عمران بن رشید‘سیرجاگیر سوپور
سورہ حجرات کی درج ذیل تین آیات میں ایک بہترین اور مثالی سماج کی تعمیر کا ایک رہنما اصول بیان کیا گیا ہے وہ یہ کہ سماج میں ہر انسان کو عزت کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہے ۔ذات پات‘رنگ ونسل یا کام کے لحاظ سے کوئی چھوٹا بڑا نہیں ۔یہ انسانوں کا بنایا ہوا خودساختہ معیار ہے ‘اصل میںاگر واقعی کوئی بڑا ہے تو وہ ایمان اور تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔لہذا کسی کو بُرا بھلا کہنا یا بُرے القابات سے پکارکر اُسے نیچا دکھانا نہایت ہی گھٹیا اورقبیح عمل ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنوا لا یَسخَر قَومٌ مِن قَومٍ عَسیٰ أَن یَکونوا خَیرًا مِنہُم وَلا نِسائٌ مِن نِسائٍ عَسیٰ أَن یَکُنَّ خَیرًا مِنہُنَّ وَلا تَلمِزوا أَنفُسَکُم وَلا تَنابَزوا بِالأَلقابِ بِئسَ الِاسمُ الفُسوقُ بَعدَ الإیمانِ وَمَن لَم
یَتُب فَأُو لٰئِکَ ہُمُ الظّالِمون٭َ یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اجتَنِبوا کَثیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعضَ الظَّنِّ إِثمٌ
وَلا تَجَسَّسوا وَلا یَغتَب بَعضُکُم بَعضًا أَیُحِبُّ أَحَدُکُم أَن یَأکُلَ لَحمَ أَخیہِ مَیتًا فَکَرِہتُموہُ
وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ تَوّابٌ رَحیمٌ٭ یا أَیُّہَا النّاسُ إِنّا خَلَقناکُم مِن ذَکَرٍ وَأُنثیٰ وَجَعَلناکُم شُعوبًا
وَقَبائِلَ لِتَعارَفوا إِنَّ أَکرَمَکُم عِندَ اللَّہِ أَتقاکُم إِنَّ اللَّہَ عَلیمٌ خَبیرٌ٭
’’اے ایمان والو!کوئی قوم دوسری قوم سے مسخرا پن نہ کرے ممکن ہے کہ یہ اس سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں سے ‘ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگائو اور نہ کسی کو برے لقب دو‘ایمان کے بعد فسق برا نام ہے‘اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں۔اے ایمان والو!بہت بدگمانیوں سے بچو‘یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے ۔کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟تم کو اس سے گھن آئے گی‘اور اللہ سے ڈرتے رہو ‘بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔اے لوگو!ہم نے تم (سب)کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور (پھر )تم کو کنبوں اور قبیلوں میں (تقسیم) کردیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو‘اللہ کے نزدیک تم میں سب سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے ‘یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے‘‘[آیات ۔11۔12۔13 ]۔
دوسروں کے ساتھ مسخرا پن کرنا اور ایک دوسرے کو تکبر کی وجہ سے بُرے القابات سے پکارنا نہایت ہی قبیح عمل ہے جس سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔چنانچہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ الْنَّاسِ‘‘تکبر حق کو جھٹلانے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے[المسلم؍91]۔’’یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنوا‘‘مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں دونوں کو شامل ہے۔لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے علحیدہ طور پر عورتوں سے خطاب کیا ہے’’ وَلا نِسائٌ مِن نِسائٍ‘‘یعنی عورتیں بھی عورتوں سے مسخرا پن نہ کیا کریں ۔ دراصل عورتیں فطری کج روی کے باعث اس چیز میں زیادہ مبتلاہوتی ہیں ‘لہذا اشد ضرورت کے موافق اُن سے علحیدہ خطاب کیا گیا ہے۔
