از: معراج زرگر
ایک معروف اسکالر کہتے ہیں ـ‘‘ جو انسان مرنے کے لائق نہیں ہے، اس کی زندگی کی سطح انسانی نہیں ہو سکتی’’۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی میں جو تمام معنی ہیں وہ موت کے تصور سے پیدا ہوتے ہیں۔ جس طرح ہائیڈیگر کہتا ہے کہ وجود کے معنی Nothingness سے بر آمد ہوتے ہیں۔ اسی طرح حیات کے معنی موت سے اخذ ہوتے ہیں۔آدمی کا سب سے با معنی، سب سے حقیقی اور سب سے بڑا تجربہ موت کا تجربہ ہے۔ جو شخص زندگی کو اس تجربے سے گذارنے کا ہنر رکھتا ہے وہی زندگی اور وجود کے معنی کو سمجھ سکتا ہے۔ کیونکہ موت کا حوالہ یا ریفرینس اگر زندگی سے نکال دیا جائے یاموت کی منزلوں کو اگر فراموش کیا جائے توزندگی کا راستہ ایک پر خطر اور اندھیرا راستہ ہے، ہموار اور محفوظ راستہ نہیں ہے۔انسان کی حیات میں انسانیت کا جوہر پیدا کرنے والی شئی فقط موت ہے۔
کچھ دن پہلے یعنی 27 مئی کو جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ ایک دیرینہ اور سب سے تجربہ کار ٹرسٹی مرحوم غلام احمد کمہار صاحب کا اپنے آبائی گاؤں وڈی پورہ ہندوارہ میں علالت کے بعد انتقال ہوا۔ مرحوم کی صحت چند ماہ قبل بگڑنا شروع ہوئی اور بالآخر وعدہء ازلی کو نبھاکر داعی اجل کو لبیک کہا۔ مرحوم جموں وکشمیر یتیم ٹرسٹ کے پورے سیٹ اپ میں ایک مخصوص درجہ رکھتے تھے۔ اور شمالی کشمیر کے ضلع کپوارہ میں خاص کر کئی دہائیوں پر محیط ان کی سماجی خدمات مثالی ہیں۔ مرحوم محتاجگان کے ساتھ اپنے گہرے اور سچے تعلق کی بنیاد پر احترام و عزت کے سنگھاسن پر براجمان ہوچکے تھے, مگر انہوں نے سارے القابات اور خوشامدوں کا طوق اپنے گلے سے کب کا اتار دیا تھا۔ اور خالق کائنات کی کم مایہ اور مفلوک الحال مخلوق کے ساتھ نیستی اور بنیادی انسانی اقدار پر خود کو استوار کئے ہوئے تھے۔
مرحوم کی ذات سے مجھے پچھلے تقریباََ پندرہ سال سے واقفیت تھی اگرچہ انتہائی کم اور دوری کی رفاقت اور واقفیت تھی۔ مگر مرحوم کی ذات اپنے وجود کے اندر وہ سب اوصاف سمائے ہوئے تھی کہ ان سے چند لمحوں کی قربت بھی انسان کو حیات کے ازلی مقاصد سے آگاہی دینے کے لئے کافی تھی۔ مرحوم کا وصال میرے نزدیک نہ کوئی صدمہ ہے اور نہ ہی کوئی اچھنبے کی بات۔ مرحوم حیات کے گُر سیکھ کر اور سکھاکر خوف و حزن کو پرے دھکیلتے ہوئے اپنے اللہ سے ملاقی ہوئے۔
مرحوم موصوف 13 جون 1940 میں وڈی پورہ ہندوارہ میں پیدا ہوئے اور اپنی ابتدائی تعلیم آبائی علاقے میں ہی حاصل کی۔ میٹرک کا امتحآن اچھے نمبرات لے کر پاس کیا اور پھر بحیثیت ایک استاد کے کام کرنا شروع کیا۔ اپنی تعلیم جاری رکھی۔ 1961 میں ایف۔ایس۔سی۔ اور 1965 میں بی۔ایڈ۔ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے ساتھ ریجنل کالج اجمیر سے پرائمری ٹیچنگ میں ڈپلوما کیا۔ بحیثیت ایک استاد اور بعد میں لیکچرار کے عہدے پر فائض رہ کر تعلیمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ 1987 میں اس وقت کے وزیر تعلیم نے یوم۔