از:انیل پدمنابھن
اس سال کا مرکزی بجٹ یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی طرف سے لگاتار گیارہواں بجٹ غیر معمولی حالات کے پس منظر میں پیش کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف ایک گہری تقسیم کی شکار دنیا کو ایک بے مثال اقتصادی چیلنج کا سامنا ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے مزید پیچید ہ ہو رہا ہے، بلکہ یہ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات سے قبل آخری باضابطہ بجٹ بھی ہے۔
2020 میں جب سے کووِڈ-19 وبائی بیماری پھیلی ہے، دنیا کو غیر معمولی شدت کے بار بار جھٹکے لگے ہیں—روس-یوکرین تنازع، جس کے بعد ریاستہائے متحدہ کے وفاقی ریزرو کی جانب سے شرح سود میں اضافہ، اور حال کے دنوں میں چین میں کووڈ-19 وبائی مرض میں تازہ اضافہ ہواہے۔
وبائی مرض، جغرافیائی سیاسی تناؤ، عالمی لیکویڈیٹی میں انحطاط اور اشیاء کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے مشترکہ اثرات نے سب سے بڑی معیشت یعنی امریکہ سمیت پوری دنیا کو خطرناک حد تک کساد بازاری کے قریب پہنچا دیا ہے۔
تاہم، وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے خوش رہنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان اس سنگین عالمی بیانیہ کو مسلسل چیلنج کررہا ہے اور اس کی معیشت 2022-23 میں 6.5سے7 فیصد کی متاثر کن ترقی پر عملدرآمد کے لیے تیار ہے۔ مزید بر آں ، وزیر خزانہ کے پاس یہ یقین کرنے کی کافی وجہ ہے کہ بڑی حد تک یہ پالیسی پلے بک کا نتیجہ ہے جسے این ڈی اے نے 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اپنایا تھا۔
نئی پلے بک
جب سے این ڈی اے نے (نو سال قبل) اقتدار سنبھالا ہے، اس نے ہندوستانی معیشت کو متحرک کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان پالیسی تبدیلیوں کو حال ہی میں عالمی سرمایہ کاری بینکوں، عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے سراہا اور ان کی توثیق کی ہے۔
اس کی شروعات خدمات اور اشیا ء ٹیکس (جی ایس ٹی) کو— جو واحد سب سے بڑی بالواسطہ ٹیکس اصلاحات ہے —متعارف کرانے سے ہوئی، جس نے پہلی بار ملک کو معاشی طور پر متحد کیا۔ جی ایس ٹی کے اصول، ‘ایک قوم، ایک ٹیکس’ نے ڈرامائی طور پرمزاحمت کو کم کر کے معیشت کو مزید موثر بنایا ہے۔یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ماہانہ مجموعی جی ایس ٹی کی وصولی اب اوسطاً ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہے — نومبرکے مہینے میں خزانے میں جمع ہونے والی رقم 1.45 لاکھ کروڑ روپے تھی۔
نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور بحالی کے لیے مرکزی حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو موجودہ 30 فیصد سے کم کر کے 22 فیصد کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ، اس نے 2019 کے بعد شامل ہونے والی کمپنیوں کے لیے 15 فیصد کی کم شرح مقرر کی ہے- اس اسکیم کو 2023 تک بڑھا دیا گیا ہے۔
