تحریر:جی ایم بٹ
اللہ نے واضح ہدایت دی ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ۔ قرآن مجید کے پہلے ہی سورہ میں اس حوالے سے جو آیت درج ہے وہ زبان زد عام ہے ۔ ہر اپنا اور غیر اکثر اس کا حوالہ دیتا ہے اور فٹ سے کہتا ہے کہ لا اکراہ فی الدین۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ محض کوئی ہدایت نہیں بلکہ ایک حکم کے طور صادر ہے ۔ اسلام نے کبھی بھی جبر و ظلم کی اجازت نہیں دی ہے ۔ دین میں داخل کرنے کے لئے کسی پر جبر یا زبردستی نہیں کی جاسکتی ہے ۔ تاہم ایک بات کا احساس کرنا ضروری ہے ۔ اللہ نے اس طرح کا حکم کسی بادشاہ ، حاکم ، نبی یا خلیفہ کے لئے صادر نہیں کیا ہے ۔ عام طور سے ایسی باتیں ان کے نام جاری کی جاتی ہیں جو صاحب اقتدار ہوتے ہیں یا کسی طرح کے طاقت کے حامل ہوں ۔ کوئی قانون دان یا ادارہ اس طرح کا حکم جاری کرے تو یہی کہے گا کہ ریاست اور حکومت کے لئے جائز نہیں کہ کسی پر جبر و تشدد کرے ۔ اسلام نے جبر کو روکنے کے لئے روایتی زبان استعمال نہیں کی بلکہ دین کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ اس کی مختلف طرح سے تاویل کی گئی ہے ۔ اس دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ دین کا جو لفظ اللہ نے استعمال کیا ہے یہ صرف مذہب کا نعم البدل نہیں بلکہ ایک معاشرے کی عکاسی کرتا ہے ۔ کسی بھی معاشرے کے استحکام کے لئے قانون ، عدل ، سماجی انصاف اور ایک مضبوط نظام چاہئے ۔ مختلف اقوام نے ان چیزوں سے کام لے کر اپنے وقت پر اپنے طورمعاشرے کی بنیاد ڈالی ۔ ایک طویل عرصے تک ان چیزوں سے اجتناب کرکے ظلم و جبر سے کام لے کر بھی ریاست چلائی گئی ۔ لیکن ایسی ریاستیں اپنے استحکام کے باوجود کسی نہ کسی مرحلے پر نیست و نابود ہوگئیں ۔ انسان فطری طور انصاف اور عدل کا متمنی ہے ۔ صاحب اقتدار یقینی طور اپنی حاکمیت کو طول دینے کے لئے جبر اور تشدد سے کام لیتے ہیں ۔ لیکن ایسا کرکے وہ اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے بجائے کمزور اور کھوکھلا کردیتے ہیں ۔ ایسا اقتدار بہت جلد ان کے ہاتھوں سے نکل جاتاہے ۔ اس طرح کے اقتدار کے خلاف لوگ ضرور بغاوت کرتے ہیں ۔ انسانی سماج کی اکثریت ایسے جبری نظام کے خلاف ہوتے ہیں ۔ اسلام نے اس چیز پر زیادہ زور دیا ہے کہ ریاست کی بنیاد حق و انصاف پر مبنی ہو ۔ اللہ نے اس طرح کے نظام کے لئے ایک مخصوص اصطلاح وضع کی ہے جس کو دین کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ دین کا لفظ محض عبادات و تسبیحات کے لئے پیش نہیں کیا گیا ہے بلکہ اسلامی معاشرے کے لئے یہ اللہ کی ایک تشکیل دی گئی اصطلاح ہے ۔ دین اصل میں معاشرے کی مجموعی صورت کا نام ہے ۔ عربی میں دین کے معنی ضابطہ حیات کے ہیں ۔ ضابطہ حیات ہی انسانی معاشرے کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے ۔ اللہ نے دین کی اصطلاح پیش کرتے ہوئے یہی سمجھا یا ہے کہ اسلام کوئی روایتی نظام نہیں بلکہ ایک مضبوط معاشرے کی تشکیل کا نام ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ دین اللہ کے پسندیدہ معاشرے کا نام ہے ۔ اسلامی معاشرے کا نام دین ہے اور اس کی اصل بنیادیں دین کے نام سے تعبیر کی گئی ہیں ۔ اسلامی معاشرے کو چلانے اور اس کے خد و خال تشکیل دینے کے لئے دین سے مدد لینا ضروری ہے ۔
