تحریر:شیخ محمد فہیم قاسمی
جنت حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔ یہ ایک مشکل سودا ہے ۔ اللہ نے جنت حاصل کرنے کے طریقے وضع کئے ہیں ۔ اس کے لئے ایک روڈ میپ بناکے دیا ہے ۔ ایک ایسا را ستہ بتایا ہے جو سیدھا اور مختصر مگر سخت راستہ ہے ۔ یہی صراۃ مستقیم جنت کو جاتا ہے ۔ یہ راستہ طے کرتے ہوئے مشکلات پیش آنے کے ساتھ اس پر بھٹکنے کا بھی خطرہ رہتا ہے ۔ انسان کا اپنا نفس سامنے آکر ادھر ادھر لے جاتا ہے ۔ نفس کو قابو کرنا جنت تک پہنچنے کا پہلا مرحلہ ہے ۔ نفس کی خواہشات پر قابو پانا اسلام نے ضروری قرار دیا ۔ اس کی ہر خواہش کو رد نہیں کیا جاسکتا ۔ بلکہ ان کو پورا کرنے کے لئے جائز طریقہ اختیار کرنا ہوگا ۔ جائز اور ناجائز میں فرق اسلام نے بتایا ہوا ہے ۔ حلال اور حرام ان ہی خواہشات کے لئے پروٹو کول ہے ۔ سب سے اہم بات یہ بتائی گئی ہے روزے نفسانی خواہشات پر قابو پانے کے لئے ضروری ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے روزے فرض کئے ہیں ۔ روزہ داری کے دوران حرام چیزیں ہی نہیں بلکہ حلال چیزوں سے بھی دور رہنا فرض قرار دیا گیا ہے ۔ ایسا نہ کیا گیا تو روزوں کا مقصد پورا نہیں ہوگا ۔ روزے پہلی قوموں پر بھی فرض کی گئی تھیں ۔ ایسی روزہ داری کے اثرات آج بھی مختلف اقوام میں رائج ہیں ۔ اسلام کے روزے ساری روزہ داریوں کا نچوڑ اور اعلیٰ ترین صورت ہے ۔ تاکہ لوگ متقی اور پرہیز گار بن جائیں ۔ سال کے بارہ مہینوں میں ایک مہینے کے روزے فرض کئے گئے ہیں ۔ ان سے فرار ممکن نہیں ہے ۔ بیماروں اور مسافروں کے لئے روزوں میں چھوٹ دی گئی ہے ۔ البتہ صورتحال بہتر ہوجائے تو چھوڑ دئے گئے روزے پورا کرنا ہونگے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روزہ داری اللہ کے نزدیک کتنی اہم ہے ۔ تاکہ مسلمان متقی بن جائیں ۔ روزوں کا احترام امت اسلامی میں آج تک موجود ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ روزہ رکھنے والوں میں کتنے پرہیز گار اور متقی بن جاتے ہیں ۔ کتنے لوگ ہیں جو روزوں کو نتیجہ خیز بناکر تقویٰ شعار بن جاتے ہیں ۔ ظاہراََ ایسا کچھ نظر نہیں آتا ۔ سحری اورافطار کا اہتمام ہر گھر ، مسجد اور بازار میں ہوتا ہے ۔ لیکن تقویٰ پر زور کہیں نظر نہیں آتا ہے ۔ ماہ رمضان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس مہینے میں قرآن نازل کیا گیا ہے ۔ قرآن ہدایت کی کتاب ہے ۔ اس کتاب کو نظر انداز کرکے کوئی عمل کیا جائے زندگی کا بدل جانا ممکن نہیں ۔ روزوں کے لئے قرآن کو بنیاد نہ بنایا جائے تو تقویٰ حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ اسی ما رمضان کے دوران ایک رات ایسی آتی ہے جو ہزار مہینوں پر بھاری ہے ۔ اس رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر ہے ۔ شب قدر کی یہ رات اللہ ، اس کے نبی اور تمام فرشتوں کی محبوب رات ہے ۔
ماہ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا ، دوسرامغفرت کا اور آخری عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا عشرہ بتایا گیا ہے ۔ آخری عشرے کے دوران رات کی عبادت پر زور دیا گیا ہے ۔ اس عشرے کی طاق راتوں کے اندر ایک ایسی رات ہے جو دنیا کی تمام قیمتی اشیا سے بہتر رات قرار دی گئی ہے ۔ یہاں تک کہ اس رات کی عبادت کو بڑی فوقیت حاصل ہے ۔ اس رات سب سے زیادہ گنگار وں کی بخشش ہوتی ہے ۔ فرشتوں کے علاوہ خود اللہ اس تلاش میں رہتا ہے کہ کوئی سوال کرنے والا ہاتھ پھیلائے ، مغفرت مانگے ، بخشش کا سوال کرے تو اللہ اس کے گناہوں کو بخش دے ۔ اب ی بندوں کی خواہش ، چاہت اور شوق پر منحصر ہے کہ وہ اللہ کے سامنے حاضر ہوجائیں ، گڑگڑائیں اور بخشش مانگیں ۔ اللہ ضرور بخش دے گا ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ نامراد ہوگیا وہ شخص جس کو رمضان کا مہینہ ملا اور بخشش نہ ملی ۔ بڑا بد قسمت ہے وہ شخص جس کے پاس سے رمضان گزرا اور وہ اپنے گناہوں کو بخش وانے میں کامیاب نہ ہوا ۔ ایک مسلمان کی زندگی میں کئی صیام اور قدر کے کئے شب آکر گزر جاتے ہیں ۔ نزول قران کا مہینہ آتا پھر نزول قران کی مجلسیں بھی ہوتی ہیں ۔ روزوں کا اہتمام بھی ہوتا ہے اور بخشش کی کوششیں بھی ہوتی ہیں ۔ لیکن بہ ظاہر ایسا کوئی عمل نتیجہ خیز ثابت نہیں ۔ اللہ کی بارگاہ کے اندر کیا صورتحال ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔ لیکن جو دنیاوی اور ظاہری صورتحال ہے وہ یہی ہے کہ کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ کوئی اچھا سا رنگ نہیں چڑھ جاتا ہے ۔ ہماری زندگی کے کسی شعبے میں کوئی پسندیدہ صورت پیدا نہیں ہوتی ۔ رمضان کا مہینہ گزرنے کے بعد ہم واپس اسی ڈگر پر آتے ہیں جو رمضان سے پہلا ہمیں پسند تھا ۔ ماہ رمضان کے دوران جس طرح ہمارے پسند اور ناپسند کے مشاغل ہوتے ہیں عید کے آتے ہی یہ سب کچھ الٹ پلٹ ہوجاتا ہے ۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم روزے ایمان اور احتساب سے رکھتے ہیں نہ شب گزاری کے لئے ایسا کچھ کرتے ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ہمیں روزہ داری کا صحیح مقصد اور صحیح مقام معلوم نہیں ۔ یا معلوم ہوکر اسے نظر انداز کرتے ہیں ۔ ایک مہینے کے روزوں ، آخری عشرے کی شب بیداری اور شب قدر کی تلاش کے باوجود جب آخر پر نتیجہ صفر ہے تو ثابت ہوا کہ ہم خالی ہاتھ لوٹ آئے ہیں ۔ اتنی محنت ، مشقت اور صبر آزمائی کے بعد ہمیں کچھ حاصل نہ ہوجائے تو بڑی حسرت کا مقام ہے ۔ اللہ ایسی مایوسی سے بچائے ۔ ایسی روزہ داری سے نجات دے ۔ ایسے خسارے سے تحفظ فرمائے ۔ آمین