تحریر :ناصر منصور
یت ایمان کی خاطر ایک ضروری ریاضتی مشق ہے روزے رکھنا کوئی سادہ بات نہيں ہے یہ خارجی ریاضت کا خواہشات نفس سے کٹھن جدو جہد ہے ۔ فرمایا۔ ۔۔یآیّھا الزین امنوا کُتِب علیکم الصیام کما کتب علی الزین من قبلکم لعلّکم تتّقون ۔۔ البقرہ 183
یعنی اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ والے بن جاؤ ۔
تقویٰ کا سادہ معنی ہے اپنے آپ کو پاک و صاف کرکے اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا ۔ اس کے لئے اللہ تعالی نے مختلف ذرائع سے ہدایت کا سامان مہیا کررکھا ہے تاکہ کہ بنی نوع انسان غفلت شِعاری سے باز رہے
ان ذرائع میں سے ایک ذریعہ مجدّد کا ہونا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی ہر سو سال کے بعد ایسے شخص کو بیجھتا ہیں جو دین میں پیدا ہونی والی خرابوں کو دور کرتا ہے ۔ سنن ابی داور ۔
مجدد کو اس لئے بیجھا جاتا ہے تاکہ وہ عالمی سطح پر بحیثیت مجموعی دین اسلام کی تطہیر کریں اسی طرح زکوۃ کا بھی یہی معاملہ ہے کہ سال کے بعد مال کو تطہیر پاک و صاف کردیتا ہے پنج وقت نماز کی بھی یہی مثال ہے کہ روزانہ ایک نماز کے بعد دوسری نماز تک کی تطہیر مطلوب ہے ۔ اسی طرح سالانہ تطہیری کورس کی خاطر اللہ تعالی نے سید الشہور گیارہ مہینوں کا سردار ماہ رمضان کو ہمارے اوپر فرض کردیا ۔ جب دلوں پر غفلت چھاجاتی ہے صحیح اور غلط کا امتياز ختم ہوجاتا ہے ایمان کمزور سے کمزور تر ہوجاتا ہے اور اعمال صالح کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالی نے غفلت کو دور کرنے کے لیے بنی نوع انسانوں کے ضعفِ ایمان اور نا گُفتہ اعمال کو از سر نو تجدید ایمان کی خاطر رمضان المبارک کا پاک مہینہ رکھا ہے تاکہ انسان متقی اور فلاح یاب ہوجائے ۔۔۔