یہ اندازہ لگانا بلکہ قبول کرنا کہ بہت مشکل ہے کہ اسلام میں جبر و تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ۔ پچھلے طویل عرصے سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ مسلمان معاشرے کے اندر سارا کام جبر وتشدد سے لیا جاتا ہے ۔ اسلام کے پھیلائو کی کوششیں جبر و اکراہ سے ہی کی جاتی ہیں ۔ پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ۔ اسلام نے جنگ کی کھل کر حمایت کی ہے اور جان دینے یا جان لینے کو جائز قرار دیا ہے ۔ اس دوران یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسلمان جس اللہ پر ایمان لاتے ہیں وہ ایسی ہستی ہے جو کسی بھی شخص کو کسی بھی راستے پر ڈالنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ جب ایسی صورتحال ہے تو اللہ کے پاس یہ طاقت ضرور ہے کہ وہ ساری دنیا کے لوگوں کو آنکھ جھپکتے دین اسلام کے دائرے میں لاسکتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ عمر کے ایمان لانے سے دین کی مدد فرما تو اگلے لمحے عمر بن خطاب اسلام قبول کرچکاتھا ۔ جب اللہ ایک ایسے شخص کو دین کی فہمائش دے سکتا ہے جو اسلام کو مٹانے کے لئے گھر سے نکلا ہو تو اس کے دست قدرت سے یہ بعید نہیں کہ وہ ساری دنیا کے لوگوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال کرے ۔ لیکن عملی طور ایسا نہیں ہوت ا۔ بلکہ اللہ نے تمام لوگوں کو آزاد پیدا کیا ہے انہیں جبری طور غلام نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔ اللہ نے ہر شخص آزادی رائے کا حق دیا ہے ۔ لوگ اپنی مرضی سے اپنے لئے لائحہ عمل طے کرسکتے ہیں ۔ ایک معاشرے کے اندر ہر طبیعت ، مختلف اعتقاد اور مختلف رنگ و نسل کے لوگ موجود ہوتے ہیں ۔ کسی بھی شخص کو مجبور نہیں کیا جاسکتاہے کہ وہ دوسرے کی مرضی کا وہ راستہ اختیار کرے جو اسے پسند نہ ہو ۔ جب اللہ خود کسی کو جبری طور اپنے پسندیدہ دین میں داخل نہیں کرتا ہے تو انسان کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اللہ کی مخلوق کو جبر وتشدد سے اس کا دین اختیار کرنے پر مجبور کرے ۔ یہی اسلامی معاشرے کی نمایاں خصوصیت ہے کہ یہاں کسی پر اس کے اعتقاد یا دین کے حوالے سے کوئی جبر نہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اب مسلمان مخالف مسلک قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ مسلمانوں کے اندر مسلکی تشدد اور فرقہ وارانہ تضاد عروج پر ہے ۔ پاکستانی معاشرے میں ایک دوسرے کے علما کو مار گرانا عین جہاد اور جنت کی ضمانت سمجھا جاتا ہے ۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں میں خود کش حملے ہوتے ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایسے خود کش حملے کرنے کے لئے نوجوان تیار ہوجاتے ہیں ۔ ایسا معاشرہ جہاں اس طرح کا تشدد پایا جاتا ہو وہاں یہ کہنا کہ دین میں کوئی جبر نہیں کسی کو ہضم نہیں ہوتا ہے ۔ تاہم اللہ کا حکم واضح ہے اور اس میں کسی طرح کے شک و شبہے کی گنجائش نہیں ۔ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ۔