جمہوریہ کی تقریب پر انہیں بیسٹ ٹیچر ایوارڈ سے بھی نوازا۔ مرحوم اہنی ملازمت کے دوران ہی جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ کے بانی سرپرست مرحوم عبدالخالق ٹاک صاحب زینہ گیری سے متاثر ہوکر 1975 میں خدمت خلق کے کام میں جُٹ گئے تھے۔ اور چندہ جمع کرنا, یتیموں اور بیواؤں کی نشاندہی کرکے انہیں مستقلاََ تعلیم اور امداد فراہم کرتے رہنا مرحوم کا جز وقتی کام تھا۔ 1998 میں اپنی سرکاری نوکری سے سبکدوشی پر مرحوم ہندوارہ میں ہی ہمہ وقت اور جم کر خدمت خلق کے میدان میں اتر گئے۔ اور سن 2003 میں یتیم بچیوں کے لئے ایک ہوسٹل کا قیام عمل میں لایا۔
مرحوم اپنی سرکاری نوکری کے دوران بھی عملی کاموں میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔ اور ایک سوشل ایکٹویسٹ, ٹریڈ یونین لیڈر اور دیگر سماجی نوعیت کے کاموں میں ایک اہم کردار نبھانے والے انسان رہے۔ وہ کھیلوں کے ٹورنامنٹ بھی منعقد کرتے رہے اور اپنی نوکری کے دوران کشمیر پروفیشنل ٹیچرس ایسوسی ایشن کے سیکرٹری بھی رہے۔ وہ اس قدر انسانی اور ملازمین کے حقوق کے علمبردار تھے کہ انہیں اس کی پاداش میں تین سال نوکری سے معطل بھی رہنا پڑا۔ وہ اپنی آخری سانس تک عملی میدان کے سپاہی رہے اور پوری زندگی ایک عظیم مشن سے وابستہ رہے۔ مرحوم کی خدمت خلق کے میدان میں ثابت قدمی پر ان کے دیرینہ دوست بھی ایک مہر ثبت کرتے ہیں اور برملا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کمہار صاحب نے ان سب کو عملی میدان میں اپنی سچائی اور لگن سے پیچھے چھوڑدیا۔
جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ کے بانی سرپرست مرحوم عبد الخالق ٹاک زینہ گیری کے کام سے متاثر ہوکر جب مرحوم خدمت خلق کے کام میں دل و جان سے جُٹ گئے اور عملی میدان میں ایک عاشق کی طرح اتر گئے, تو اس بات سے بالکل لاپرواہ ہو گئے کہ سماج اور قرابت داری کا ردعمل کیسا ہوگا۔ کیونکہ ہمارا سماج اب بھی اس مقام تک نہیں پہنچا ہے, جہاں ایک سچے انسان کی سچائی اور خلوص کو ایک ہی جست میں محسوس کیا جاکر اسے تسلیم بھی کیا جائے۔ کسی بھی دینی یا سماجی کام میں کام کر رہے افراد ہر وقت اور ہر سچویشن میں مسلسل ایک خارجی منفیت اور دھتکار کی ذد میں رہتے ہیں اور کبھی کبھی یہ دھتکار اور منفیت ان پُرخلوص افراد کے گھروں اور نزدیکی رشتہ داروں سے بھی موصول ہوتی ہے۔ مرحوم بہت عرصہ پہلے اس منزل سے گذر کر استقامت اور صبر کی ایک چٹان میں ڈھل چکے تھے۔
مرحوم سے جس قدر بھی اور جس محدود حد تک بھی شناسائی اور تعلق رہا وہ ایک جامع اور مکمل تعلق رہا۔ بحیثیت ایک ٹرسٹی کے ان کی خدمات لا محدود ہیں۔ چونکہ وہ بورڈ آف ٹرسٹیز میں سب سے زیادہ عمر والے اور تجربہ کار تھے, اس طور ان کی بات اکثر حرف آخر ہوتی تھی۔ مگر اس کا ایک دوسرا بھی پہلو تھا۔ اور وہ یہ کہ مرحوم کمہار صاحب سے زیادہ پر خلوص اور بے نفس انسان بورڈ آف ٹرسٹیز یا یتیم ٹرسٹ کی تمام ریاست میں پھیلے ہوئے سلسلہ نظامت میں دوسرا کوئی نہیں تھا۔ ان کی ہر بات اور ہر مشورہ اپنے نفس اور اپنی ذات پر پیر رکھ کر ہی آگے بیٹھے لوگوں کی سماعتوں سے مس ہوتا تھا۔ ان جیسا بے لوث اور اپنے کام میں ایک درویش کی طرح مست رہنے والا آدمی مرحوم ٹاک زینہ گیری کے بعد شاید ہی کوئی ہوگا۔ وہ تصنع, بناوٹ, دیکھا دیکھی, ریا کاری, چرب زبانی, مطلب پرستی اور اسی طرح کے دوسرے غلیظ اوصاف سے پاک ایک سادہ مگر ہوشیار اور ہوش مند انسان تھے۔ وہ ایک ملنگ کی طرح اپنی دھن کے پکے تھے اگرچہ زندگی کو برتنے میں انتہائی سیدھے اور سادہ تھے۔
ان کی سادگی اور ان کا خلوص ان سے پہلی دفعہ ملنے والے کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ میں نے جب مرحوم کو پہلی دفعہ دیکھا اور ان سے بات کی تو مجھے قسم ہے کہ مجھے خدمت خلق کی دنیا کے کئی درویشوں کا خیال آیا۔ مجھے لگا کہ مرحوم مولانا ایدھی ایسے ہی ہونگے۔ ٹاک زینہ گیری مرحوم شاید ایسے ہی رہے ہوں۔ ان کے لہجے میں شفقت اور ایک عجیب اپنائیت تھی۔ وہ پہلی دفعہ کسی بھی ملنے والے سے ایسے ملتے تھے جیسے اپنے کسی دیرینہ دوست یا گھر کے فرد سے مل رہے ہوں۔ بات کرتے تھے تو ایک تحکم اور رعب کے ساتھ کرتے تھے, مگر اس تحکم اور رعب میں بھی اتنی معصومیت اور بھولپن ہوتا تھا کہ ان سے والہانہ پیار ہوجاتا تھا۔ مرحوم کے خلوص اور ان کی درویشی کا یہ عالم تھا کہ اچھے خاصے معمر ہونے کے باوجود اپنےہوسٹل میں بچیوں کے کام خود کرتے تھے۔ مرحوم کے ہوسٹل کی ہر ایک بچی اور ٹرسٹ سے وابستہ افراد یہ بات جانتے ہیں کہ مرحوم کبھی کبھی ہوسٹل کی صفائی وغیرہ میں بھی شامل رہتے تھے۔ ٹرسٹ کے لئے جب چمدہ جمع کرتے تھے تو دور دراز علاقوں اور قریہ قریہ سفر کرتے تھے اور محتاجگان کے لئے ایک فقیر کی طرح اپنا دامن پھیلاتے تھے۔ یہ کہنا کتنا آسان ہے لیکن عملی طور ایک اچھی ااور اعلی پوزیشن پر رہتے ہوئے اپنے نفس کا گلا گھونٹھتے ہوئے خدمت کے ایسے کام کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لئے لمبی ریاضت, مجاہدے اور مسلسل تکذیبِ نفس کے دوروں سے گذرنا پڑتا ہے۔
مرحوم اپنے وصال کے کچھ دن پہلے ایک بات چیت میں پرسکون لہجے میں ایک دوست سے یہ کہتے ہیں کہ انہیں اطمینان ہے کہ انہوں نے اپنی استطاعت کے حساب سے جتنا کام کرنا تھا وہ کرچکے۔ اور اب معاملہ اللہ کے پاس ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انہیں اس بات کا غم رہے گا کہ وہ مزید خدمت خلق کا کام نہ کرسکے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اس لحاظ سے مطمئن ہیں کہ زندگی بھر کبھی بھی ایک روپیہ کے معاملے میں بھی ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھائے گا۔ اور کس قدر عجیب ہے کہ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ان ہی کا کچھ ذاتی پیسہ ٹرسٹ کی جانب سے واجب الادا ہے۔ بقول ان کے, ان کے لئے وہی سب سے زیادہ خوشی کا دن ہوتا تھا جس دن وہ کسی کے کام آتے۔ مرحوم کہتے ہیں کہ انہوں نے زندگی بھر کبھی منفی سوچا ہی نہیں اور ہمیشہ ایک مثبت سوچ اور پکی دھن کے ساتھ اپنے کام سے لگاؤ رکھا۔ ان کے آخری دنوں میں وہ نوجوانوں سے مخاطب ہوکر کہتے رہے کہ وقت سب کے پاس بہت کم ہے اور اس لئے سب کو اچھے اور مثبت کاموں کی طرف راغب ہونا چاہیے۔
