تحریر:انیسا گلزار وانی
اس کا ئنات کو اﷲتعالیٰ نے بہت خوبصورت بنایا ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ،ا ﷲتعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتیں بھی عطا کی،جیسے زمین و آسمان ، شام و سحر ، چرندو پرند، وغیرہ وغیرہ۔اور ان نعمتوں کا ہم شکر بھی ادا کرتے ہیں ، مگر کچھ نعمتیں ایسی ہوتی ہے ، جو عین ایک بار حاصل ہوتی ہے، پھر دوبارہ ہم انہیں حاصل کرنے کی توقع نہیں کرسکتے ۔ جیسے کہ’’ والدین ‘‘ ، اسی طرح کئی ایسی نعمتیں ہیں ، جو ہمیں ایک ہی مرتبہ حاصل ہوتی ہے ۔لسی طرح علماء ک شمار بھی نعمتوں میں ہوتا ہے۔ عالم دراصل انبیاء کے وارث ہوتے ہیں ،ایسے ہی ایک ’’عالم‘‘ جو برصغیر میں موجود تھے، ’’ ڈاکڑ اسرار احمد‘‘ جن کی شخصیت سے ہم بخوبی واقف ہیں ۔ ڈاکڑ صاحب اُن جلیل القدر فرزندوں میں سے ہیں ،جن کے احسانات صبح قیامت تک دنیا یاد رکھے گی۔مختلف مو ضوعات پر روشنی ڈالتی آ پ کی کتا بیں صدیوں سے بنی نوع انسان کی رہنمائی کا فریضہ دیتی چلی آ رہی ہیں ۔وہ اپنی کتابوں کی سطروں میں آ ج بھی ویسے ہی زندہ و جا ویدہیں ،جیسے کہ کل اپنے عہد میں اور انشااﷲ۔ اپنی بے پا یاں خدمات دین کے حوالے سے کل بھی مرنے نہ پائے گے۔ آپ کی طبع وقار نے ہر مو ضوع پر خراجِ تحسین وصول کیا ۔اتنی معمولی سی عمروں میں حیرت ہے کہ ہمارے اَسلاف کی عدم فراہمی کے با وجود کتنا کچھ کر دکھا یا اور آ ج ہزا روں سہو لیتںہونے کے با وصف ان کے جیسا کچھ بھی نہیں ہو پا رہا ۔ یقینا اُن پر اﷲ کا بڑا فضل تھا،جس نے ان سے اتنا کچھ کرا لیا ، اور یہ فضل الٰہی ان کے خلوص و اطاعت کا ثمرہ تھا ،جس سے آ ج ہم محروم ہیں ۔ وہ نیک تھے ، اچھے تھے ، سچے تھے ۔ہم بد ہے ، برے ہے ۔ان کا ظا ہر و با طن یکسا ں تھا ، اور ہمارے ظا ہر و با طن میں کھلا فرق ہے ۔ وہ جو کہتے تھے وہی کرتے تھے ، اور ہم جو کہتے ہیں ٹھیک اس کا اُلٹ کر تے ہیں ۔ان کی ظا ہری آنکھیں بھی پُرنور تھیں اور با طنی آ نکھیں بھی بینا تھیں ، ہماری آ نکھیں اور دل سیاہ ہو گئے ہیں ۔ روح کی بستی اُجڑ گئی ہے، فکر و نظر کی قو تیں با نجھ ہو گئی ہے ،عار ضی گھر (دنیا ) کے لئے تو ہم سب کچھ کر بیٹھتے ہیں ، مگر مگر دا ئمی ٹھکا نہ (آ خرت) کے لئے ایک ذرا نہیں ہو پاتا ۔انہو ں نے دنیا کے لئے اسے اتنا ہی برتا جتنا چا ہئے تھا۔ ڈاکڑ صا حب کا قر آ ن سے شغف اور ز با ن و بیا ن پر قدرت کے باب میں وہ اپنی مثال آ پ ہیں ۔آ پ بھارت کے ضلع ہر یا نہ ، ہسار میں ۲۲۔اپریل ۔۱۹۳۲ء میں پیدا ہو ئے ۔ آ پ کے وا لد کانام ’’مختار احمد ‘‘ تھا ۔ اور والدہ محترمہ کا نام ’’ فردوسی بیگم‘‘ تھا۔ڈاکڑ صا حب کی تعلیم کی ابتداء قر آ ن شریف سے ہو ئی ،جس کی تعلیم آپ کی والدہ محترمہ نے دی ۔ڈاکڑ صا حب نے اپنی تحریروں میں اپنی وا لدہ محترمہ کی قر آن سے نسبت کا تذکرہ کیا ہیں ۔ڈاکڑ صا حب کی خا تون ایک فعال خا تون تھیں۔ ڈاکڑ صاحب کی پر ورش میں اُن کے بہن،بھا ئیوں، ماں اور نینھال بزرگ کا زیادہ حصہ ہیں ۔
