تحریر:وسیم سجاد شاہ ، کولگام
رمضان کا اتنا ہی حق نہیں کہ اس کا ہرروزہ پورا کیا جائے ۔ یہ بھی کافی نہیں کہ کھلے عام نہ کھایا پیا جائے ۔ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ روزہ داری یہی ہے کہ صبح سے شام تک کھانا پینا ترک کیا جائے ۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ روزہ داروں کے سامنے کچھ کھایا جائے نہ پیا جائے ۔ اس طرح سے رمضان مکمل ہوجائے تو اللہ کی رضا حاصل ہوگی ۔ اللہ نے رمضان کے حوالے سے جو احکام دئے ہیں ان میں ان باتوں پر زور دیا گیا ہے ۔ بلکہ بیماروں اور مسافروں کو روزوں میں چھوٹ دی گئی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بس طلوع آفتاب سے پہلے کھانا پینا چھوڑ دیا ۔ آدمی نفس کی خواہشات سے دور رہے ۔ سحری اور افطار کا اہتمام کرے ۔ یہی مکمل روزہ داری ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ بالکل بھی نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے علاوہ بھی کچھ احکامات ہیں ۔ کچھ اصول وضوابط ہیں ۔ نبی ﷺ کے احادیث ہیں ۔ رسول ؐ کی سنتیں ہیں ۔ صحابہ کا طریقہ کار ہے ۔ فقہا کے ضوابط ہیں ۔ سب پر عمل کرنا لازمی ہے ۔ اللہ کا حکم ہے کہ ایک مہینے کے روزے آپ پر فرض کئے گئے ہیں ۔ اس کے ساتھ تقویٰ مشروط کیا گیا ہے ۔ تقویٰ محض کھانا پینا ترک کرنے سے حاصل نہیں ہوگا ۔ اس کے لئے روزوں کا روح اور اصل مقصد بھی سمجھنا ہوگا ۔
روزے پہلی بار فرض نہیں ہوئے ۔ بلکہ قرآن کا ماننا ہے کہ اسلام سے پہلے کی قوموں اور امتوں پر روزے فرض کئے گئے تھے ۔ اس مقصد کے لئے کہ لوگ ان سے تقویٰ حاصل کریں۔ جب ایسی بات ہے تو تقویٰ کے بغیر روزوں کا مقصد فوت ہوتا ہے ۔ تقویٰ یہ نہیں ہے کہ آپ روزوں سے کمزور ہوجائیں ۔ آپ کا چہرہ زرد پڑے تو سمجھا جائے گا کہ آپ نے تقویٰ حاصل کیا ۔ تقویٰ یہ بھی نہیں کہ آپ نے چہرے پر لمبی داڑھی سجائی ۔ مسلمانوں جیسا خال وخد اختیار کیا ۔ یہ بھی تقویٰ نہیں کہ آپ کے ماتھے پر نشان پڑ جائے ۔ تقویٰ کوئی ظاہری صورت نہیں ۔ بلکہ یہ اندر کی حالت ہے ۔ رسول الل ﷺ نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین دفعہ ارشاد فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے ۔ روزوں سے یقینی طور آپ کا وزن کم ہوجائے گا ۔ چہرہ زرد پڑ جائے گا ۔ ہونٹ سوکھ جائیں گے ۔ یہ تو ظاہری حالت ہے ۔ اصل مطلوب حالت وہ ہے جو آپ کا اندرون بدل دے گا ۔ اندر اور باہر تبدیلی ضروری ہے ۔ ایسا نہ ہوا تو روزے بے مقصد ہونگے ۔ روزوں سے اسلام کے اندر نئی قوت آتی ہے ۔ نئی روح ڈالی جاتی ہے ۔ مسجدوں کا رنگ بدل جاتا ہے ۔ گھروں کا رنگ وروپ بدل جاتا ہے ۔ بازاروں میں نئی چہل پہل نظر آتی ہے ۔ لوگ سڑکوں پر ٹاٹ بچھاکر نماز پڑھنے لگتے ہیں ۔ دفتروں میں نماز کے لئے کمرے مخصوص کئے جاتے ہیں ۔ اس دوران دیکھا جاسکتا ہے کہ گراں بازاری کم ہوتی ہے نہ منافع خوروں میں تبدیلی آجاتی ہے ۔ ہوٹلوں میں رش کم پڑتا ہے نہ چائے خانے بند ہوجاتے ہیں ۔ لوٹ کھسوٹ میں کوئی کمی آتی ہے نہ رشوت خور اپنا طریقہ بدل دیتے ہیں ۔ ورک کلچر بدل جاتا ہے نہ لوگوں کے کام ٹالنے سے ہم باز آتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ کاہلی بڑھ جاتی ہے ۔ لوگوں میں سستی آتی ہے ۔ جو کام ایک دن میں ہونا چاہئے اس کے لئے عید کے بعد کا ٹائم دیا جاتا ہے ۔ یہ مہینہ بہ ظاہر عبادات کا مہینہ ہے ۔ اللہ سے ڈرنے اور خوف کھانے کا مہینہ ہے ۔ بند گان خدا کی خدمت کا مہینہ ہے ۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد ادا کرنے کا مہینہ ہے ۔ اللہ کے حقوق ادا کرتے وقت بندوں کے حقوق نظر انداز کرنا رب کو راضی نہیں کرسکتا ۔ اللہ کی رضا چاہتے ہو تو بندوں کو راضی کرو ۔ چہرے زرد پڑجائیں ۔ جسم تن جائے ۔ یہ روزہ داری کا رنگ نہیں ۔ روزوں کا رنگ الگ ہے ۔ روزہ داری سے آدمی میں وقارآنا چاہئے ۔ روزہ داری سے معاشرہ بدل جانا چاہئے ۔ روزہ داری سے پوری سوسائٹی میں ایک مثبت تبدیلی آنی چاہئے ۔ روزہ داری میں کوئی برا بلا کہئے ۔تو واپس کہو کہ میں روزے سے ہوں ۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ کسی سے جھگڑا نہ کرو ۔ کسی کے منہ نہ لگ جائو ۔ کسی کے ساتھ مناظرہ نہ کرو ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے احکامات نظر انداز کرکے روزوں اک مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ کسی صورت بھی ممکن نہیں ۔ پچھلی قوموں نے بھی یہی کیا کہ انہوں نے دین اور شریعت کی اصل روح کو بگاڑ کے رکھ دیا ۔ کسی حکم کو اہم اور کسی کو کم اہم قرار دیا ۔ کوئی حکم کسی خاص طبقے کے لئے مخصوص کیا گیا ۔ کسی حکم کو منسوخ اور کسی کوحد سے زیادہ اہمیت دی گئی ۔ اس وجہ سے شریعت اور ملت خانوں میں بٹ گئی ۔ فرقوں میں تقسیم ہوگئی ۔ گروہ بندی نے سرابھارا ۔ یہاں تک کہ دین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ۔ آج بھی یہی حالت ہے ۔ شریعت اسلامی کی بھی یہی حالت ہے ۔ ملت اسلامیہ بھی اسی راہ پر چل نکلی ہے ۔ پہلی قوموں کی طرح بگاڑ ر جگہ پایا جاتا ہے ۔ شریعت کی من مانی تاویلیں کی جاتی ہیں ۔ رمضان کے دوران خاص طور سے فتنے ابھارے جاتے ہیں ۔ فساد کو بڑھاوا دیا جاتا ہے ۔ مناظرہ بازی کو عروج تک پہنچایا جاتا ہے ۔ کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں ۔ رسول ؐ کا حکم ہے کہ اپنے نفس کو قابو میں رکھو ۔ غصے کو ھد سے آگے نہ بڑھنے دو ۔ لڑائی جھگڑوں میں نہ پڑو ۔ فتنوں کو پھیلنے نہ دو ۔ دوسروں کی عزت کرو ۔ ان کے مال وجان کی حفاظت کرو ۔ یہی روزوں کی روح ہے ۔ یہی اسلام کی عظمت ہے ۔ یہی شریعت کی جان ہے ۔ افسوس کہ ہم نے اس طرح کی باتوں کو فراموش کیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ روزوں کی روح باقی ہے نہ احترام رمضان کی طرف توجہ دی جاتی ہے ۔
