تحریر:سہیل بشیر کار
ہمارے لیے صحابہ کے واقعات محض لطف اندوزی کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔ اللہ معاف فرمائے ہمارے ایک دوست اس طرح کے واقعات کے سننے سنانے کو محض کانوں کی عیاشی کہتے تھے۔ ہمیں یہ واقعات سن کر لطف تو آتا ہے لیکن یہ واقعات ہمیں عمل پر نہیں ابھارتے. ہم یہ واقعات پڑھ کر، سُن کر ‘ماشاء اللہ ‘ اور ‘سبحان اللہ ‘ تو پڑھتے ہیں لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو کوئی نہ کوئی بہانہ ہم ڈھونڈھ ہی لیتے ہیں، اس طرح کا تضاد ہمارے ہر عمل میں ہے۔ انفاق کی مثال لیجئے۔ جب حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے تبوک کے موقع پر انفاق کے واقعات سننے اور سنانے کا موقع آتا ہے تو ہماری آنکھیں تر ہو جاتی ہیں۔ اس صحابی کا واقعہ تو ہمارے دل کو نرم کرتا ہے جو رات بھر مزدوری کرکے چند سیر کھجور لاتا ہے اود سب اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہے، جب اس صحابی کا واقعہ ہم پڑھتے ہیں جنہوں نے اپنا سب سے خوبصورت باغ اللہ کی راہ میں قربان کیا تو ماشاء اللہ پڑھتے پڑھتے ہماری زبان تھکنے کا نام نہیں لیتی. حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کنواں خرید کر وقف کرنا ہمیں اچھا لگتا ہے، غلاموں کو آزاد کرنے والے کئی واقعات ہمیں اچھے لگتے ہیں لیکن اپنی ذات کے ساتھ ان واقعات کو ہم شاذ ہی ریلیٹ کرتے ہیں۔ حضرت ابن عمرؓ کی عادت تھی کہ جب کوئی چیز انہیں اپنے مال میں زیادہ پسند آتی تو اُسے اللہ کی راہ میں دے کر قرب الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ آپؓ کے غلاموں کو آپؓ کی اس عادت کا پتہ چل گیا۔ چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی غلام نماز کیلئے خوب تیار ہوکر مسجد میں جاکر بیٹھ جاتا۔ حضرت ابن عمرؓ اُس کو اس حالت میں دیکھتے تو خوش ہوکر اسے آزاد کردیتے۔ آپؓ کے ساتھی آپؓ سے کہتے کہ ان غلاموں میں عبادت کا شوق نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف آپؓ کو دھوکا دیتے ہیں۔ آپؓ فرماتے: ’’جو ہم کو اللہ کے معاملہ میں دھوکا دیگا، ہم ضرور اُس کے دھوکے میں آئیں گے‘‘۔ایک صحابی حضرت ربیعہ الاسلمیؓ غربت کی وجہ سے شادی نہ کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے خود ان کا رشتہ کروایا۔ ولیمہ کا وقت آیا تو حضورؐ نے انہیں فرمایا: عائشہؓ کے پاس جاؤ اور آٹے کی ٹوکری لے آؤ۔ وہ فرماتے ہیں میں حضرت عائشہؓ کے پاس گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس ٹوکری میں تھوڑا سا آٹا ہے اور اس کے علاوہ کھانے کی کوئی اَور چیز نہیں لیکن چونکہ حضورؐ نے فرمایا ہے اس لئے لے جاؤ چنانچہ اس آٹے سے ولیمہ کی روٹیاں پکائی گئیں۔
شاید ہی ہم کبھی یہ سوچتے ہیں کہ اللہ کے دین کے لئے ہم نے اپنی کمائی کا کتنا فیصد خرچ کیا.
شرم و حیا کے واقعات کو لیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حیا کے واقعات خصوصاً ہم ذوق و شوق سے پڑھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں لیکن حیا کی صفت ہم اپنے اندر پیدا نہیں کرپاتے، سوشل میڈیا کے اس دور میں ہم کیا کیا نہیں دیکھتے۔ کس طرح کا حیا سوز اور جزبات کو برانگیختہ کرنے والا کنٹنٹ ہماری آنکھوں کے سامنے دن رات رہتا ہے لیکن دیکھتے ہوئے کبھی بھی دل میں چبھن تک پیدا نہیں ہوتی۔ یہ سب تو بے حیائی کے مناظر ہوتے ہیں جس سے ہم یا تو حظ اٹھاتے ہیں یا یونہی برا محسوس کئے بغیر نظر انداز کرتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں صحابہ کے حیا اور پاکدامنی سے لبریز واقعات ہمارے نفس کے تزکیہ کا سامان فراہم نہیں کرتے۔
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ واقعات جن میں عہد کی پابندی ہم دیکھتے ہیں، صحابہ کرام کے مشکل ترین وقت میں بھی وعدہ وفا رہنا ہمیں یاد ہے، ان واقعات کو سن کر ہم محظوظ تو ہوتے ہیں لیکن ہمارا عملی رویہ بدلتا نہیں۔ شاید ہی ہم میں ایفائے عہد کا جزبہ موجود ہے۔ جنگ بدر کا موقع تھا ۔کفار کا لشکرِ جرّار سامنے تھا۔ مسلمانوں کی تعداد بھی قلیل تھی اور سامان جنگ بھی بہت ہی محدود تھا.
