تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
کل پرسوں رمضان المبارک کے مہینے کا آغاز ہونے والا ہے ۔ یہ مہینہ رحمتوں اور مغفرتوں کا مہینہ ہے ۔ اس مہینے کے 29 یا 30 دنوں کے روزے مسلمانوں پر فرض ہیں ۔ شعائر اسلام میں یہ مہینہ انتہائی ممتاز مہینہ ہے ۔ اللہ کے فرشتے اس مہینے میں نازل ہوتے ہیں ۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ شعبان بلکہ رجب کے مہینے سے ہی رمضان کے استقبال کی تیاریاں کرتے تھے ۔ رجب کے مہینے سے سلامتی اور برکتوں کے نزول کی دعائیں مانگنے تھے ۔ اس طرح سے آپ ؐ دو مہینے پہلے اپنے ساتھیوں کو ماہ رمضان کی اہمیت سے واقف کرانے کی کوشش کرتے تھے ۔ یہ مہینہ صرف روزہ داری کا مہینہ نہیں ۔ بلکہ اپنے اندر ایمان تازہ کرنے اور پورے اسلامی معاشرے کو اللہ کے رنگ میں رنگنے کا مہینہ ہے ۔ روزہ داری صبح سے شام تک بغیر کھائے پئے رہنے کا نام نہیں ۔ یقینی طور یہ روزوں کی پہلی ضرورت ہے ۔ صبح کی روشنی ظاہر ہونے سے پہلے کھانا پینا بند کرنا اور شام کو آفتاب غروب ہونے کے بعد افطار کرنا یہ روزوں کی ظاہری صورت ہے ۔ اس کے علاوہ روزوں کا ایک روحانی معیار بھی ہے ۔ اللہ کے لئے صبح سے شام تک کھانا پینا ترک کرنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ آدمی گیارہ مہینے کھاتا رہے ۔ پیٹ بھر کر کھائے ۔ جتنا چاہئے اتنا کھائے ۔ پھر ایک مہینہ اسے کھانا پینا ترک کرنے کو کہا جائے تو اس میں کوئی قباحت یا مشکل نہیں ۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اس کے پس پردہ جو راز ہے اس کو پانا کاردارد والا معاملہ ہے ۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مبارک مہینے میں ہمارے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کرتا ہے ۔ اس مہینے کے پہلے عشرے میں رحمت ، دوسرے عشرے میں گناہوں سے بخشش اور تیسرے عشرے میں جہنم کی آگ سے نجات نصیب ہوتی ہے ۔ اس حدیث کی سچائی میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں ۔ اس کے پس منظر میں یہ کہنا غلط نہیں کہ ہم آج تک ان عنایات سے عاری ہیں ۔ کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ اسے ماہ رمضان میں اللہ کی کوئی رحمت نصیب ہوئی ۔ رحمتیں ضرور نازل ہورہی ہیں ۔ لیکن ہم ان رحمتوں سے دور ہیں ۔ ہم نے خود کو کبھی کسی رحمت کا حقدار نہیں بنایا ۔ یہ ان لوگوں کی بات نہیں جو روزہ خور ہیں ۔ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو روزہ دار ہوکر بھی اللہ کی عنایتوں کے مستحق نہیں بن پاتے ہیں ۔ وہ لوگ جو صبح سے شام تک کوئی دانہ اپنے منہ میں نہیں ڈالتے ۔ جو اس بات سے باخبر ہیں کہ روزے اللہ کی طرف سے فرض کی گئی ہیں ۔ پھر اس حکم پر عمل بھی کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود اپنا ظاہر بدل پاتے ہیں نہ باطن کی اصلاح ان کے نصیب میں ہے ۔ ایسے روزوں سے ان کی کوئی اصلاح نہیں ہوپاتی ہے ۔ یہ مہینہ صرف روزوں کا مہینہ نہیں بلکہ نمازوں کا مہینہ بن جاتا ہے ۔ صدقات اور خیرات کا مہینہ ہے ۔ مواخات اور زکوات کا مہینہ ہے ۔ ایک دوسرے کے لئے خیر سگالی کا مہینہ ہے ۔ اب یہ عمرے اور طواف کعبہ کا مہینہ بھی بن گیا ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان مکہ اور مدینہ جاکر وہاں عبادات میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔ یہ سب کچھ تو ہوتا ہے لیکن اندر اور باہر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی ۔ گناہوں کی جو بھر مار پہلے تھی آج بھی ہے ۔ یورپ کو ہم گالیاں دیتے رہتے ہیں ۔ اسرائیل اور ہندوستان کو کوستے رہتے ہیں ۔ چین اور روس کو کافر کہہ کر پکارتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ہے ۔ لیکن جو تباہی ہمارے اسلامی معاشروں اور ملکوں میں ہے ان کافر ممالک میں نہیں ۔ جاپان جتنا دیانت دار کو ئی اسلامی ملک نہیں ۔ یورپی معاشرے جیسا مخلص کوئی اسلامی معاشرہ نہیں ۔ کوریا جیسا طاقتور کوئی اسلامی سلطنت نہیں ۔ وہ خوف جو قیصر و کسریٰ پر طاری تھا آج مسلمان ملکوں پر حاوی ہے ۔ ہر مسلمان ملک خوف سے لرز رہاہے ۔ عام مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنا ایمان بچانے کے لئے ایک پیسے کا نقصان برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔ ما رمضان میں محنت و مشقت تو کرتے ہیں ۔ دین کے لئے بڑے فکر مند نظر آتے ہیں ۔ لیکن روزوں سے جو تبدیلی ان کے اندر آنی چاہئے اس کو قبول کرنے کو تیار نہیں ۔
ماہ رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جو پورے اسلام کو از سر نو بحال کرنے کا موجب بن جاتا ہے ۔ اس مہینے کے دوران مسلمان گھروں کے اندر واقعی ایک نئی چہل پہل نظر آتی ہے ۔ سحری کا اہتمام ہوتا ہے ۔ افطاری کے وقت دستر خوان بچھائے جاتے ہیں ۔ سحری کے وقت ڈھول بجائے جاتے ہیں۔ افطار ی کے لئے اذانیں گونجنے لگتی ہیں ۔ یہ سب کچھ بجا ۔ بس ایک چیز کی کمی ہے کہ روزوں کا وہ اثر نظر نہیں آتا جو اس کا اصل مدعا و مقصد ہے ۔ علماء دین کا اتفاق ہے کہ قرآن کا نزول ماہ رمضان میں ہوا ہے ۔ ہدایت کی اس کتاب کا نزول جب عرب معاشرے کے اندر ہوا تو وہاں کی پوری زندگی یکسر بدل گئی ۔ کل کے رسم ورواج تبدیل ہوکر رہ گئے ۔ پوری سوسائٹی ایک نئے طرز پر تعمیر ہوئی ۔ ایک نیا معاشرہ تعمیر ہوا ۔ ایک نئی سلطنت وجود میں آگئی ۔ آج اسلام کے نام لیوا لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں ۔ آج اسلامی ممالک کی ایک بڑی تعداد نقشے پر نظر آتی ہے ۔ ان کی ایک متحدہ آرگنائزیشن بھی ہے ۔ اس کے باوجود ان کہیں ان کی عزت کی جاتی ہے نہ ان کی تعریفیں ہورہی ہیں ۔ بلکہ انہیں ہر جگہ کوسا جاتا ہے ۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ ہم ماہ رمضان کا استقبال اس کے اصل روح اور مقصد سے کریں ۔ تاکہ اس کی برکات سے فیض یاب ہوجائیں ۔