تحریر: میر غلام حسن
عید الفطر کی تقریب سعید قریب آرہی ہے ۔عید کے معنی ــ’’خوشی‘‘ کے ہیں ۔یہ عید شوال کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے۔مسلمان ماہ رمضان کے دوران اللہ کی رضا جوئی کے لئے روزے رکھتے ہیں اور پھر یکم شوال کو عید گاہوں میں شکرانہ کے طور پر نماز عید ادا کرتے ہیں ۔عید کے دن اللہ تعالیٰ عید گاہ میں ہی اپنے مومن بندوں کی مغفرت فرماتا ہے اور ان کی جھولیوں کو اپنی رحمت سے بھر دیتا ہے ۔خدا کرے کہ ہم بھی انھیں لوگوں میں شامل ہوں جن کی اللہ مغفرت کرے اور جن کو وہ اپنی رحمت سے نوازے ۔وہ لوگ نہایت خوش قسمت ہیں جو ماہ صیام کا احترام کر کے اللہ کافیض حاصل کر نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ اللہ کو وہ لوگ بہت پسند ہیں،جو روزوں سے اپنے اندر تقوٰی پیدا کریں اور جن میں للٰہیت ہو ۔جن میں اخلاص ہو،جن میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کا جذبہ ہو ،جو خوشی اور غم میں اپنے ان بھائیوں کو یاد رکھیں جو متاثر ہوئے ہوں ۔اللہ کو ایسا ہی تقوٰی مطلوب ہے کہ انسان کا دل خوف خدا سے نرم پڑے اور انسان اللہ کا ہو جائے۔
رمضان صبر اور ہمدردی کا مہینہ ہے یعنی روزوں کے ذریعے سے انسان کے اندر صبر پیدا ہو جانا چاہئے تاکہ وہ اپنے اس مؤقف پر ڈٹا رہے جو اس نے بحیثیت مسلمان اپنایا ہو ۔خدا کو وہ لوگ بہت پسند ہیں جو ایمان کے بعد ثابت قدم ہوں وہ اتار چڑھاؤدیکھ کر بیتاب نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کے ایمان میں مضبوطی آجاتی ہے ۔وہ مایوس نہیں ہوتے ہیں ،بلکہ ان میں عزم پیدا ہو جا تا ہے ۔روزوں سے انسان کے اندر یہ احساس بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ فاقہ مست لوگ کیسی زندگی کزارتے ہیں ۔جس انسان کو پانی کی ضرورت ہو اس کو پانی دینا کتنا ضروری ہے ۔جس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہ ہو اس کو کھانا میسر کرنا کتنا ضروری ہے ۔پتہ چلتا ہے کہ روزوں سے انسان کو وہ تربیت ملتی ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ کا سپاہی بن کر اس کے دین کی سرحدوں کی حفاظت کرے اور کوشش کرے کہ دنیا میں ایک ایسا نظام قائم ہو جائے جس میں دنیا کے سارے انسانوں کی فلاح ہو،یہ فلاح صرف اور صرف اسلام میں موجود ہے ۔اس لئے اسلام روزوں کے ذریعے انسان کی تربیت کرتا ہے تاکہ وہ ایک ایسے نظم کا پابند ہو جائے جس میں صرف’’ صبغتہ اللہ‘‘ ہی نظر آجائے۔ عیدالفطر ہم کن حالات میں منانے جا رہے ہیں ہم میں سے ہر فرد ان حالات سے باخبر ہے ۔ہم تاریخ کے کس نازک موڈ پر کھڑے ہیں ۔ہمیں اس کا اوراک ہونا چاہئے تاکہ ہم میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟ آج کے موقع پر عید الفطر مناتے ہوئے ہمیں ایک بار پھر تجدید عہد کرنا ہو گا ۔کہ ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا ۔
بات یہ ہے کہ ہم عید الفطر منانے تو جارہے ہیں ۔لیکن ہم وہ تقاضے پورے نہیں کرتے ہیں جن کو پورا کرنا چاہیے تھا ۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم خوشیاں منانے کے کتنے مستحق ہیں اور کیا واقعی ہم عید منانے کے مستحق ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو سنبھالیں اور اپنے آپ کو خدا کی مدد کا مستحق بنائیں ۔ اور خدا سے دعا کریں کہ وہ ماہ رمضان کے طفیل ہم سب کو جہنم کی آگ سے بچایے ،ہمارے صدقات ، خیرات قبول کرے ، ہمارے روزوں کی اجابت ہو،ہمارے قیام ، رکوع ، سجود کو قبولیت عطا کرے ، ہمارے گناہوں کی مغفرت کرے ، ہمارے بھائیوں کی مغفرت فرمائے ، ہمارے دلوں کو آپس میں ملائے ۔ خدا کرے کہ یہ عید الفطر ہمارے لیے پروانہ ٔنجات لے کر آئے ۔عید منانے کے اصل مستحق وہ ہیں جو رمضان کے روزے رکھیں ،اپنے اندر تقوٰی پیدا کریں ،مالدار ہونے کی صورت مین دوسروں کی امداد کریں ،ہمسایوں ،رشتہ داروں ،فقراء ،مساکین کی دلجوئی کریں ۔عیدالفطر کے دن اللہ اپنے بندوں کو عید گاہ ہی میں معاف کرتا ہے اور انھیں مغفرت کی بشارت سے نوازتا ہے ۔ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم عیدالفطر کی اصل روح کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے لئے اور اپنے بھائیوں کے لئے اور پوری ملت کے لئے دعا کریں کہ اللہ ہمیں عید کی رحمتوں سے مالا مال کرے۔جن لوگوں کی رمضان المبارک میں مغفرت ہوگی ان کی اس رمضان کے بعد عید بھی ہوگی اور جن کی مغفرت نہ ہوسکی ان کے لئے رمضان کے بعد وعید ہوگی ۔ ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت ! عید کب ہوگی؟ اس نے فرمایا،’’جب دید ہوگی تب عید ہوگی‘‘ مطلب یہ کہ جب محبوب کی دید ہوگی تب عید ہوگی کیونکہ ایک سچے مسلمان کا تو کام ہی یہی ہے کہ اس کے لئے محبوب کا وصل ہی اصل عید ہوتی ہے اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ صحیح معنوں میں ہم بھی عید منائیں اور یہ عید ہمارے لئے باعث مغفرت ہو ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم عید کے دن بھی نماز عید کے موقع پر اللہ کی رحمت طلب کریں تاکہ ہمارے گناہوں کی مغفرت ہوجائے اور ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں ۔
بقول شاعر:
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
اٹھتے ہیں حجاب آخر کرتے ہیں خطاب آخر
ہمیں چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کے ہمدرد بنیں ، ایک دوسرے کے کام آئیں اور اللہ سے دست بدعا ہوجائیں کہ وہ ہمیں صحیح راہ دکھائے اور ہم پر رحم کرے ۔