اسی طرح، 2016 میں انسولوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ (آئی بی سی) کی منظوری نے تجارتی بینکوں کے ان قرضوں کو کم کرنے میں مدد کی جنہیں واپس نہیں کیا جاسکے۔ 2021-22کے اقتصادی سروے کے مطابق، مالیاتی قرض دہندگان نے 30 ستمبر 2021 کے آخر میں بینکوں کے واجب الادا 7.94 لاکھ کروڑ روپے کے قرض میں سے 2.55 لاکھ کروڑ روپے کی وصولی کی۔ مالیاتی شعبے کے ذریعہ ان اصلاحات نے، جس میں بینک بیلنس شیٹس کی سرمایہ کاری بھی شامل تھی، کمرشیل بینکوں کی قرض دینے کی صلاحیت کو بحال کیا۔
این ڈی اے نے نجکاری کی پالیسی کو باضابطہ بنانے کے بعد ایک بڑی نظریاتی بحالی کا بھی آغاز کیا – جس کی تازہ ترین مثال ٹاٹا گروپ کو ایئر انڈیا کی فروخت تھی۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی حکومت نے بڑے بڑے گرین فیلڈ انفراسٹرکچر پروجیکٹوں کے مالی وسائل پیدا کرنے کے لیے نجی شعبہ کی ملکیت میں موجود بیکار اثاثوں کو مونیٹائز کرنا شروع کر دیا ہے – بنیادی حکمت عملی نجی سرمایہ کاری کو جمع کرنا ہے۔
مالی سمجھداری کے حصول، مالی وسائل کی بندش کا خاتمہ اور ٹیکس وصولیوں میں تیزی نے وزیر خزانہ کو بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور کووڈ 19 ریلیف پیکجوں کے لیے فنڈ فراہم کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
اس سے بھی اہم یہ ہے کہ اب یہ واضح طور پر ڈھانچہ جاتی اصلاحات، جنہوں نے معاشی کارکردگی کو بہتر بنایا، وبائی مرض کی وجہ سے ہونے والی معاشی تباہی کے خلاف ایک بفر ثابت ہوئی ہے۔
ڈیجیٹل عوامی اشیا ء
ہندوستانی معیشت کو ڈیجیٹل عوامی اشیا ء (ڈی پی جی) جیسے گزشتہ دہائی کے دوران آدھار، یونیفائیڈ پیمنٹس انٹرفیس(یو پی آئی)، کو ون ، اوپن نیٹ ورک فار ڈیجیٹل کامرس(او این ڈی سی)، اکاؤنٹ ایگریگیٹر، ہیلتھ اسٹیک اور اوپن کریڈٹ انابیلمنٹ نیٹ ورک(او سی این) کے تیزی سے متعارف کرانے سے بھی غیر متوقع طور پر فروغ ملا۔
ڈی پی جی ایک کھلے ڈیجیٹل ایکو سسٹم کے طور پر بنائے گئے ہیں، جو نجی شعبے کو ادائیگیوں، صحت کی دیکھ بھال وغیرہ میں جدت پیدا کرنے کے لیے ان ڈیجیٹل ریلوں کو استعمال کرنے کے قابل بناتا ہے۔ ساتھ ہی، ڈرامائی طور پر داخلے کی لاگت کو کم کرکے، ڈی پی جی نے معیشت کو باضابطہ بنانے میں تیزی لائی اور شناخت، کووڈ-19 کے ٹیکوں، ادائیگیوں، کریڈٹ اور حال ہی میں ای کامرس تک رسائی کو جمہوری بنایا۔
ان عوامی ڈیجیٹل ریلوں کو مرکزی حکومت نے براہ راست فوائد کی منتقلی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے، جس کا تخمینہ مجموعی طور پر 25 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ نتیجے میں ہونے والی مداخلت نے 2 لاکھ کروڑ روپے کے خزانے کو رساو اور بچت کو بھی روک دیا ہے۔
مزید بر آں ، یہ استفادہ کرنے والے ہندوستانی معیشت کے کلیدی شراکت دار بن گئے ہیں ۔
وبائی مرض
