از:مجاہد حسین
حالات تیری کے ساتھ جس طرف لڑھک رہے ہیں ایسے لگتا ہے کہ پاکستان شاید دنیا کا ایک انوکھا ملک ہو گا جہاں سیاست دان اقتدار کی بجائے اپوزیشن کی سیاست کرنا زیادہ مناسب سمجھیں گے۔ معاشی حالات اس قدر ابتر ہیں کہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ کی لوکیشن معلوم کرنا مشکل ہے۔ اگر معاشی حالات کسی بہتری کی طرف جا رہے ہوں تو وزیراعظم شہبازشریف اور خصوصی طورپر ولایت سے منگوائے گئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار روزانہ بھاشن دیتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن ورلڈ بینک کی طرف سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی ممکنہ وصولی تاخیر کا شکار ہے۔ وفاقی حکومت اتنا زیادہ قرض لے چکی ہے کہ خوفناک اعداد و شمار بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر ایک ہی مثال پر اکتفا کرنا ممکن ہوتو موجودہ وفاقی حکومت نے صرف 6ماہ کے دوران 60کھرب 150ارب روپے کا قرضہ لیا ہے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ساڑھے تین سالوں میں 190کھرب روپے قرض لیا تھا۔ گزشتہ برس اپریل میں جب عمران خان حکومت ختم کی گئی تو ملک میں مہنگائی کی شرح 12.2فیصد تھی جو صرف 9ماہ میں دگنی ہو کر 25فیصد تک جا پہنچی ہے۔ ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ شاید ایک ماہ تک وفاقی حکومت یہ اعلان کر دے گی کہ وہ تھک گئی ہے اور ملک معاشی طورپر دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف جو گزشتہ 2سالوں سے روزانہ پاکستان آنے کا اعلان کرتے چلے آ رہے تھے ، بالکل خاموش ہیں اور موجودہ حکومت کی حالت کو دیکھ کر فوری طورپر پاکستان نہیں آ رہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ سیاسی طورپر اُن کے ملک سے باہرہونے کی وجہ سے اِن کی سیاسی جماعت کی جو عزت باقی بچی ہے وہ بھی نہیں رہے گی کیونکہ اگران کا چھوٹا بھائی اُن کی مکمل رہنمائی اورمدد کے باوجود حکومت چلانے اور معاشی معاملات کو سدھارنے میں بری طرح ناکام ہے تو وہ شاید خود بھی اس ناکامی کو کامیابی میں نہیں بدل سکتے۔انہوں نے صرف اپنی بیٹی مریم نوازشریف کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ اپنی سیاسی جماعت کو مکمل طورپر بکھرنے سے بچا سکیں۔ ایسی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ شہبازشریف اپنے ذاتی دوستوں کو کہتے پھر رہے ہیں کہ جس قسم کے حالات ہیں ملک کو اب نوازشریف بھی نہیں چلا سکتے اور اگر قوم چاہتی ہے کہ عمران خان دوبارہ اقتدار میں آ جائیں تو ایسا ہو جانا چاہیے کیونکہ عمران خان بھی معاشی حالات ، سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے خدشات اور بیرونی دنیا کے ساتھ نہ ہونے کے برابر معاشی تعلقات کے باعث ایک ماہ بھی حکومت نہیں چلا سکیں گے۔ شہبازشریف یہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ میاں نوازشریف کا اگر اس وقت یہ مشورہ مان لیا جاتا کہ عمران خان حکومت کو ختم نہ کیا جائے اور اس کو عوام کی نظروں میں بے نقاب ہونے دیا جائے تاکہ اگلے انتخاب میں اس کو عوام کی طرف سے بھرپورجواب ملے لیکن ہم نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے اور نوازشریف کا مشورہ نہ مان کر غلطی کی ہے۔
پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ معاشی حالات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اگر آزادانہ خارجہ پالیسی اپنائی جائے اور قانون ساز ایوانوں میں قانون سازی کے لئے درکار دو تہائی اکثریت ہو اور معیشت کے لئے بہتر فیصلے کئے جائیں تو معاشی مشکلات کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی اگلے انتخابات میں بھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کو قائم رکھنا چاہتی ہے اور اگر فتح نصیب ہوئی تو مرکزی عہدہ نہیں لے گی اور سندھ کی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبہ میں بھی حکومت کا حصہ بننا چاہے گی تاکہ مکمل ناکامی کی صورت میں مرکزی الزامات سے بچا جا سکے اور حکومت میں شامل رہنے کی سہولت کا فائدہ اٹھا کر پیپلزپارٹی کو مضبوط بنایا جائے۔
مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کے خوفزدہ ہونے کی بڑی وجہ عوامی ردعمل ہے اور وہ سپورٹ ہے جو عمران خان کو حاصل ہے۔ دونوں جماعتوں کو یقین ہے کہ اگر ان کو دوبارہ حکومت مل گئی تو بھی عوامی سطح پر ان کو مقبولیت حاصل نہیں ہو گی اور عمران خان اگر سخت جان اپوزیشن تیارکردیتے ہیں اور ایشوز پر حکومت کو ٹف ٹائم دیتے ہیں تو حکومت شاید ان کے پاس ہی رہے لیکن عوامی حمایت کا دھارا عمران خان کے لئے ہی بہتا رہے گا۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ یہ چاہتی ہے کہ عمران خان اقتدار میں تو نہ آئیں لیکن اپنی تنقیدی توپوں کا رخ اس کی طرف سے ہٹا کر نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی طرف ہی رکھیں۔عمران خان کو اقتدار سے اس لئے دور رکھنا بھی ضروری ہے کہ اُن میں بدلہ لینے کی خواہش بہت منہ زور ہے جس کا بھرپور اندازہ عدم اعتماد کی کامیابی سے لے کر اب تک ہو چکا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کو بھی آہستہ آہستہ یہ سمجھ آنے لگی ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کانٹوں کا بچھونا ثابت ہو گی اور وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کو مکمل ناکامی کے خوف سے نکال کر سیاسی شہید بنا دیا گیا ہے بصورت دیگر اس وقت تک ان کی حکومت اس قدر نفرت کما چکی ہوتی کہ وہ اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی ڈر تے۔ اسی لئے وہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ اگر وہ نااہل بھی ہو جائیں تو ان کی جماعت مقبول رہے گی اور عوام کا ساتھ دیتے رہیں گے ۔ اگر ملکی معاشی حالات اور سکیورٹی خدشات گہرے ہوتے ہیں تو کہیں عمران خان اپنی نااہلی کے لئے دعائیں کرنا ہی نہ شروع کر دیں گے۔ دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہو گی جب الیکشن کمیشن پنجاب اور پھر خیبر پختونخوا میں نگران وزیراعلیٰ مقرر کرے گا۔ تحریک انصاف سڑکوں پر ہو گی اور نگران حکومتیں بمعہ وفاقی حکومت چھپتی پھر رہی ہوں گی۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لئے یہی کافی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایسی خبریں بھی سامنے نہیں آ رہیں کہ ملک میں طویل دورانیے کے لئے ٹیکنو کریٹس وغیرہ کی حکومت کے بارے میں سوچا جارہاہے کیونکہ اب شاید ٹیکنو کریٹس بھی میسر نہیں۔