مرحوم کی مہمان نوازی بھی عجیب تھی۔ اور تو اور ان کی میزبانی بھی کچھ کم عجیب نہیں ہوتی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ترال سے ٹرسٹ کی پچاس سے زیادہ بچیوں کو ہندوارہ دعوت پر بلایا اور تین دن تک خاطرداری کرتے رہے۔ کئی صحت افزاء مقامات کی سیر کرائی اور حیران کن طور خود ہی چھوٹی چھوٹی بچیوں کی مہمان نوازی کرتے رہے۔ اس سے عجیب بات یہ ہے کہ جب سینٹرل آفس کی طرف سے انتظامی اور تعلیمی انسپکشن ٹیم کی سربراہی کرتے ہوئے کچھ سال پہلے ترال آئے تو کھانے کے وقت عام سے برتن میں ہاتھ دھوتے وقت ایکدم چونکے اور سوال کیا کہ کیا کھانے کے وقت ہاتھ دھونے کے لئے یہاں روایتی تانبے کا تشت اور صراحی نہیں ہے۔؟ جب جواب نفی میں پایا تو تھوڑے سنجیدہ ہوئے اور کچھ ہی دن بعد اپنے پیسے سے خرید کر ایک شاندار تانبے کا روایتی تشت اور صراحی بجھوائی, جسے آج بھی ہوسٹل میں بچیاں استعمال کرتی ہیں۔ اس طرح کے ایسی سینکڑوں مہمان نوازی اور میزبان نوازی کے واقعات مرحوم کے دوست احباب کی یاداشتوں میں موجود ہیں۔ اور ان کے بچیوں کے ہوسٹل اور محتاجگان کے پاس ایسے لاتعداد ناقابل یقین واقعات کی ایک کھتونی ہے جسے اگر قلم بند کیا جائے تو کئی دفتر درکار ہونگے۔
چرخِ نیلی تلے نہ کوئی کام رکا ہے نہ رکے گا۔ آفریدگار عالم اور کن فیکون کا مالکِ کُل ا پنے اَمر اور اپنے صفتِ حیی اور قیومی پر براجمان ہے۔ مگر کتنے لوگ ہیں جو جینے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں اور مرنے کے ہنر سے بھی واقف ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو موت کو اصلِ حیات سمجھتے ہیں۔ جن کی زندگیاں موت کے جوہر سے پروان چڑھی ہوئی ہوتی ہیں۔ مرحوم کمہار صاحب نے سب کو حیران کر دیا کہ وہ حیاتِ ابدی کے جوہر سے وجود میں آنے والی موت کو گلے لگانے کاحوصلہ بھی رکھتے ہیں اور سلیقہ بھی۔ وہ واقعی جان دینے کے قابل تھے۔ اگر کسی بھی شخص کو مخلص انسانوں کی صحبت اور ان کے زندگی کو برتنے کے طریقے سے تھوڑی بھی واقفیت ہو یا تھوڑا سا بھی شغف ہو تو اسے کمہار صاحب سے ان کے آخری ایام میں مل کر اس بات کا قطعی ادراک حاصل ہوتا کہ کمہار صاحب ایک نفس مطمئنہ لیکر جہانِ ناپائیدار سے رخصت ہوئے۔ لیکن کمہار صاحب کی اس ساری بندہ نوازی اور رب ذوالجلال کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے عمل کے ساتھ سینکڑوں بیواؤں, یتیموں, لاچاروں, بیماروں, مفلوک الاحال افراد کا کیا کیجئے, جن کے پیارے “ابا جان” کا نعم البدل کوئی نہیں۔ اللہ پاک ابا جان کی روح کو بلندی عطا کرے ۔آمین۔