
ریاست جموں و کشمیر میں ہیلتھ سروس کی رپورٹ کے مطابق 7.1فیصد لوگ کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا شکارہیں۔کچھ لوگ قدرتی طورپر ہیں اور کچھ لوگ حادثات میں زخمی ہونے کی وجہ سے معذورہو چکے ہیں۔جہاں ایک طرف کئی طرح کی اسکیمیں معذور طبقہ کے لوگوں کے لیے واہ گزار ہوتی ہیں وہیں دوسری جانب معذور ں کوسسٹم کی خامی کی وجہ سے بے بس اور بے کس ہونا پڑتا ہے۔آخر کیا وجہ رہتی ہے کہ معذور افراد اتنے زیادہ پریشانی کے عالم میں رہتے ہیں کہ انہیں جینے کی اس تک باقی نہیں رہتی ہے؟اس سلسلے میں ہم نے کئی معذور افراد سے بات کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ ٓاخر معذور لوگ کیوں اپنے آپ کو بے بس سمجھتے ہیں؟اس سلسلے میں جب ہم نے پرویز احمد نامی شخص جن کی عمر تقریبا 50 سال ہے، ان سے جاننے کی کوشش کی کہ انہیں کن کن پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے؟توانہوں نے بتایا کہ میں 30 سال تک بھیڑیں چراتا تھا۔میرے پاس لاکھوں روپے کی آمدنی بھی تھی۔30 سے زائد بھیڑیں بھی موجود تھی اور کئی کنال زمین بھی میرے پاس تھی۔ اچانک ایک رات میں ایک حادثہ میں آگ کا شکار ہو گیااور میں معذور بن گیا۔انہوں نے کہا کہ میں چل بھی نہیں سکتا اور کوئی ویسا کام بھی نہیں کر سکتا جس سے میں اب آمدنی جمع کر سکوں۔پرویز نے بتایا کہ معذور ہونے کے بعد بہت ساری لڑکیوں نے مجھ سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔حالانکہ میرے پاس اتنی آمدنی تھی کہ میں اپنے اہل و عیال کو بڑے ہی خوش مجازی کے ساتھ رکھ سکتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ معذوری کے بعد زندگی آسان نہیں ہوتی ہے کیونکہ معذور انسان کے لیے سماج میں برابری کا درجہ ختم ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی مشکلوں والی ہو جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ سماج میں معذور اور تندرست انسان کے لیے برابری کا حصہ ہوتا تو شائد میں پریشانی کا شکار نہیں ہوتا۔واضح رہے کہ حادثہ کے بعدپرویز احمد دونوں ٹانگوں سے معذورہو چکے ہیں۔حالانکہ وہ تھوڑا بہت تو چل سکتے ہیں لیکن طویل سفر کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
اس سلسلے میں جب ہم نے ایک خاتون سے بات کی جو ایک پہاڑی علاقہ سے تعلق رکھتی ہیں اور معذوری کی حالت میں زندگی بسر کرتی ہیں،نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر بتاتی ہیں کہ معذور ہونا قدرت کافیصلہ ہے لیکن معذور سوچ میں جینا انسان کی اپنی غلطی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں 25 سال کی عمر میں معذوری کی شکار ہوئی تھی لیکن میں کبھی اپنے آپ کو بے بس نہیں سمجھتی ہوں۔اگرچہ میں جسمانی طور پر معزور ہوں لیکن میں ذہنی طور پر تندرست ہوں۔ میں اپنے بچوں کی پرورش اچھے انداز میں کر رہی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچوں کو احساس نہ ہو کہ ان کی ماں معزورہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے بچوں کے کپڑے تو نہیں دھو سکتی لیکن ان کی پرورش اور اخلاقی طور پر انہیں بہتر انسان بنا سکتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ معذور لوگ اپنے آپ کو بے بس نہ سمجھیں کیونکہ معذور انسان زیادہ عقلمند ہوتا ہے۔ان کے علاوہ ہماری بات مصر دین سے ہوئی۔ جن کے تین بچے پولیو کی بیماری کی گرفت میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بچوں کی پرورش کرنا اتنا آسان نہیں ہے اور اگربچے معذور ہوں تو پھروالدین پر قیامت ہی ٹوٹ پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں کہ ہم اپنی مشکلات بیاں کر سکیں۔ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ چار معذور بچوں کو پالنااور پڑھانا میرے لیے قیامت سے کم نہیں ہے۔میں ایک مزدور شخص ہوں۔ میں نے کئی مرتبہ انتظامیہ سے اپیل کی کہ میرے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔میں چاہتا تھا کہ میرے بچوں میں وہ تعلیم ہو جس سے وہ گھر بیٹھے کسی نہ کسی روزگار میں حصہ لیتے اور اپنی زندگی آرام سے گزار کر سکتے۔لیکن میری کسی نے بھی نہیں سنی۔ انہوں نے بتایا کہ میری بیوی بھی بہت زیادہ پریشان رہتی ہے کیونکہ بچے ہمیشہ گھر پر پڑے رہتے ہیں۔گھر میں ان کے پیشاب پاخانے کے لیے بھی وقت نکالنا پڑتا ہے اور گھر کی حالات بھی بہتر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ انتظامیہ معذور لوگوں کی پینشن میں اضافہ کرتی تو کسی کو یہاں میں تنخوا دیتا جو میرے بچوں کی پرورش کرتی اور میری بیوی گھر کا کام کرتی۔
ان کے علاوہ ہم نے ایک اور معذور سے بات کی جنہوں نے بتایا کہ میں انکھوں سے نہیں دیکھ سکتاہوں۔ مجھے اپنی معذوری کا احساس تب ہوتا ہے جب سماج میں برابری کا درجہ نہیں ملتا ہے۔جبکہ آئین میں ہر انسان کو جینے کااور برابری کا حق حاصل ہے۔ہر انسان کے برابر حقوق ہیں لیکن کہیں نہ کہیں حقوق کی پامالیاں بھی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ حقوق کی پامالیاں نہ کی جائیں۔اسکے لئے مختلف پروگرام کیے جائیں جس میں یہ بتایا جائے کہ ہر انسان کوسماج میں برابری کا حق حاصل ہے۔ چاہے وہ ایک صحت مند انسان ہو یا کوئی معذور انسان ہو۔ لیکن اس طرح کے پروگرام نہیں کیے جاتے ہیں۔امید ہے کہ انتظامیہ اس طرح کے پروگرام کرے گی اور ہمیں بھی یقین ہوگا کہ ٓانے والا مستقبل معذور انسان کا بہتر ہوگا۔اس سلسلے میں جب ہم نے ضلع ترقیاتی کونسلر سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہماری یہی پہل رہتی ہے کہ معذور طبقہ کے لوگوں کو یہ حساس نہ ہو کہ ہم معذور ہیں۔ انہیں سماج میں جینے کا برابر حق ہو۔ انہیں سرکار کی جانب سے وہ تمام پالسیاں فراہم کی جائیں جس سے انہیں تمام تر زندگی گزارنے میں آسانی فراہم ہو۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگرچہ یہاں کے حالات کو بہتر کرنا ہوگا، تاکہ سبھی کا مستقبل بہتر ہو۔وہ کہتے ہیں کہ ہر انسان کو سماج میں برابر ی کا حق حاصل ہے۔ہمارا آئین کسی کے ساتھ کسی بنیاد پر فرق نہیں کرتا ہے۔اس سلسلے میں جب ہم نے ضلع ترقیاتی کمشنر ریا سی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہمارے ضلع میں بیداری پروگرام چلائے گئے ہیں لیکن پہاڑی علاقہ کے معزورں تک یہ بات شاید نہیں پہنچی۔ انہوں نے کہا کہ ٓانے والے وقت میں ہم ویڈیو گرافی کے ذریعے یہ پیغام پہنچاتے رہیں گے کہ ہر انسان برابر ہے۔ آنے والے وقت میں اس طرح کی پالیسی بنائی جائے گی جس سے معذوروں ہر طرح فائدہ ہو۔ کئی معذوروں کے لیے ہم نے موٹر سائیکل وغیرہ بھی فراہم کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں ان تمام مطالبات پر غور ضرور کی جائے گی۔ آہستہ آہستہ ہم معذوروں کے احساس کو زندہ دلی سے نپٹائیں گے تاکہ اس علاقع کا کوئی بھی معذور خود کو بے بس نہ سمجھے۔(چرخہ فیچرس)
