
سوپور میں ہماری ایک بیٹی نے دریا میں چھلانک لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا. یہ واقعہ اس سماج میں ہوا جہاں پر انسانیت کا مدد ہی مذہب ہے. اس قوم میں یہ واقعہ ہوا جہاں افرنگی صوفوں اور ایرانی قالین پر زندگی گذارنے والے لوگ رہتے ہیں. اس بیٹی کا کوئی جرم نہیں بلکہ جرم اس سماج کا ہے جنہوں نے خود غرضی کے چادر میں خود کو ڈھانپ کے رکھا ہے. مجرم ہم سب ہے اور یہ قتل ہم نے مل کر کیا ہے. کیونکہ آج تک اس یتم اور بیوہ ماں کے گھر کوئی پوچھنے والا نہیں گیا. آج تک رشتہ داروں یا ہمسائیوں نے اس کے درد کو ذرا بھی محسوس نہیں کیا بلکہ یہ بے بس گھرانہ اندر ہی اندر زندگی کا للکار سہہ رہے تھے. چند لقموں کے لئے مجبور یہ بہن اپنی ماں کی بے بسی دیکھ کر اب تنگ آچکی تھی. یہ کم عمر میری بہن زندگی کی تلخ حقیقت اور سماج کا سخت رویہ دیکھ کر بہت کمزور ہوگئی تھی. کیونکہ یہ اس سماج کی فرد تھی جہاں ہمدردی کرنے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر رسوا کیا جاتا ہے. جہاں غربت کے دنوں میں اپنے اور ہمسائے مختلف طعنے دے کر انسان کو ذلیل کرتے ہیں. اس بیٹی کا خود کو دریا کے حوالے کرنا ہمارے چہرے پر ایک زور دار تھپڑ ہے. کہاں گئے خیرات اور صدقات بانٹنے کا دعوا کرنے والے,کہاں ہے قوم کے ترجمان,سیاسی رہبر,سماجی کارکن انسانی مدرس اور قومی ٹھیکدار.کہاں تھے آج تک. کیا جواب دیں گے ہم محشر میں اپنے مالک کو اگر پوچھا گیا کہ امیروں کے شہر سے چند لقموں کے خاطر جان دینے والی اس بیٹی کا حساب دیا جائے. کیاسوپور کے اس علاقے میں کوئی ایسا اللہ کا بندہ نہیں تھا جس نے آج تک اس بے بس خاندان کی خبر لی ہوتی.اس امیر شہر میں اس گھر کی خبر آج تک کسی نے نہیں لی اگر چہ اب لوگوں کا ہجوم دریا کے کنارے لاش کے منتظر ہے. اب کیا فائدہ. ان کے رشتہ داروں اور آسودہ حال ہمسائیوں کے لئے بھی یہ ماتم ہے کیونکہ انہوں نے اس بیٹی کو سہارا نا دیا جس کے سبب یہ نازک جان دنیا کو الوداع کہہ کر چل بسی. اگر انسانیت کو زندہ رکھنا ہے اگر کشمیریت کو ایسے حادثات سے بچانا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ اپنے علاقوں محلوں اور بستیوں میں بیت المال قائم کریں.ایسے بیت المال جہاں سے کوئی بے سہارا ناامید ہوکر نانکلے. ابھی اللہ نے ہمیں موقعہ دیا ہے کہ قوم کے درد مندوں کی حمایت کرسکیں گے.اس قوم میں بے شمار لوگ بے بسی اور مشکلات کی زندگی جی رہے ہیں ان کا سہارا ہر ایک کو بننا ہے کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ
رچھن کانہہ کانسہ اتھہ روٹ کانسہ آہی
یمے کینہہ کتھ چھ بیہ کیا چھ لارن
اس درد کو سمجھنا ہے جس کے سبب ہماری بیٹی نے خود کو دریا کے لہروں کے حوالے کیا. ان لہروں سے بھی یہی صدا آتی ہوگی کہ انسانوں کی اس بستی میں کتنے ظالم اور سنگ دل لوگ رہتے ہیں. اس بیٹی نے دریا کو محافظ سمجھا اور اس ظالم شہر کے لوگوں سے راہ فرار اختیار کیا. اب سماجی کارکن ،مذہبی رہنما ،سیاسی ترجمان اور دیگر تنظمیں ان کے گھر جاکر تعزیت پرسی کرتے ہیں اور یہاں انسانیت پر روشنی ڈال کر خود کو خیر خواہ ثابت کرتے ہیں لیکن یہ سب کچھ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں. فقط تصاویر کھینچ کر اپنے تنظیموں کی تشہیر. سماجی ترقی کے دعویدار اس مصیبت کو اب کس طریقے سے لیں گے. اپنے رشتہ داروں اور ہمسائیوں کی خبر لیا کرو تاکہ کل ہم اللہ کے سامنے مجرم نا ثابت ہوجائیں. ہم سب کو مل کر ایک دوسرے کا خیر خواہ بننا ہے تب جاکے قوم میں انسانی ماحول دوبارہ لوٹ آئے گا. اللہ ہمارے اندر جذبہ انسانیت پیدا کرے اور ہر آفت اور مصیبت سے نجات عطا کرے.آمین