کووڈ-19 وبائی مرض کا آغاز اور اس کی وجہ سےاقتصادی لاک ڈاؤن نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کی زندگیوں اور معاش دونوں کے لیے بہت زیادہ پریشانی کا باعث بنا۔ اگرچہ دیگر اقوام کے برعکس، ہندوستان نے معیشت کو بحال کرنے کے لیے مالی محرک کا انتخاب نہیں کیا۔
اس کے بجائے اس نے ایک متعین حکمت عملی اپنائی، جس میں اس نے ابتدائی طور پر جان بچانے پر توجہ مرکوز کی اور پھر دھیرے دھیرے روزی روٹی پر روشنی ڈالی- یہاں تک کہ اس نے 80 کروڑ لوگوں کے لیے مفت غذائی اجناس کی اسکیم کے ذریعہ کمزور طبقات کی مادی بنیادوں کو تقویت دی، جسے اب دسمبر 2023 تک بڑھا دیا گیا ہے۔
اگرچہ یہ غیر معمولی سماجی حفاظتی جال سب کے لیے بجلی، پینے کے پانی، صفائی ستھرائی اور رہائش فراہم کرنے کے لیے بڑے دباؤ کے ساتھ، مخروطی شکل کے نچلے حصے میں موجود لوگوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے میں کامیاب ہوا، نیز ساختی اصلاحات نے معیشت کو مزید موثر بنا یا ہے۔
اس کا اثر ابھی ظاہر ہونا باقی ہے کیونکہ ہندوستانی معیشت ناقابل ادائیگی قرضوں میں بے مثال اضافے سے بینکنگ سیکٹر کو پہنچنے والے نقصان کو درست کرنے میں مصروف تھی۔ مزید یہ کہ وبائی مرض سے شروع ہونے والی متواتر ناکامیوں نے بحالی کے عمل کو سست کر دیا۔ تاہم، ان یک طرفہ جھٹکوں کے معدوم ہونے کے ساتھ، معیشت بحالی کے لیے تیار ہے، جو اس سال کے بجٹ کے لیے ایک صحت مند پس منظر فراہم کرتی ہے۔
اب وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کی باری ہے ۔
بھارت کے لیے ایک بجٹ
از:انیل پدمنابھن
اس سال کا مرکزی بجٹ یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی طرف سے لگاتار گیارہواں بجٹ غیر معمولی حالات کے پس منظر میں پیش کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف ایک گہری تقسیم کی شکار دنیا کو ایک بے مثال اقتصادی چیلنج کا سامنا ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے مزید پیچید ہ ہو رہا ہے، بلکہ یہ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات سے قبل آخری باضابطہ بجٹ بھی ہے۔
2020 میں جب سے کووِڈ-19 وبائی بیماری پھیلی ہے، دنیا کو غیر معمولی شدت کے بار بار جھٹکے لگے ہیں—روس-یوکرین تنازع، جس کے بعد ریاستہائے متحدہ کے وفاقی ریزرو کی جانب سے شرح سود میں اضافہ، اور حال کے دنوں میں چین میں کووڈ-19 وبائی مرض میں تازہ اضافہ ہواہے۔
وبائی مرض، جغرافیائی سیاسی تناؤ، عالمی لیکویڈیٹی میں انحطاط اور اشیاء کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے مشترکہ اثرات نے سب سے بڑی معیشت یعنی امریکہ سمیت پوری دنیا کو خطرناک حد تک کساد بازاری کے قریب پہنچا دیا ہے۔
تاہم، وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے خوش رہنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان اس سنگین عالمی بیانیہ کو مسلسل چیلنج کررہا ہے اور اس کی معیشت 2022-23 میں 6.5سے7 فیصد کی متاثر کن ترقی پر عملدرآمد کے لیے تیار ہے۔ مزید بر آں ، وزیر خزانہ کے پاس یہ یقین کرنے کی کافی وجہ ہے کہ بڑی حد تک یہ پالیسی پلے بک کا نتیجہ ہے جسے این ڈی اے نے 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اپنایا تھا۔
