تحریر:مشتاق شمیم
چناچہ وادی کشمیر کو پیرہ وار یعنی پیروں کی وادی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کی سرزمین کی چھاتی کے اندر سینکڑوں ایسے اولیائے کاملین ریشیان کرام فنافی اللہ دراویش عارفینِ باللہ اور پیر و مُرشد مدفون ہیں جو دین اسلام کے باغ رحمت کو اپنے خون جگر سے سیراب کرنے کیلئے انتھک محنت اور مشقت سر انجام دے چکے ہیں۔ یہاں پر کوئی گائوں نہ کوئی قصبہ موجود ہے جہاں پر کسی نہ کسی بزرگان دین کا روضہ مبارک موجود نہیں ہوگا۔ حضرت شاہ ہمدان ؒ یہاں اپنے ساتھ وسطی ایشاء میں آباد مختلف اسلامی ریاستوں و شہروں سے سات سو کے قریب باکمال سعیدو سعادات پر مشتمل ایک کاروان دین اسلام کی تشہیرو ترویج اور تبلیغ کی غرض سے لیکے آئے تھے۔شاہ ہمدان ؒکی سربراہی والے ان پرہیزگارسعادات سے تربیت حاصل کرکے یہاں کے مقامی دین پسند بزرگوں نے بھی گائوں گائوں کریہ کریہ جاکر اسلامی تعلیمات کی ترویج و تبلیغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کردیا۔ان بزرگان دین کی نیک صحبت اور پاکیزہ ماحول میں نئے نئے مرید پناہ لیتے گئے اور اسطرح سے خدا دوستوں کا یہ پاکبازقافلہ پھلتا پھولتا گیا اورکشمیر دین اسلام کا گہوارہ بنتا گیا۔کشمیر میں تشہیر اسلام اور ترویج دینیات کی سرگرمیوں میں بہارہی بہار آگیا اور اس ہر دلعزیزموسم کی خوبصورتی کو دیکھ کر اور خوشبو کو سونگ کر سرحد پارآس پڑوس کے علاقوں سے بھی اللہ والوں نے کشمیر کا رُخ کردیا تھا تاکہ اس عمل صالح میں اللہ کی رضا کیلئے اپنا حصہ ادا کرسکیں ۔ یہاں تشریف لاکر ان سبھی بزرگ حضرات نے اپنے لئے مختلف علاقوں کا دین اسلام کی تبلیغ و ترویج کیلئے انتخاب کردیا۔آپ حضرات ان ہی منتخبہ علاقوں کو تا حیات اپنا مسکن بناتے رہے اوربعد از وصال وہیں کی زمینوں میں دفن ہوتے گئے۔ان بزرگان دین کے مرید اور مقلد حضرات ان کے روضہ مبارکوں پر احتراماََ مراقد بناتے گئے ۔ان مرقدوں کو نئی پیڑی کے عقیدت مند اور مقلد ین جدید طرز کے فن تعمیر میں تعمیرو تجدید کرتے رہے اور یہ سلسلہ فی الوقت یہاں شد و مد سے جاری و ساری ہے ۔کشمیری مسلمان ان مراقد کوآستان جیسے خوبصورت نام سے پکارا کرتے ہیں۔لیکن بدقسمتی کا مقام یہ ہے کہ بعض ہزاروں لا علم اور ناسمجھ مسلمان ان بقہ جات پرجاکر شریعت کے برعکس ایسے غیر شرعی عوامل سر انجام دیتے رہتے ہیں جو شرک و بدعت کے دائرے میں آجاتے ہیں۔
بہر حال کشمیر میں اُبھر چکے اسی دینی ماحول سے متاثر ہوکر ایک دین پسند بلند پایہ بزرگؒ مغل دور سلطنت کے دوران اپنا تخت و تاج چھوڑ کر پکھلی نامی راجواڑے سے یہاں تشریف لاچکے تھے۔ان بزرگ ہستی کا اسم مبارک سید صالح خان صاحب ؒ ہے۔مذکورہ راجواڑہ فی الوقت پاکستان کے سندھ صوبے میں واقع بتایا جاتا ہے۔برف پوش پہاڑوں خار زار بیا بانوں اور گہرے خوف ناک جنگلوں کو روندتے ہوئے حضرت صالح خان صاحب ؒ حضرت شاہ ہمدان ؒ کی طرف سے شروع کئے جاچکے دین حق کے تشہیری و تبلیغی مشن کی آبیاری کرنے کی غرض سے وادی کشمیر کے اندر تشریف آور ہوگئے۔