تحریر:جی ایم بٹ
اسلامی معاشرے کی بنیاد دو چیزوں پر ہے ۔ ایمان اورمحبت ۔ اللہ اور اس کے رسول پر جتنا ایمان لانا ضروری ہے اتنا ہی ان سے محبت رکھنا لازمی ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول سے ایمان کے ساتھ محبت کا عقیدہ نہ ہوتو مسلمان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اس کے بعد ایمان لانے والوں کے ساتھ محبت ضروری ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ آپ میں سے کوئی مومن نہیں جب تک میں اسے اپنی جان ، اپنی اولاد اور اپنے مال سے زیادہ عزیز نہ ہوں ۔ یہ محض الفاظ نہیں بلکہ ایمان کی اصل کسوٹی ہے ۔ ایمان لانا آسان بات ہے ۔ اصل سانچہ تو محبت کا سانچہ ہے ۔ اسی سے ایمان کی صحیح پرکھ ہوتی ہے ۔ قرآن کے شروع میں ہی کہا گیا کہ جو شخص ایمان لاتا ہے پھر مومنین کے ساتھ کھڑا نہیں اس کا ایمان کھوٹا ہے ۔ وہ ہر گز مومن نہیں ہے ۔ کوئی شخص ایمان لانے کے بعد جب ہی مومنین کی صفوں میں کھڑا ہوگا جب اسے ایمان والوں کے ساتھ محبت ہوگی ۔ گویا کہ اسلامی معاشرہ خالی ایمان سے نہیں بلکہ ایمان والوں کے ساتھ حقیقی محبت سے تشکیل پاتا ہے ۔ ہجرت مدینہ کے بعد جو پہلا کام رسول ؐ نے انجام دیا وہ محبت اور اخوت کاکام تھا ۔ مہاجروں اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کرکے نئی اسلامی سوسائٹی تشکیل دی گئی ۔ یہاں محبت اور اخوت کا ایسا سماں باندھا گیا جو اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا ۔ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ اقتدار سے محروم ہونے کی وجہ سے مسلم سماج تہس نہس ہوگیا اور اس کی ہیئت بدل گئی ۔ یہ صرف اقتدار نہیں جو مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ۔ بلکہ اس کے ساتھ اس کے تمام اصول وضوابط بکھر کر رہ گئے ۔ اسلامی سماج کے لئے جو بنیادیں بتائی گئی تھیں مسلمانوں نے انہیں یکسر نظر انداز کیا ۔ اقتدار چھننے سے پہلے ان اقدار کو اپنے سے الگ کیا گیا ۔ اللہ اور اس کے رسول کی واضح ہدایات ہیں کہ لڑائی جھگڑوں بلکہ باہم اختلاف سے آپ کے اندر سے ہوا نکل جائے گی اور تمہاری طاقت اکھڑ جائے گی ۔ ان اختلافات نے مسلم سماج کے اندر ایسا رنگ اختیار کیا ہے کہ سارا زور ان ہی اختلافات کو بڑھانے پر لگایا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ مساجد ، خانقاہیں ، بازار بلکہ ہر مسلم ادارہ اس وجہ سے تنازعوں اور تنائو کا شکار ہے ۔
یورپ کی تشکیل نو انقلاب اور خون خرابے کے ذریعے کی گئی ۔ ظلم کا شکار طبقات نے اٹھ کر ان طاقتوں کے خلاف بغاوت کی جن کے ہاتھوں انہوں نے طویل عرصے سے ظلم سہے تھے ۔ ان کی بالادستی ختم کرنے کے لئے طاقت کا سہارا لیا گیا اور انہیں بالجبر اقتدار اور چودھراہٹ سے محروم کیا گیا ۔ لیکن بعد میں یہاں جو نیا نظام وجود میں آیا اس کے اندر انصاف اور محبت کو مقدم مانا گیا ۔ اس معاشرے کی اصل اساس محبت ہی ہے ۔ یہاں مذہب ، خاندان ، رنگ یا نسل کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی تفریق نہیں کی جاتی ہے ۔بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ شدت کے ساتھ محبت کی جاتی ہے ۔ ایسے سماج کو محبت کے حوالے سے شدت پسند سماج مانا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔ یہ معاشرہ محبت کی وجہ سے باہم مربوط ہے ورنہ اس کے اندر ایسی کوئی کشش ثقل نہیں پائی جاتی جو اس کو تھامے رکھے ۔ مذہب کا کوئی عنصر ہے نہ کوئی مشترکہ دشمن ہے جس کے خلاف یہ لوگ ایک ہی صف میں کھڑے ہیں ۔ انہیں اپنا دشمن بھی مصیبت میں مبتلا نظر آئے تو اس کو یہاں سے نکالنے کے لئے سب کچھ قربان کرنا پڑے تو دریغ نہیں کیا جاتا ۔ بلکہ انسانیت کے ساتھ محبت مغربی معاشرے کی مضبوط ترین بنیاد ہے ۔ اس کے برعکس مسلمان اس صفت سے پوری طرح سے محروم ہیں ۔ علم نے یورپ کے لوگوں سے نفرت اور عداوت چھین لی ۔ جبکہ جہالت نے مسلمانوں سے باہمی محبت اور تعلق کو ختم کرکے رکھ دیا ۔ مسلمان یورپ کی ان تمام چیزوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو انہوں نے علم کی روشنی حاصل کرکے تیار کیں ۔ مسلمان ان چیزوں سے فیض حاصل کرنے کے باوجود ان کو بنانے والوں سے سخت نفرت کرتے ہیں ۔ یہ جہالت کی واضح مثال ہے ۔ سائنسی ایجادات اور مہارت سے عاری ہونے کے علاوہ علم کے بجائے جہالت سے لیس ہونے سے مسلمان معاشرہ سخت زوال کا شکار ہے ۔ ایجادات ان ہی لوگوں سے ظاہر ہوتی ہیں جو انسانیت سے محبت رکھتے ہیں ۔ اس درد سے عاری لوگ کبھی بھی ترقی حاصل نہیں کرسکتے ہیں ۔ ایسے لوگ اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں نہ معاشرے کے اندر کوئی حسن اور نکھار لاسکتے ہیں ۔ وہی معاشرے پھلتے پھولتے اور طاقت حاصل کرتے ہیں جہاں عبادت کے ساتھ خدمت کا خلق کا جذبہ موجود ہو ۔ صحابہ نے اللہ اور اللہ کی مخلوق سے بے حد پیار کرکے ہی اپنے لئے راستہ تلاش کیا یہاں تک کہ پوری دنیا پر حاوی ہوگئے ۔ بعد میں صوفیا نے محبت و اخوت کا راستہ اختیار کرکے اللہ کی خوشنودی اور لوگوں کے دلوں پر حکومت حاصل کی ۔ یہی معاشرے کی مضبوط بنیاد ہے ۔ جو معاشرہ اس بنیاد پر کھڑا ہو وہ معمولی جھونکوں سے اکھڑ نہیں جاتا ۔ آج کے مسلم معاشرے کے اندر یہی کمزوری ہے کہ ذاتی ضروریات مغربی دنیا سے حاصل کرتا ہے ۔ مگر اجتماعی فوائد حاصل کرنے سے خود کو روکے ہوئے ہے ۔ ملی تحفظ کے لئے وہاں سے جو کچھ حاصل کرنا تھا اس کو کفر اور الحاد قرار دیا جاتا ہے ۔ مغرب نے دنیا پر تسلط اپنے نظریات کے زبانی پرچار سے حاصل نہیں کیا ۔ بلکہ اپنی مہارت دکھاکر دنیا کو پیچھے دھکیل دیا ۔ اس نے نفرت کے بیج بوکر دنیا کو مغلوب نہیں کیا بلکہ اپنے یہاں محبت کا ایسا ماحول بنایا جہاں ترقی کی وہ راہیں خود بخود کھل جاتی ہیں جو غلبہ حاصل کرنے کے آخری نکتہ تک لے جاتی ہیں ۔ مسلمان معاشرے کے اندر مسلکی ، منصبی اور فرقہ واریت کی ایسی جنگ جاری ہے جس کا انجام زوال کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ معاشرے کے ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو جہالت کو علم سمجھ کر لوگوں کو اس دلدل میں لاکر انہیں باور کرارہے ہیں کہ یہی سالمیت کا راستہ ہے ۔ حالانکہ یہ بڑے دھوکے سے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