تین قبیح اعمال:۔اللہ تعالیٰ نے تین گناہوں کا ذکر ایک ساتھ ایک ہی آیت میں کیا ہے ۔
(۱) ’’لا یَسخَر قَومٌ مِنْ قَومٍ‘‘ ایک قوم یا جماعت دوسری جماعت سے مسخراپن نہ کرے
(۲) ’’وَلَاتَلْمِزُوا‘‘ اور نہ عیب جوئی کرو
(۳) ’’وَلا تَنابَزوا بِالأَلقابِ‘‘ اور نہ کسی کو بُرے لقب دو
یہ تینوں گناہ سماجی گناہوں (social evil)میں شمار کئے جاسکتے ہیں۔اور یہ تینوں گناہ اخلاقی پسماندگی کی نمائندگی کرتے ہیں‘اور جس بھی سماج میں یہ تین گناہ عام ہوں ایسے سماج کی اصلاح ہونا قدرے مشکل ہوتی ہے۔اور ان تینوں گناہوں کا شمار دل کی بیماریوں میں کرنا چاہیئے ‘کیوں کہ جس انسان کا دل مردہ اور زنگ آلودہ ہوجاتا ہے وہ دوسروں کو اپنے سے حقیرسمجھتا ہے ‘اُنہیں طرح طرح کے حقارت بھرے القابات سے پکارتا ہے ۔میں قبل ازیں حدیث بیان کرچکا ہوں’’اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ الْنَّاس‘‘یعنی تکبر حق کو جھٹلانے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں’’الا و ان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلّہ و اذا فسدت فسد الجسد کلّہ الا و ھی القلب‘‘خبردار انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ صحیح ہوگا تو سارا بدن صحیح ہوگا اور جب وہ بگڑ گیا تو سارا بدن بگڑ گیا ‘سن لو ‘گوشت کا وہ ٹکڑا انسان کا دل ہے[البخاری؍52]۔لہذا انسان کا دل اُن تمام عیوب سے پاک ہو جن کا ذکر قرآ ن و حدیث میں بالعموم اور متذکرہ بالا آیات میں بالخصوص کیا گیا ہے۔
’’سَخَرَ یَسْخَرُوْا‘‘ٹھٹھا کرنے کے معنی میں مستعمل ہے ۱؎۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنوا لا یَسخَر قَومٌ مِن قَومٍ‘‘اے ایمان والو!ایک قوم(طیفہ‘قبیلہ‘جماعت)دوسری سے مسخراپن اور ٹھٹھا نہ کرے۔اس کے بعد فرمایا گیا ’’َّ وَلا تَلمِزوا أَنفُسَکُم‘‘مولانا عبدالحفیظ بلیاوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں ’’لَمَزَہٗ‘‘(ن ض)لَمَزًا یعنی عیب لگانا ۔آنکھ سے اشارہ کرنا ‘ہٹانا مارنا[مصباح اللغات]۔یہ دو ابواب نَصَرَیَنصر اور ضَرَبَ یضرِبُ سے ہے۔اس کا ایک معنی عیب لگانا یا عیب تلاش کرنا ہے۔امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں ’’ہمز‘‘ فعل سے ہوتا ہے اور ’’لمز‘‘قول سے ۲؎ یعنی زبان سے کسی کی عیب جوئی کرنا ۔سورہ الھُمَزَہ میں ارشاد ہوا ہے ’’وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَہ‘‘ بڑی خرابی ہے ہر اُس شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو۔