ایسے میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو حسیل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ،اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ ہم مکہ مکرمہ سے آرہے تھے،راستے میں ہم کفار کے نرغے میں آگئے تھے۔انھوں نے ہمیں گرفتار کرلیا۔لیکن مذاکرات کے بعد رہا کردیا اور شرط یہ عائد کی کہ ہم لڑائی میں آپ کے ساتھ شریک نہ ہوں۔ ہم نے بامرِ مجبوری عہد کرلیا۔، لیکن (یہ جنگ ہے)ہم کافروں کے لیے خلاف ضرور جہاد کریں گے۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ‘نہیں ہر گز نہیں تم اپنا وعدہ پورا کرو اور میدانِ جنگ سے واپس چلے جائو۔ ہم مسلمان ہیں اور ہر حال میں اپنا وعدہ پورا کریں ہمیں صرف اور صرف اللہ کی نصرت درکار ہے۔
بات جب امانتداری کی ہو تو کس نے عمر کا وہ واقع نہیں سنا ہوگا کہ عطر تقسیم کرنا ہے اور عمر اپنے گھر والوں کا انتخاب نہیں کرتے۔اس طرح کے قابل رشک واقعات تو ہم دنیا کے لوگوں کو سناتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں ایسے تھے ہمارے رہبر اور رہنما۔ لیکن ہماری امانتداری کہ ہمیں سننا پڑتا ہے کہ اے مسلمان تو مغرب میں رہ رہے انگریز کی طرف کیوں نہیں دیکھتا۔ حلال رزق کی تلاش کے واقعات ہوں یا مشتبہ چیزوں سے بچنے والے واقعات ہمارے کانوں کو تو اچھا لگتے ہیں لیکن خود ہمارا معاملہ یہ ہے کہ سالم اونٹ نگل جاتے ہیں. اس طرح کے قول تو ہم فیسبک پر آئے دن دیکھتے ہیں کہ اس دین سے کسی کو کیا نقصان ہو سکتا جس دین میں راستے کا پتھر ہٹانا بھی صدقہ کے برابر ہے۔ آہ ہمارا عمل لیکن اس قول کے بالکل برعکس۔ ہم تو بہانوں کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کیسے اپنے آس پاس رہنے والوں کو تکلیف پہنچائے۔ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا دور دراز علاقوں میں گشت کرکے ضرورتمندوں کی تلاش ہم تو فخریہ لوگوں کو سناتے ہیں اور اپنی روشن اور درخشاں تاریخ کے نمونے کے طور پیش کرتے ہیں۔مگر اپنی یہ حالت کہ پاس کے ہمسائے کی بھی خبر نہیں۔ آزادی اظہار رائے اور تنقید کی مثال دینی ہو تو خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واقع پیش کرتے ہیں جس میں عمر سے سوال ہوتا ہے کہ مال غنیمت سے حاصل شدہ کپڑے سے ہمیں کرتہ تو نہیں بنا آپ کا کیسے بن پایا۔ لیکن ہمارا خود کا یہ حال ہے کہ جب ہم سے بالعموم اور ہمارے عمائدین سے بالخصوص کوئی سوال کرتا ہے تو عمر بھر کی ناراضگی موصول ہوتی ہے. ایسا ہی معاملہ ہمارے دوسرے اخلاقی اقدار کا ہے۔ ہماری تاریخ کچھ اور ہے لیکن ہمارا رویہ اس سے بالکل برعکس…ہم جمہوریت پسند ہیں لیکن ہم فیصلے نہ صرف محض اپنی مرضی سے کرنے کے قائل ہیں بلکہ دوسروں پر تھوپنا بھی جانتے ہیں۔ اپنے ماتحت سے نیک سلوکی کے واقعات بیان کرتے ہوئے ، پڑھتے، سنتے اور سناتے ہوئے ہم لطف تو ضرور اٹھاتے ہیں لیکن ہمارا خود کا حال یہ ہے کہ ہم اگر کسی دفتر میں افسر ہیں تو اپنے ماتحتوں کی بے عزتی کرنا ہم اپنا حق سمجھتے ہیں۔دفتر میں اگر ہمارا کوئی ماتحت ہم سے دوگنی عمر کا ہے اس کو ٹوکنا اور سب کے سامنے ذلیل کرنا ہمیں معیوب نہیں لگتا، ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا کوڈ کے بیمار کو کھانا کھلانے کا واقعہ سننے کی حد تک ایمان افروز معلوم ہوتا ہے جبکہ خود ہمارا رویہ معاشرے کے کمزور طبقے کے ساتھ کیسا ہے کہنے کی ضرورت نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کے آپسی اختلاف کا ہمیں علم ہے اور جانتے ہیں کہ سلیقہ اختلاف، ادب اور محبت میں کمی نہیں آتی تھی۔ لیکن معاملہ جب ہمارے آپسی اختلاف کا ہوتا ہے تو الزام تراشیاں اور تنقیص ہماری اکلوتی خاصیت بن جاتی ہے۔ ہماری تاریخ لائق فخر یقیناً ہے تاہم اصل چیز ہے عمل جس پر مشکل سے ہی ہم کھڑا ہو پاتے ہیں۔ یہی وہ پیراڈاکس ہے جس کی وجہ سے ہمارا زوال ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