگن کے اپنے ہم زبان کے شانہ بہ شانہ اکھٹا ہوچکا ہے۔ پونچھ کا پہاڑی اوڈی کے رہنے والے اپنے پہاڑی بھائی کے ساتھ ریزرویشن حاصل کرنے کے لۓ ایک ہوگیا ہے۔ ادھر ریزرویشن کے اس سیاسی کھیل نے گوجر بکروالوں کو یکجا کرکے پہاڑیوں کے خلاف میدان میں اتارا ہے۔ گوجر جو اپنے آپ کو ایس ٹی( S T ) زمرے کا واحد حقدار طبقہ سمجھتا آرہا تھا آج پہاڑیوں کے ایس ٹی ST کے دعوے سے بھوکھلا سا گیا ہے اور پہاڑیوں کے اس دعوے کو سرے سے خارج کرتا نظر ارہا ہے۔ گوجر بکروالوں کا ماننا ہے کہ پہاڑی زبان کوئی زبان ہو تو ہو لیکن صرف زبان کی بنیاد پر ہی اس
طبقہ کو ریزرویشن کیسے دی جاسکتی ہے چہ جایکہ انہیں شیڈول ٹرایب(ایس ٹی) کے زمرے میں شامل کیا جاۓ ؟ عرصہ سے چلی آرہی اس لڑائی میں اس وقت ایک نیا ہی موڈ آیا جب ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے جموں آکر اس بات کا اعلان کیا کہ روایتی اور خاندانی سیاست دانوں کے دن ختم ہونے کو آۓ ہیں۔ یہ بات اب ایک مفروضہ بنتی جارہی ہے کہ ملک اور ریاستوں میں اب چند روایتی سیاسی خاندانوں کی ہی بالادستی قائم رہےگی۔ وقت آچکا ہے کہ سماج کے دیگر غریب اور کمزور طبقات بھی اپنی طاقت پہچان کر ریاست اور ملک کی تعمیر نو میں اپنی حصہ داری کو یقینی بناسکیں۔ اس سلسلہ میں وزیر داخلہ نے جموں وکشمیر کے پہاڑی طبقہ کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ عملی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے لۓ آگے آئیں۔ خاندانی سیاست دانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیت شاہ نے اس بات کا اشارہ دیا کہ اگلی بار پہاڑی طبقہ سے وابستہ کوئی سیاست دان بھی یہاں کا وزیر اعلی بن سکتا ہے۔ سیاسی ڈپلومیسی کا ایک بڑا تیر پھینک کر وزیر داخلہ نے جموں وکشمیر کی سیاست میں ایک نئی طرح کی صف بندی کو جنم دیا۔ وزیر داخلہ کے اس اہم اعلان کے ساتھ ہی مقامی اور ملکی سطح پر سیاسی سرگرمیاں شروع ہونے لگیں۔ پہاڑی طبقہ حوصلہ افزائی پاکر آگے آنے لگا۔ جموں و کشمیر کے ہر علاقے سے پہاڑی پوری قوت کے ساتھ میدان میں اترنے لگے۔ سیاسی جماعتوں نے بھی اس سلسلہ میں اپنی اپنی حکمت عملی بنانی شروع کی تاکہ پہاڑی طبقہ کی بھاری آبادی کو اپنی طرف کھینچا جاسکے۔ بی جے پی جیسی قومی پارٹی مرکز میں اپنے اقتدار کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوۓ جموں و کشمیر میں پارٹی کو مظبوط تر بنانے میں جھٹ گئی اور یہاں اکیلے طور حکومت بنانے کی حکمت عملی پر کام کرنا شروع کیا۔ اس ضمن میں پارٹی کی جموں و کشمیر یونٹ کےصدر رویندر سنگھ، جو خود بھی پہاڑی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، نے یو ٹی میں ایک زبردست سیاسی مہم شروع کی ہوئی ہے۔ اپنی اور اپنی پارٹی بی جے پی کا سپورٹ جتلا کر کافی حد تک رویندر جی پہاڑی طبقہ کو اپنی طرف پھیرنے میں کامیاب ہورہےہیں۔ بالواسطہ اپنے کو بی جے پی کی طرف سے چیف منسٹری کا متوقع چہرہ (CM Face) ظاہر کرکے رویندر سنگھ نے عوامی سطع پر اپنی پوزیشن مظبوط بنائ ھے جس کا عندیہ حال ہی کی گئی ایک سروے سے بھی ملتا ہے جسمیں شری رویندر سنگھ کو دیگر لیڈروں جیسے نیشنل کانفرنس کے ڈاکٹر فاروق اورعمر عبداللہ ، پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی، کانگریس سے حال ہی میں علحیدہ ہوۓ ملک کے اہم سیاسی لیڈر اور حال ہی میں بنائی گئی ڈیموکریٹک آزاد پارٹی کے بانی صدر غلام نبی آزاد، عوامی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری اور پیپلز کانفرنس کے چیرمین سجاد غنی لون کے مقابلہ میں عوامی سطح پر زیادہ مقبولیت کا حامل دکھایا گیا ہے۔ آیا یہ سروے آزادانہ طور سےکی گئی ہے اس پر کوئی حتمی رائے قائم نہی کی جاسکتی ہے۔ لیکن آثار وقراین اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ملک کی بر سر اقتدار ہندو بنیاد پرست پارٹی باجپا سیاسی ایڈوینچرازم کی شوقین ہے اور جموں وکشمیر سے دفعہ 370 ہٹاۓ کے بعد اب ایک اور بڑا سیاسی دھماکہ کرنا چاہتی ہے تاکہ اندرون ملک اپنی سیاسی ساکھ کے ممکنہ گرتے ہوۓ گراف کو اوپر چھڑانے کے لۓ کشمیر کارڈ کا ایک با پھر استعمال کیا جاسکے۔ جموں کشمیر جیسی مسلم اکثریتی والی ریاست( فلوقت یو ٹی) میں بی جے پی کی حکومت قائم کرنا ملکی سیاست کے لۓ اتنا دھماکہ خیز ثابت ہوسکتا ہے کہ 2024 کے پارلیمانی الیکشن میں اس کی گونج صاف طور پر سنائی د ےگی۔ یہی بی جے پی کیلۓ سب سے بڑا فائدہ مند سیاسی حربہ ہے جو آنے والے پارلیمانی الیکشن میں جیت کا سبب بن سکتا ھے۔
دوسری جانب ریزرویشن کے اس سیاسی چکر کے نتیجہ میں مقامی سیاسی جماعتیں بھی پریشان ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ جموں و کشمیر کی سب سے پرانی اور مظبوط سیاسی پارٹی نیشنل کانفرنس لگتا ہے کہ حواس باختہ ہوگئی ہے۔ اپنے آج تک کا پا لا ہوا گوجر بکروال ووٹ بنک کھسکتا ہوا نظر آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں گوجروں کے ایک با اثر سیاسی لیڈر میاں الطاف احمد (کنگن)جو پہلے ہی نیشل کانفرنس کے ساتھ سیاسی طور وابستہ ہیں کو نیشنل کانفرنس کی قیادت اور قریب لانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ انہیں گوجر بکروال طبقے کو اپنی پارٹی کے ساتھ شامل رکھنے کا یہی ایک موثر ذریعہ دکھائی دیتا ہےجبکہ اس طبقہ سے ان کی ایک اور وابستگی وقت کے ساتھ دیرینہ ہوتی چلی گئی ہے جو فاروق عبداللہ کی والدہ محترمہ مرحومہ بیگم اکبر جان سے رہی ہے۔ جو گوجر قبیلہ کی بیٹی تصور کی جاتی رہی ہیں۔ دوسری جانب ریاست کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) بھی اس طبقہ کو اپنی طرف کھینچنا چاہتی ہے۔اس سلسلہ میں پی ڈی پی اپنے مرحوم لیڈر مفتی محمد سعید کے اس طبقہ میں پاۓ جانے والے اثر و رسوخ کی بنیاد کو آگے لے جاتے ہوۓ راجوری، پونچھ ، ریاسی کے علاوہ وادی کے برنگی، اوڑی اور شوپیان میں رہائش پذیر گوجر بکروال طبقہ سے وابستہ مقامی لیڈراں کی خدمات حاصل کرنے میں جٹ گئی ہے۔ اگرچہ انتخابات میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کا سمجھوتہ قرین قیاس ہے لیکن سیاست میں کسی بھی طرح کا پھیر بدل وقت کی منشاء کے تابع ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ یہاں کی دیگر سیاسی جماعتیں اس سلسلہ میں زیادہ اثرانداز نہی ہوسکتی ہیں۔
جہاں تک پہاڑی طبقہ کا تعلق ہے اس کا جکاو حالات کے تابع ہے۔ جو پارٹی اس کی سبز پری یعنی شیڈول ٹرایب (ایس ٹی) قرار دینے اور اسمبلی میں حسب تناسب سیٹیں مخصوص رکھنے میں نمایاں رول ادا کرے گی وہی پارٹی اس کے ووٹ حاصل کرنے کی امید رکھ سکتی ہے۔ اس محاذ پر بھارتی جنتا پارٹی یعنی بی جے پی سب سے مظبوط دعویدار لگتی ہے۔ پہاڑیوں کو ایس ٹی کا درجہ دینے کی مانگ اگرچہ بہت پہلے سے چلی آرہی تھی 1970 کے آغاز میں کرناہ کے قریشی برادران ( ایڈوکیٹ نوراللہ قریشی اور ان کے بڑے بھائی کریم اللہ قریشی ) نے سیاسی عتاب سے بچنے کے لۓ ایک تحریک کے بجائے کلچر کا لبادہ اوڈھ کر ” پہاڑی کلچرل فورم ” نام سے ایک سوسائٹی تشکیل دی جس کا مدعا و مقصد پہاڑی طبقہ کو اس کے حقوق دلانا تھا۔ لیکن ایک مخصوص طبقہ سے وابستہ سیاسی لیڈروں اور حکمرانوں نے اس پہاڑی تحریک کو بری طرح سے دبایا۔ نتیجتا” اس کی قیادت( قریشی برادران ) سرحد کے اس پار ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئی۔ باقی ماندہ افراد ایک ایک کرکے خاموشی ہوتے گۓ یا کراۓ گۓ۔ بعد ازاں پہاڑی طبقہ میں جو بھی لیڈر شپ ابھری وہ ٹکراؤ کے بجائے سمجھوتہ کرتی چلی گئی اور اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرتے ہوۓکما حقہ پہاڑیوں کے روزمرہ کام کرنے تک ہی معدود ہوکے رہ گئی۔ اب جبکہ بی جے پی نے پہاڑیوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تو یہ لوگ گہری نیند سے جاگ اٹھے اور اپنی گم شدہ چیز کو پھر سے تلاش کرنے لگ گۓ۔ اس تلاش کی راہ میں انہیں اب اپنے ہی چیچیرے بھائیوں سے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔گوجر طبقہ ان (پہاڑیوں) کی مجوزہ ریزرویشن کو اپنے کوٹے پر شب خون مارنا سمجھتے ہیں۔اس دوران ریزرویشن کی اس سبز پری نے سماج کے اور بہت سارے طبقوں کو اپنی زلفوں کا گرویدہ بنانا شروع کیا۔جسمیں شینا،گڈول،چوپان وغیرہ شامل ہوگۓ ہیں۔ریزرویشن کی یہ پری نہ جانے جموں و کشمیر کو کہاں سے کہاں لے جاۓ گی؟ معدود سیاسی فائدہ کی خاطر قوم اور سماج میں ایک بڑا انتشار جنم لے چکا ہے۔ملک کی یہ واحد مسلم اکثریتی ریاست پہلے ہی کشمیری پنڈتوں کی ہجرت سے پیدا ہوئی مذہبی منافرت کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اب طبقاتی اور علاقائی کشمکش اس کی رہی سہی کسر پوری کرنے پہ تلی ہوئی ہے۔
نہ مانو گے تو مٹ جاو گے اے کشمیر والو
تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