پھر تیسرا قبیح عمل جو اس آیت میں بیان کیاگیا ہے ’’وَلا تَنابَزوا بِالأَلقاب‘‘اور نہ کسی کو برے لقب دو۔’’النَّبَز‘‘یعنی بُرا لقب اور ’’اَنْبَاز‘‘اس کی جمع بنتا ہے۔اور جو لوگوں کو برے لقب سے پکارے اسے ’’النُّبَزَہ‘‘کہاجاتاہے۔ان تین گناہوں کے ذکر کے فوراً بعد اسی آیت میں ایمان اور فسق کا ذکر بھی کیا گیاہے اور ان دونوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لایاگیا ’’ بِئسَ الِاسمُ الفُسوقُ بَعدَ الإیمانِ وَمَن لَم یَتُب فَأُو لٰئِکَ ہُمُ الظّالِمون‘‘یعنی ایمان کے بعد فسق برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں۔نہایت ہی قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس آیت کی ابتداء ہوتی ہے ’’یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنوا‘‘سے اور اس کے آخری کلمات ہیں’’ بِئسَ الِاسمُ الفُسوقُ بَعدَ الإیمانِ وَمَن لَم یَتُب فَأُو لٰئِکَ ہُمُ الظّالِمون‘‘یعنی ایمان کے بعد فسق برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں‘گویا کہ ایمان اور فِسق کے درمیان تین گناہ حائل ہیں جو ان کا ارتکاب کرتا ہے اور توبہ بھی نہیں کرتا وہ مومن کے بجائے فاسق کہلائے گا۔ابو نعمان سیف اللہ خالد اس ضمن میں لکھتے ہیں’’کسی مسلمان کو برے نام سے پکار نے والا فاسق قرار پاتا ہے جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لانے کے بعد اس کے لئے بڑا ہی برا نام ہے‘‘[تفسیر دعوت القرآن]۔فاسق یا فِسق کا اطلاق کس پر ہوگا آیت نمبر ۶ کے مطالعہ میں اس کی وضاحت میں کر چکا ہوں۔
بدگمانی ‘چغل خوری اور عیب جوئی کرنا:۔ اس کے بعد والی آیتِ کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے تین مزید اعمالِ قبیحہ کا ذکر کیا ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ تین گناہ بھی سماجی زندگی سے متعلق اور منسلک ہیں۔فرمایا’’یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اجتَنِبوا کَثیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعضَ الظَّنِّ إِثمٌ وَلا تَجَسَّسوا وَلا یَغتَب بَعضُکُم بَعضًا أَیُحِبُّ أَحَدُکُم أَن یَأکُلَ لَحمَ أَخیہِ مَیتًا فَکَرِہتُموہُ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ تَوّابٌ رَحیمٌ‘‘یعنی اے ایمان والو!بہت بدگمانیوں سے بچو‘یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے ۔کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟تم کو اس سے گھن آئے گی‘اور اللہ سے ڈرتے رہو ‘بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔جو تین گناہ یا اعمالِ قبیحہ اس آیتِ مبارکہ میں بیان ہوئے ہیں وہ بالترتیب یہ ہیں ۔
(۱) ’’ اجتَنِبوا کَثیرًا مِنَ الظَّن‘‘ بہت بدگمانیوں سے بچو
(۲) ’’َلا تَجَسّسُوا‘‘ بھید نہ ٹٹولا کرو
(۳) ’’َلا یَغتَب بَعضُکُم بَعضًا‘‘کوئی کسی کی غیبت نہ کرے