کئی برس واتل کدل سرینگر اور کئی برس کرالہ سنگری پہاڑیوں میں گزارنے کے بعد بالآخر اس پابند شریعت و صلواۃ ولی کامل ؒنے کاترشی نامی پہاڑی کے اوپر جوکہ اُس زمانے میں ایک گھنے اور گہرے جنگل کی مانندبتائی جاتی تھی ایک گنی جاڑی کے نیچے اپنا ڈیرہ سنبھال لیا۔کاترشی ڈھلوان پر اس وقت بھی ایک کائرو درخت کا ٹوٹا پھوٹا حصہ موجود ہے جو اس بات کا غمازی ہے کہ یہ پورا علاقہ ماضی بعید میں ایک گھنا جنگل رہ چکا تھا جس کے اندر جنگلی جانوروں کی ایک بڑی تعداد رہائش پزیر ہوا کرتی تھی۔یہ کائرودرخت آج بھی (کوتر یار) نام سے دور دور تک مشہور و معروف ہے۔گزشتہ برس تیز آندھی چلنے کی وجہ سے یہ عمر رسیدہ اور بوسیدہ کائرو کادرخت ٹوٹ گیا۔خیر! بتایا جاتا ہے کہ اس کائرودرخت کے نیچے بھی یہ درویش صفت بزرگ ؒ کئی ماہ و سال اللہ کی عبادت وریاضت میں گزارچکے تھے۔جب تک یہ بزرگ ؒ اس درخت کے نیچے یاد خدا میں محوتشریف فرما رہے تب تک سینکڑوں کبوتر اور بعض دو سرے پرندے بھی اس درخت پر اپنا بسیرا سجاکر بیٹھا کرتے تھے۔ شاید اسی لئے اس درخت کو ’’کوتر یار‘‘ نام سے لوگ پکارا کرتے تھے اور آج بھی کائرو کے اس ٹوٹے پھوٹے درخت کو’’ کوتر یار‘‘ نام سے ہی جانا اور پکارا جاتا ہے۔جس گنی جاڑی کے نیچے کئی برس تک یہ خدا دوست بزرگؒ دنیاوی لذتوں اور نفسانی خواہشات سے کنارہ کش ہوکر اپنے مالک و خالق کی بندگی اداکرنے میں مشغول رہے وہ جاڑی آج بھی اپنی جگہ پر موجودراہ چلتے لوگوں کو اُس زمانے کی پُر کیف یاد یں فخر سے یاد دلاتی رہتی ہیں۔
اس جاڑی کے اندرقبلہ رُخ ایک بہت بڑا پتھرجائے نماز کی شکل و صورت میں ۲۰۱۵ء تک موجود تھا ۔یہ جائے نماز نماء پتھراس بزرگ ولی کامل ؒکی دین داری خدا پرستی اور پابند صلواۃ ہونے کی دلیل اپنی خاموش زبان سے پیش کیا کرتا تھا۔اس تاریخی اہمیت کے حامل پتھر کو چند برس قبل غیر مقلدین کے کسی گروہ نے غائب کردیااور آج تک کافی تلاشنے کے باوجود بھی یہ متبرک پتھر باز یاب نہ ہوسکا۔ پتھر ھٰذا کو غائب کرانے کے پیچھے جو وجہ بتائی جاتی ہے وہ یہ کہ راہ چلتے لوگ اس پتھر کی پوجا کرنے کا غیر شرعی فعل کرنے لگ چکے تھے۔ یہاں میں بتاتا چلوں کہ ہمیں بحثیت مسلمان ایسے متبرک اور تاریخی اہمیت کے حامل تبرکات کی عبادت نہیں بلکہ تعظیم کرلینی چاہئے نہیں تو ہم جانے انجانے میں دین اسلام کی تعلیمات سے متنفر ہونے کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔ جاڑی کے سائے میں اور کائرو درخت کے نیچے کئی ماہ و سال یاد خدا میں گزارنے کے بعد درویش کاملؒ پہاڑی سے نیچے تشریف لائے اور اسی پہاڑی کے دامن کے اندر چھوٹے چھوٹے سات کمروں پر مشتمل ایک غارپارنیوہ نامی گائوں سے تعلق رکھنے والے کمہار بھائیوں سے کھو د وا ڈالا۔ اسی غارکے اندر آپ ؒ نے اپنی زندگی کے آخری ایام اللہ پاک کی عبادت و ریاضت اور دینی علوم کی تبلیغ میں گزار دئے۔اس غار کے باقیات اور نشانات خستہ حالت میں آج بھی یہاں پر موجود ہیں۔ دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سرکار نہ ہی مقامی اوقاف ٹرسٹ نے اس غار کی تجدید و مرمت کی طرف آج تک کوئی خاص توجہ مرکوز کی۔اگر چہ مقامی ایم ایل اے حکیم محمد یاسین نے غار ھٰذا کی تجدید و مرمت کیلئے ایک دو بار اپنے سی ڈی ایف سے پیسے واگزار کردئے تھے تاہم عدم توجہی اور غفلت شعاری کی وجہ سے اس غار کی تاریخی اور تمدنی حثیت بحال نہ ہوسکی جس کا ذاتی طور مجھے بہت افسوس ہے۔ کئی سو برس تک عرس شریف حضرت سید صالح خانصاحبؒ کے موقع پر عقیدت مند غار ھٰذا کے دو تین کمروںکے اندر جاکر نماز ادا کرکے بزرگ ولی کامل ؒ کے ساتھ اپنے والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار کیا کرتے تھے لیکن غار کی خستہ حالی کے سبب گزشتہ دس پندرہ برسوں سے اس کا دروازہ بلکل تالہ بندرکھا گیا اور اسکے اندر جانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاتی ہے۔
ایک مقامی استاد ضیاوالدین اندرابی صاحب نے ۱۹۵۰ء کے آس پاس کافی تحقیق کے بعد ایک کتابچہ (سوانح حیات خان صاحبؒ )نام سے تصنیف کردی تھی جس میں انہوں نے اس بزرگ محترم و مکرم ہستی کا اسم مبارک سید صالح جبکہ خان آپ کے قبیلے کا نام بتادیاہے ۔کتاب ھٰذا کے مطابق حضرت صالح ؒ صوم و صلواۃ کے پابند شریعت کے علم بردار صوفی قلندر اور ولی کامل تھے۔آپ ؒ کو علوم قرآن اور علوم احادیث پر کافی دست و رست حاصل تھا۔آپؒ کاتب قرآن بھی تھے ۔آپ ؒ کے دست پاک سے دیدہ زیب خوشخطی میں تحریر کیا جاچکا قرآن مجید اس وقت بھی آپ ؒ کے آستان عالیہ میںموجود ہے جس کی زیارت سے زائرین کو ہر برس آ پ حضرت کے عرس پاک کے موقع پر فیض یاب کیا جاتا ہے۔آپ ؒ کی طرف پیچھے چھوڑ چکے تبرکات میں لکڑی دانوں کی تسبیح شریف لکڑی کا پاپوش مبارک اور جامہ مبارک شامل ہے۔ان تبرکات کی زیارت بھی زائرین کو عرس کے موقع پر کرائی جاتی ہے۔
مرحوم ماسٹر ضیاو الدین کے مطابق حضرت صالحؒ کے دور حیات میں دور دراز علاقوں سے عقیدت مند دینی تعلیم شرعی تربیت نیز فقی مسائل سے آگاہی حاصل کرنے کیلئے آپ حضرت ؒ کے دربار میںرو ز حاضرہوا کرتے تھے۔علم دین اور شرعی رسائل ومسائل سیکھنے میں لوگوں کی بڑی دلچسپی دیکھ کر صالح ؒ ہفتے کی ہر ویروار کو اپنے غارکے صحن پاک میں دینی اجتماع منعقد کیا کرتے تھے۔اجتماع میں شرکت کرنے کیلئے چناچہ لوگوں کو دور دراز گائوں دیہات سے پیدل آنا جاناپڑتا تھا اسلئے وہ کھانے کیلئے روٹی دودھ یا تہری ساتھ لایا کرتے تھے ۔یہ کھانا وہ خود بھی تناول کیا کرتے تھے اور اپنے دووسرے ساتھیوں کو بھی پیش کیا کرتے تھے۔ یہ صدیوں پرانی روایت آج بھی یہاں پر برابر قائم و دائم ہے ۔ عقیدت مند آج بھی روٹیاں اور تہری وغیرہ یہاں لاتے ہیں اور خان باباؒکے آستان عالیہ کے احاطے میں حاضر زائرین اور بچوں میں تقسیم کرلیتے ہیں۔ ہرویر وار کو آستان عالیہ میں علی الصباح ختم پڑھا جاتا ہے۔عقیدت مند ختم کے دوران چائے قہوہ روٹیاں اور تہری وغیرہ بطور نظرانہ پیش کیا کرتے ہیں۔