ڈاکڑ صا حب کے وا لد بر طا نیہ حکو مت میںانگریزی زبان اور حساب و غیرہ کے اعتبار سے ڈپٹی کمشنر کے آ فس میں ریڈر کی حیثیت سے ملا زم تھے ۔ قیامِ پا کستان کے بعد آ پ لا ہو ر منتقل ہو ئے ۔ ڈاکڑ صا حب کے وا لد کا انتقال ۱۱ ۔ نو مبر ۔ ۱۹۶۵ء کو لا ہو ر میں ہو ا۔ ڈاکڑ صا حب کی اصل زندگی کا آ غا ز لاہور میں ہوا ۔ ڈاکڑ صاحب نے (۱۹۴۷ ۔ ۱۹۴۹) میں گورمنٹ کا لج لا ہور سے ایف۔ ایس ۔سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کے بعدایم ۔بی ۔بی ایس ’’کنگ ایڈورڈ کا لج‘‘ سے پاس کیا۔اور وہا ں۱۹۵۴ میںفا رغ ہو ئے ۔پروفشنل تعلیم کے علاوہ دینی علوم کا شغف بدرجہ اتم مو جودتھا ۔۱۹۶۵ء میں کرا چی یو نیور سٹی (University of karachi )سے ایم۔ اے اسلا میات کیا ۔دو را نِ تعلیم آ پ اسلامی جمعیت کے طلبہ سے وابستہ رہے ۔اور فعال کردار ادا کر تے ہوئے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے ۔زما ئے طا لبِ علمی میں ہی اُنکی شنا خت ایک مد رس کے طور پر ہو تی گئی ۔ اور انہوں نے درسِ قرآ ن دینے شروع کر دیا۔
ڈاکڑ صاحب کی تقاریر اور خطبات میں علامہ اقبالؔ کے اشعار نگینوں کی طرح چمکتے ہیں ۔اُن کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہیں کہ ، ہندوستان کے دورے پر انہوں نے کافی بڑے بڑے مجموعے سے خطاب کیا ۔ڈاکڑ صاحب نے اپنی زندگی کا زیادہ وقفہ لاہور شہر میں ہی گزارا ۔ڈاکڑ صاحب نے اپنی پوری زندگی کو قرآنی زندگی بنایا تھا ،ڈاکڑ صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے حق گوئی کی بھی دولت سے بھی نوازا تھا ، وہ ہر بات پوری مضبوطی کے ساتھ کہتے تھے ، اور اختلافِ رائے کے با وجود تمام جماعتوں کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے تھے ۔ان کی شخصیت کا اہم پہلو ان کی یکسوئی ، خود اعتمادی ،اور خدمتِ دین کے لئے خطابت تھیں ، قرآن کو انہوں نے اپنا وظیفئہ حیات بنا رکھا تھا ، اور جس بات کو حق جانا اُس پر نہ صرف خود قائم ہوئے، بلکہ دوسروں کو بھی اس کے قائم کی منظم جدوجہد میں شریک کیا ۔ بلا شبہ ان کو اﷲتعالیٰ نے تحریر کی صلا حیت سے بھی نوازا تھا ۔ جو کتا بیں انہوں نے لکھی ، وہ ہر اعتبار سے علمی شاہکار ہیں ۔ان کی تحریر میں خطابت کا عنصر نما یاں ہیں ۔البتہ ان کے(Literature) کا بڑا حصہ ان کی تقا ریر اور دروسِ قرآن کا مرہونِ منت ہیں ۔
ڈاکڑ صاحب عالم دین نہیں تھے ، لیکن ایک عظیم مذہبی اسکولر کی حیثیت سے ان کی عوام میں اتنی گہری مقبو لیت حیران کُن ہے ،ساتھ ساتھ قابلِ رشک بھی۔بلا شبہ خود کو قرآن مجید کی خدمت کے لئے وقف کر چکے تھے ۔اور اسی کام میں آ خری وقت تک منسلک رہے ۔ تراویح کے ساتھ تفسیر قر آن کا با قا عدہ سلسلئہ بھی انہی کا جاری کردہ ہیں ،جو کہ آج تک مقبول ہیں ۔اُن کی زندگی کسی بھی نمود و نمائش سے پاک تھیں ۔قرآن اکیڈمی کے ایک کمرے میں رہا ئش پذیر تھے ،اور ایک(Study- table) صو فہ کمر بیڈ ، اور ایک پُرانا فیرئج(Refrigerator)اس کمرے کی کُل ملکیت تھا ۔