’’ظَنُّ‘‘کا اطلاق مختلف معنی پر ہوتا ہے۔سورہ بقرہ میں یہ لفظ علم کے معنٰی میں بھی آیا ہے ’’الذّین یَظُنُّونَ انّھم مّلٰقوا ربِّھِم و انّھُم الیہ رٰجعون‘‘جوجانتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور اُس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں[آیت ؍46]۔وہم گمان کے مفہوم میں بھی یہ لفظ مستعمل ملتا ہے‘جیسے فرعون اور اُس کی فوج کے بارے میں آیا ہے ’’وَاسْتَکْبَرَ ھُوَ وَ جُنُوْدُہٗ فَیْ الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوْا اَنَّھُم اِلیْنَا لَا یُرْجَعُوْنَ ‘‘۔ فرعون اور اُس کی فوج کو یہ وہم تھا یا وہ یہ گمان کرتے تھے کہ وہ اللہ کی طرف نہیں لوٹائے جائیں گے‘لہذا انہوں نے حق کو جھٹلایا اور تکبر کیا۔راغب الاصفہانیؒ(متوفی ۵۰۶ھ)نے اس لفظ کے دس بارہ معنی قرآن سے ثابت کئے ہیں۳؎۔زیرِ مطالعہ آیت میں فرمایا گیا ’’یا أَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اجتَنِبوا کَثیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعضَ الظَّنِّ إِثمٌ ‘‘یعنی
اے ایمان والو!بہت بدگمانیوں سے بچو‘یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔یہاں ظن سے مراد بدگمانی ہے جس کی وضاحت میں حافظ صلاحُ الدین یوصف ؒ رقمطراز ہیں ’’مطلب ہے کہ اہلِ خیر وصلاح وتقویٰ کے بارے میں ایسے گمان رکھنا جو بے اصل ہوں اور تہمت و افترا کے ضمن میں آتے ہوں اسی لئے اس کا ترجمہ بدگمانی کیا جاتا ہے‘‘[تفسیر احسن البیان]۔اس طرح کی بدگمانی جو بے اصل ہو گناہ بھی ہے اور اس سے سماج میں فساد اور دلوں میں قساوت پیدا ہوتی ہے۔ابونعما سیف اللہ خالد لکھتے ہیں کہ’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بدظنی‘ تجسس اور غیبت سے منع فرمایا ہے‘اس لئے کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ حسنِ ظن رکھا جائے ۔ کسی کی جاسوسی نہ کی جائے ‘نہ غیبت کی جائے ‘اللہ تعالیٰ نے اس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ بعض مرتبہ بدظنی انسان کو گناہ تک لے جاتی ہے[تفسیر دعوت القرآن]۔ صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہ ؓ کی روایت کردہ ایک حدیث میں اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے ’’ایاکم والظّنَّ فاِنَّ الظّنَّ اکذبُ الحدیث ولا تحسَّسُوا ولا تجسّسوا ولا تناجشُوا ولا تحاسدوا ولاتباغضواولاتدابروا وکونوا عباداللہ اخوانًا ‘‘ یعنی بدگمانی سے بچتے رہو‘بدگمانی اکثر تحقیق کے بعد جھوٹی بات ثابت ہوتی ہے اور کسی کے عیوب ڈھونڈنے کے پیچھے نہ پڑو ‘کسی کا عیب خواہ مخواہ مت ٹٹولو اور کسی کے بھائو پر بھائو نہ بڑھائو اور حسد نہ کرو‘بغض نہ رکھو‘کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو[6066]۔ یہ حدیث امام بخاری ؒ نے مذکورہ آیت کے ذیل میں ہی نقل کی ہے گویا کہ یہ حدیث اس آیت کی تفسیر ہے۔اور اس حدیث میں بدگمانی کو ’’َّ اکذبُ الحدیث‘‘کہا گیا ہے یعنی سب سے بڑا جھوٹ۴؎۔ایک مسلمان کی حتی الامکان کوشش ہونی چاہیئے کہ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے متعلق بد گمانی کا شکار نہ ہو‘بالخصوص ایسے مسلمان کے بارے میں تو قطعًا نہیں جس کے ظواہر اچھے ہوں دلوں کا حال تو بجز اللہ کے کویء نہیں جانتا۔بقول امام قرطبیؒ’’اِنَّ الظَّنَّ الْقَبِیْحَ بِمَنْ ظَاہِرُہُ الْخَیرُ‘‘جو ظاہری طور پر اچھا ہے اُس کے متعلق بدگمانی جائز نہیں بلکہ ایک قبیح چیز ہے۔
حواشی
۱؎ مصباح اللغات
۲؎ اردو تفسیر ابن کثیرؒ تخریج عمران ایوب لاہوری
۳؎ الفردات فی غریبِ القرآن
۴؎ تفسیر احسن البیان