صاحب کتاب کے مطابق سید صالح خان صاحبؒ کو آپ کے عقیدت مند اور مرید حضرات پیار سے خان صاحب یا خانہ مول نام سے یاد کیاکرتے تھے۔علم دین کی تبلیغ میں بہت زیادہ مصروف رہنے کی وجہ سے آپؒ کو نکاح کرنے کی فرصت ملی نہ ہی کبھی آپ ؒ نے شادی کے بندھن میں بندجانے کی ضرورت محسوس کی۔ کتاب کے مطابق خان صاب ؒکے مریدوں اور عقیدت مندوں کی تعداد بہت بڑی تھی لیکن قلندرشاہ نامی ایک بزرگ آپ ؒ کے مرید خاص رہے تھے جو زندگی کے آخری ایام تک خان صاحب ؒ کے ساتھ رہ کر آپ ؒ کی خدمت گزاری بجا لاتے رہے۔ قلندر شاہ، صاحب نکاح بھی تھے اور صاحب اولاد بھی۔خان صابؒ کے وصال کے بعد قلندر شاہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ خان صاحبؒ کے مزار کے پاس ہی رہنے بسنے لگے۔مانا جاتا ہے کہ قلندر شاہ خان بابا ؒ کے سجادہ نشین کی حثیت سے یہاں پر آباد ہوگئے۔ چناچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حضرت صالح ؒ کے آستان عالیہ کے گردونواح میں ایک بستی قائم ہوتی گئی۔ خان صاحب قصبے کی لگ بھگ پچاسی فیصد آبادی کو اسی قلندرشاہ کی اولادیں اور ذریعت تصور کیا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کے اکثر مقامی لوگوں کی ذات’’ شاہ ‘‘ ہے۔ خان صاحبؒ کے مرید اور عقیدت مند خانصاحبؒ کے وصال کے بعد بھی قلندرشاہ کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔وہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ چلو خان صاحبن یا خانہ مالین جائیں گے اس طرح سے اس جگہ کا نام خانصاحب پڑگیا۔
صاحب کتاب خان صاحب ؒ کے روحانی کمالات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ اُس زمانے میں مغل خانوادے کے سلطان عالم گیر شاہ (دوم )ہندوستان پر راج تاج کررہے تھے۔ اُن کی ملکہ ان دنوں جلد کے مرض (ہیطری)میں مبتلا تھیں۔کافی علاج و معالجہ کرانے کے با وجود بھی ملکہ کا یہ تکلیف دہ مر ض ٹھیک ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ایک دن بادشاہ اپنے لائو و لشکر اور اہل و عیال کے ہمراہ وادی کشمیر کی سیر پر آئے ہوئے تھے ۔یہاںسرینگر میں کسی ہمدرد خادم نے اُن کو صالح خان ؒ کے روحانی کمالات اور کرامات کے بارے میں آگاہ کیا۔آپ فوراََ اپنی ملکہ کو ساتھ لیکر خان صاحب ؒ کے دربار میں حاضر ہوگئے۔یہ جمع تالمبارک کا دن تھا۔ عالم گیر نے خانصاحبؒ کی خدمت میں اپنی روداد بیان کی۔ غار کے بلکل سامنے (کرالہ بٹھو) نامی ایک ڈھلوان ہے جس میں سے ایک چشمہ پھوٹ رہا تھا جو آج بھی وہاں پر جاری ہے۔ خانصاحبؒ نے ملکہ کو اسی چشمے کے پانی سے نہانے کی صلاح دی۔بتایا جاتا ہے کہ بس نہانے کی دیر تھی کہ ملکہ کایہ دیرینہ روگ بالکل ٹھیک ہوگیا اور وہ شفایاب ہوگئیں۔خانصاحب ؒ کے عقیدت مندوں نے اسی وقت سے اس چشمے کو ’’بادشاہ ناگ ‘‘ نام سے پکارنا شروع کردیا۔ آج صدیوں بعد بھی لوگ اس چشمے کو ’’بادشاہ ناگ‘‘ نام سے ہی جانتے اور پکار تے ہیں۔بادشاہ عالم گیر نے اپنے ہاتھوں سے اسی دن گھپا کے سامنے بطور یاداشت ایک چنار کا بوٹا لگوا دیا۔