از:ڈاکٹر مشتاق مانگٹ
1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے
چند سال پہلے اس علاقے کے سمندر سے کچھ آثار قدیمہ ملے جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں پر کبھی ایک عظیم شہر ہوا کرتا تھا۔ اس کا نام کیا تھا، وہ لوگ کون تھے، یہ ابھی تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان آثار میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ملی جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ ان لوگوں کا مذہب کیا تھا۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس ڈوبے ہوئے شہر کی تاریخ چھ سے نو ہزار سال پرانی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی تاریخ پندرہ ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ یہ ڈوبا ہوا شہر دنیا بھر کے سمندری آثار قدیمہ کے ماہرین کے لیے ایک پراسرار معمہ ہے۔ ہندوؤں کا خیال ہے کہ اس ڈوبے ہوئے شہر کے ملنے کے بعد مہابھارت کی داستان کی تصدیق ہوتی ہے۔ زیر سمندر پائے جانے والے کھنڈرات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شہر نو ہزار سال پرانا ہے۔
بھارتی آثار قدیمہ کے سروے آف انڈیا نے 1963 ء میں بحیرہ عرب میں دوارکا کے ساحل اور سمندر کے کنارے، آثار قدیمہ کی تحقیقات کیں اور ابتدائی تحقیقات میں بہت ساری نئی چیزیں سامنے آئیں۔ سمندر کے کنارے پر کی جانے والی کھدائی کے بعد معلوم ہوا کہ وہاں ایک بڑی بستی پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ بستیاں بیرونی اور اندرونی دیواروں اور قلعے کی شکل میں ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر کسی زمانے میں ہندوستان کے مشرقی علاقوں بندرگاہ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ کچھ ماہرین کے مطابق اس شہر کا تعلق ہڑپہ دور سے ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یہ شہر کب تعمیر کیا گیا؟ ماہرین اپنی سی کوشش کر رہے ہیں جو تا حال جاری ہیں۔
اس شہر سے ایک ہزار سال پرانا لارڈ رشبھناتھ کا ایک مجسمہ ملا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس جگہ جین راہبوں کے لیے ایک سکول واقع تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک نہایت ہی مشہور ہندو مفکر، ولبھ اچاریہ بھی آج سے پانچ سو سال پہلے اس شہر میں رہتے تھے۔ انھوں نے اس شہر سے متعلق ایک تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میری بیٹی نے ایک شہر کا خواب دیکھا اور پھر ایک مسلمان خاندان نے اپنا گھر اس کے حوالے کر دیا جس پر اس شہر کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ بات کئی جگہوں پر لکھی ہوئی ہے لیکن مجھے اس کا کوئی مستند حوالہ نہیں مل سکا۔
ولبھ اچاریہ جسے ولبھا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ایک ہندوستانی تیلگو فلسفی تھا۔ انھوں نے ایک نئے دھرم کی بنیاد رکھی جسے وشنو ازم کہا جاتا ہے۔ میں نے ان کی کچھ تحریریں پڑھیں جو بہت ہی دلچسپ ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے میں کسی پنجابی مسلمان صوفی کی تحریر پڑھ رہا ہوں۔
ان کے بارے میں کئی کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ اب تک میں نے جتنے بھی ہندو فلاسفروں کو پڑھا ہے ان میں سے ولبھ اچاریا کا مقام سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کے بارے میں ایک مختصر کتاب Shrimad Vallabhacharya and His Doctrine جسے براجناتھ آر شاشتری نے لکھا جو 1984 ء میں شائع ہوئی میں بہت کچھ لکھا ہے۔ جس سے ان کے بارے میں جاننے میں کافی مدد ملتی ہے۔
اس شہر کی آبادی قریباً دو لاکھ اور شرح خواندگی 75 فیصد ہے۔ میں نے پچھلے صفحات میں لکھا تھا کہ جیسے جیسے آپ شمالی بھارت سے جنوبی بھارت کی طرف جاتے ہیں شرح خواندگی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اب ہم شمال کی طرف جا رہے ہیں اور شرح خواندگی میں جنوب کی نسبت کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس شہر میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہونا میرے لیے حیران کن تھا۔ یہاں مسلمان آبادی پچاس فیصد سے بھی زائد ہے۔ میرے علم کے مطابق یہ شرح پورے بھارت کے کسی اور علاقے میں نہیں ہے۔ اسی وجہ سے یہ شہر ایک منفرد اہمیت کا حامل ہے۔
گودھرا ایک خاص مندر کی وجہ سے ہندوؤں کے نزدیک نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ چار مشہور بیٹھکوں میں سے تین کا تعلق بھی اس علاقے سے ہی ہے۔ ہر مذہب اس کے ماننے والوں کے لیے ایک مقدس چیز ہوتا ہے اور ہمیں ان کے مذہب اور مذہبی مقامات کا احترام کرنا سکھایا گیا ہے۔ ہندو دھرم سے متعلق میرا علم نہایت ناقص ہے اس لیے میں اس بارے میں لکھتے ہوئے نہایت احتیاط سے کام لیتا ہوں۔ پھر بھی اگر کوئی غلطی ہو جائے تو آپ سے گزارش ہے کہ اس کی نشاندہی کر دیں تاکہ اسے درست کیا جا سکے۔
گودھرا میں موجود تین خوبصورت جین مندر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں ایک ایسا مندر بھی ہے جس کی بنیاد دادا بھگوان نے رکھی اسے غیر فرقہ وارانہ مندر بھی کہتے ہیں۔ اس مندر کا نام تری مندر ہے۔ اس شہر میں شیخ ماجھوار کی قبر بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قبر پورے بھارت کی سب سے بڑی قبر ہے۔ کوشش کے باوجود میں اس کا کوئی حوالہ یا تصویر نہ ڈھونڈ سکا۔
میں جب گودھرا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ گودھرا سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک بڑی تعداد کراچی میں بھی آباد ہے۔ تقسیم ہند کے وقت لوگوں کی کثیر تعداد کھوکھرا پار کے راستے پاکستان آئی، جنہوں نے سندھ کے مختلف شہروں میں سکونت اختیار کی۔ سب سے زیادہ مہاجرین کراچی میں موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد کئی لاکھ ہے اور یہ لوگ فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ انھوں نے کراچی میں گودھرا میڈیکل سینٹر کے نام سے بھی ایک بہت بڑا ہسپتال بنا رکھا ہے۔ کئی لوگ اس ہسپتال کو آغا خان ہسپتال کا ہم پلہ بھی قرار دیتے ہیں۔
رات کافی بیت چکی تھی اور مجھے بھی نیند نے آ گھیرا تھا لیکن عمر بھائی اور دیگر ہم سفروں کے خراٹوں نے ایک آرام دہ نیند سے محروم کر نے کی کوشش کی۔ نیند تو نیند ہی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ تو سولی پر بھی آجاتی ہے۔ یہاں تو صرف خراٹے تھے۔