ڈاکڑ صا حب کی بے انتہا خو بیوں میں ایک یہ بھی بات تھی کہ ، آپ نے اپنے خاندان سے تمام جا ہلانہ رسو مات کا خاتمہ کیا ۔اور پھر اپنے رفقاء کار اور تنظیمی سا تھیوں کو بھی ان رسومات کے خلاف بغاوت کا اعلان کردینے کو کہاں ۔جس میں آپ کافی حد تک کا میاب رہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ آپ نے ’’ جہیز ‘‘ کی لعنت کے خاتمے کے لئے آپ نے موثر اقدامات کئے ، مسجد میں نکاح کے لئے لوگوں کو تر غیب دی ۔
ڈاکڑ صاحب کسی مد رسے سے فارغ تو نہ تھے ،لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان سے وہی کام لیا ، جو اﷲ تعالیٰ ہر دور میں اپنے نیک بندوں سے لیتے ہیں ، بلا شبہ ڈاکڑ صاحب قرآن کریم کی طرف رجوع کی تحریک کے ایک عظیم راہ نُما تھے ۔ اس مشن میں انہوں نے صحت کی پروہ کی ، اور نہ
مال و اولاد کی ۔ قرآن حکیم کتاب ہے، بیشک ہدایت ہے، جو انسا نیت کی فلاح ونجات کی ضمانت ہے ، ڈاکڑ صاحب کی کم و بیش سوسے(100)تصانیف موجود ہیں ،جن میں کئی کا دوسری زبانوں میںترجمہ بھی ہوچکا ہیں ۔ان کی بہت سی تصا نیف قرآن مجیدکے موضوع پر ہے ،جن میں آپ نے مختلف عنوانات کے تحت قرآن مجید کی اہمیت و عظمت اور قرآن مجید کے تقا ضوں پر بڑی خوبصورتی کے ساتھ روشنی ڈالی ہیں ۔
القصہ ڈاکڑ صاحب اخلاص فی الدین ، پابند شریعت ، پابند وقت ، بناوٹ و تصنیع سے پاک ، سادگی ، حق گوئی ، علمیت و وسعت مطالعہ ،وسیع
النظر ، شفقت و پیار ، تنظیمی اور قائدانہ صلاحیت ، یہ سب وصف آپ میں بدرجہ اتم موجود تھے ۔ ڈاکڑ صاحب ایک عالم با عمل اور اسلاف صالحہ کی زندگی کا عمدہ نمونہ تھے ۔ ان کی وفات ۱۳ ؍ اپریل ۲۰۱۰ء کی درمیانی شب میں ہوئی ۔ ان کی وفات سے ملک ایک عظیم مذہبی دانشور اسکالر سے محروم ہوگیا ۔ ڈاکڑ صاحب کے انتقال سے اسکالر ز کی دُنیا میں ایک خلا پیدا ہوگیا ۔ ان کی نمازِ جنازہ ۱۴ ؍ اپریل ۲۰۱۰ء بروزِ بدھ بعد نمازِ عصر سنٹرل پارک ماڈل ٹائون لاہور میں آپ کے صاحبزادے امیر تنظیمِ اسلامی ۔ ’’ حافظ عاکف سعید ‘‘ نے پڑھائی ۔
ڈاکڑ صاحب نے کم و بیش ساٹھ برس (۷۰)انسانوں کی بستی میں اُجالے اور روشنی باٹنے کا کام جاری رکھا ۔ اﷲ تعالیٰ فروغِ دین کے پیغمبرانِ مشن کے اس مشعلے پر دار کی قبر کو نور سے بھر دے ، اور اُسے وہ مقام عطا کریں ، جو اُس نے بندگانہ خاص کے لئے مخصوص کر رکھا ہیں ۔( آمین)
ڈاکڑ صاحب نے دورِ حاضر میں اسلامی انقلاب برپا کرنے اور نظامِ خلافت کے قیام کے لئے جو خاکہ پیش کیا ، اس پر عمل اگرچہ ابھی مشکل لگتا ہے ، لیکن ناممکن نہیں ، اور جو مسائل باقی عالموں سے نہ سُلجھتے تھے ، ڈاکڑ صاحب نے اُن مسائل کا حل پیش کیا ، اسلئے کون کہتا ہے کہ ، ’’عالم ‘‘ کی موت وا قعہ ہوتی ہے ،نہیں کبھی نہیں وہ نہیں مرتا وہ اپنے عشق اور علم سے ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔ اور آنے والی نسلیں اُن کے علم سے فیض حاصل کرتی رہیں گی ، جیسا کہ میں نے کیا ۔۔۔۔۔!!!!
’’نِگہ بُلند ، سخن دل نواز ، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لئے ‘‘ (اقبالؔ)