نئی پلے بک
جب سے این ڈی اے نے (نو سال قبل) اقتدار سنبھالا ہے، اس نے ہندوستانی معیشت کو متحرک کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان پالیسی تبدیلیوں کو حال ہی میں عالمی سرمایہ کاری بینکوں، عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے سراہا اور ان کی توثیق کی ہے۔
اس کی شروعات خدمات اور اشیا ء ٹیکس (جی ایس ٹی) کو— جو واحد سب سے بڑی بالواسطہ ٹیکس اصلاحات ہے —متعارف کرانے سے ہوئی، جس نے پہلی بار ملک کو معاشی طور پر متحد کیا۔ جی ایس ٹی کے اصول، ‘ایک قوم، ایک ٹیکس’ نے ڈرامائی طور پرمزاحمت کو کم کر کے معیشت کو مزید موثر بنایا ہے۔یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ماہانہ مجموعی جی ایس ٹی کی وصولی اب اوسطاً ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہے — نومبرکے مہینے میں خزانے میں جمع ہونے والی رقم 1.45 لاکھ کروڑ روپے تھی۔
نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور بحالی کے لیے مرکزی حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو موجودہ 30 فیصد سے کم کر کے 22 فیصد کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ، اس نے 2019 کے بعد شامل ہونے والی کمپنیوں کے لیے 15 فیصد کی کم شرح مقرر کی ہے- اس اسکیم کو 2023 تک بڑھا دیا گیا ہے۔
اسی طرح، 2016 میں انسولوینسی اینڈ بینکرپسی کوڈ (آئی بی سی) کی منظوری نے تجارتی بینکوں کے ان قرضوں کو کم کرنے میں مدد کی جنہیں واپس نہیں کیا جاسکے۔ 2021-22کے اقتصادی سروے کے مطابق، مالیاتی قرض دہندگان نے 30 ستمبر 2021 کے آخر میں بینکوں کے واجب الادا 7.94 لاکھ کروڑ روپے کے قرض میں سے 2.55 لاکھ کروڑ روپے کی وصولی کی۔ مالیاتی شعبے کے ذریعہ ان اصلاحات نے، جس میں بینک بیلنس شیٹس کی سرمایہ کاری بھی شامل تھی، کمرشیل بینکوں کی قرض دینے کی صلاحیت کو بحال کیا۔
این ڈی اے نے نجکاری کی پالیسی کو باضابطہ بنانے کے بعد ایک بڑی نظریاتی بحالی کا بھی آغاز کیا – جس کی تازہ ترین مثال ٹاٹا گروپ کو ایئر انڈیا کی فروخت تھی۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی حکومت نے بڑے بڑے گرین فیلڈ انفراسٹرکچر پروجیکٹوں کے مالی وسائل پیدا کرنے کے لیے نجی شعبہ کی ملکیت میں موجود بیکار اثاثوں کو مونیٹائز کرنا شروع کر دیا ہے – بنیادی حکمت عملی نجی سرمایہ کاری کو جمع کرنا ہے۔
مالی سمجھداری کے حصول، مالی وسائل کی بندش کا خاتمہ اور ٹیکس وصولیوں میں تیزی نے وزیر خزانہ کو بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور کووڈ 19 ریلیف پیکجوں کے لیے فنڈ فراہم کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
اس سے بھی اہم یہ ہے کہ اب یہ واضح طور پر ڈھانچہ جاتی اصلاحات، جنہوں نے معاشی کارکردگی کو بہتر بنایا، وبائی مرض کی وجہ سے ہونے والی معاشی تباہی کے خلاف ایک بفر ثابت ہوئی ہے۔
ڈیجیٹل عوامی اشیا ء
ہندوستانی معیشت کو ڈیجیٹل عوامی اشیا ء (ڈی پی جی) جیسے گزشتہ دہائی کے دوران آدھار، یونیفائیڈ پیمنٹس انٹرفیس(یو پی آئی)، کو ون ، اوپن نیٹ ورک فار ڈیجیٹل کامرس(او این ڈی سی)، اکاؤنٹ ایگریگیٹر، ہیلتھ اسٹیک اور اوپن کریڈٹ انابیلمنٹ نیٹ ورک(او سی این) کے تیزی سے متعارف کرانے سے بھی غیر متوقع طور پر فروغ ملا۔
ڈی پی جی ایک کھلے ڈیجیٹل ایکو سسٹم کے طور پر بنائے گئے ہیں، جو نجی شعبے کو ادائیگیوں، صحت کی دیکھ بھال وغیرہ میں جدت پیدا کرنے کے لیے ان ڈیجیٹل ریلوں کو استعمال کرنے کے قابل بناتا ہے۔ ساتھ ہی، ڈرامائی طور پر داخلے کی لاگت کو کم کرکے، ڈی پی جی نے معیشت کو باضابطہ بنانے میں تیزی لائی اور شناخت، کووڈ-19 کے ٹیکوں، ادائیگیوں، کریڈٹ اور حال ہی میں ای کامرس تک رسائی کو جمہوری بنایا۔
ان عوامی ڈیجیٹل ریلوں کو مرکزی حکومت نے براہ راست فوائد کی منتقلی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے، جس کا تخمینہ مجموعی طور پر 25 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ نتیجے میں ہونے والی مداخلت نے 2 لاکھ کروڑ روپے کے خزانے کو رساو اور بچت کو بھی روک دیا ہے۔
مزید بر آں ، یہ استفادہ کرنے والے ہندوستانی معیشت کے کلیدی شراکت دار بن گئے ہیں ۔
وبائی مرض
کووڈ-19 وبائی مرض کا آغاز اور اس کی وجہ سےاقتصادی لاک ڈاؤن نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کی زندگیوں اور معاش دونوں کے لیے بہت زیادہ پریشانی کا باعث بنا۔ اگرچہ دیگر اقوام کے برعکس، ہندوستان نے معیشت کو بحال کرنے کے لیے مالی محرک کا انتخاب نہیں کیا۔
اس کے بجائے اس نے ایک متعین حکمت عملی اپنائی، جس میں اس نے ابتدائی طور پر جان بچانے پر توجہ مرکوز کی اور پھر دھیرے دھیرے روزی روٹی پر روشنی ڈالی- یہاں تک کہ اس نے 80 کروڑ لوگوں کے لیے مفت غذائی اجناس کی اسکیم کے ذریعہ کمزور طبقات کی مادی بنیادوں کو تقویت دی، جسے اب دسمبر 2023 تک بڑھا دیا گیا ہے۔
اگرچہ یہ غیر معمولی سماجی حفاظتی جال سب کے لیے بجلی، پینے کے پانی، صفائی ستھرائی اور رہائش فراہم کرنے کے لیے بڑے دباؤ کے ساتھ، مخروطی شکل کے نچلے حصے میں موجود لوگوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے میں کامیاب ہوا، نیز ساختی اصلاحات نے معیشت کو مزید موثر بنا یا ہے۔
اس کا اثر ابھی ظاہر ہونا باقی ہے کیونکہ ہندوستانی معیشت ناقابل ادائیگی قرضوں میں بے مثال اضافے سے بینکنگ سیکٹر کو پہنچنے والے نقصان کو درست کرنے میں مصروف تھی۔ مزید یہ کہ وبائی مرض سے شروع ہونے والی متواتر ناکامیوں نے بحالی کے عمل کو سست کر دیا۔ تاہم، ان یک طرفہ جھٹکوں کے معدوم ہونے کے ساتھ، معیشت بحالی کے لیے تیار ہے، جو اس سال کے بجٹ کے لیے ایک صحت مند پس منظر فراہم کرتی ہے۔
اب وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کی باری ہے ۔
انیل پدمنابھن ایک آزاد صحافی ہیں ، ان کا ٹویٹر اکاؤنٹ @capitalcalculus ہے ۔