یہ چنار کا بوٹا گھپا کے بلکل سامنے آج ایک وشال اور تناور درخت کی صورت میں اپنا جلوہ بکھیر رہا ہے۔چناچہ جمع کا دن تھا۔حضرت صالح ؒ نے تمام حاضرمریدوںکو جمع کی نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا۔غارکے اوپر پاس میں ہی ایک چھوٹا ساسرسبزمیدان تھا۔یہیں پر حضرت خان صاحب ؒ کے حکم پر بادشاہ عالم گیر نے جمع نماز کی پیشوائی کی ۔ اس جگہ پر بعد میں ایک مسجد تعمیر کی گئی ۔بتایا جاتا ہے کہ وہ تاریخی مسجد آگ کی ایک ہولناک واردات میں شہید ہوچکی تھی۔بعد میں اسی جگہ پر گائوں والوں نے خواجہ خضر وانی نامی ایک مقامی صاحب ثروت شخص کی سربراہی میں ایک نئی شاندار مسجد تعمیر کی ۔حال ہی میں ۲۰۱۵ء کے دوران مقامی اوقاف ٹرسٹ جس کی سربراہی حکیم محمد یاسین کر رہے ہیں نے اسی مسجد کے سامنے قائم پارک میں ایک عالی شان جامع مسجد تعمیر کرالی۔اس مسجد شریف کی تعمیر پر زر کثیر خرچ ہوچکا ہے۔پرانی مسجد کو شہید کیا گیا اور وہاں پر بھی ٹرسٹ ھٰذا نے ایک یک منزلہ عارضی مسجد کی تجدید نو کرالی۔حضرت سید صالح خان صاحب ؒ کا آستان بھی آگ کی ہولناک واردات میں خاکستر ہوچکا تھا۔مقامی آبادی نے آستان ھٰذا کو بھی نئے سرے سے تعمیر کیا تھا۔ حکیم محمد یاسین نے سرکاری امداد اور مقامی اوقاف ٹرسٹ کے تعاون سے اس آستان عالیہ کی نئے تقاضوں کے عین مطابق تعمیرو تجدید کروائی ہے۔
مرحوم ضیاوالدین صاحب کے مطابق حضرت با با نصیب الدین غازی ؒ حضرت سید صالح ؒ کے پیر و مرشد رہے ہیں۔حضرت بابا غازی ؒ کی آخری آرام گاہ بیجبہاڑہ اسلام آباد میں موجود ہے ۔بابا غازی ؒ کو دمبالی بابا بھی کہا جاتا ہے کیونکہ جلال میں آکر آپ ؒ دمبالی کیا کرتے تھے جس سے آپؒ کا جنون شانت ہوجاتا تھا۔اس دمبالی میں آپؒ کے مرید اور عقیدت مند بھی شامل ہوجاتے تھے ۔چناچہ اپنے پیرکامل کے نقشہ قدم پر چل کر حضرت خان باباؒ بھی جلال میں آکر دمبالی کرکے اپنی جنونی کیفیت کو قابو میںکرنے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔اس دمبالی میں آپؒ کے مرید حضرات بھی شمولیت اختیار کرکے فخر محسوس کرلیتے تھے۔ ان دونوں ولی کاملین ؒ کے عرس مبارک کے موقع پر عقیدت مند برسوں سے ان کے آستان عالیہ کے سامنے دمبالی کیا کرتے ہیں تاکہ روایت قائم رہے ۔ یہاں خان صاحب ؒ کے عرس پر دریگام اور بیروہ نامی دیہات سے روایتی دمبال ڈھول نگاڑہ اور الم لیکے پہنچ جاتے ہیں اور زائرین کی موجود گی میں خوب دمبالی کیاکرتے ہیں ۔ گروپ کا سربراہ اس موقع پردین اسلام کی سربلندی کی خاطر اور عالم اسلام کی بہبودی و بہتری کیلئے رو رو کردعائیں مانگا کرتے ہیں ۔
صاحب کتاب کے مطابق حضرت بابا نصیب الدین غازیؒ ایک مرتبہ اپنے مرید اور شاگرد حضرت سید صالحؒ کی خبر گیری اور روحانی کمالات کا امتحان لینے کیلئے بہ نفس نفیس آپ کے پاس تشریف آور ہوئے۔غار شریف کے اندر تشریف فرماکر آپ ؒ نے اپنے شاگرد سے طعام کا تقاضا کیا۔صالح ؒ غارکے پیچھے والے کمرے میں تشریف لے گئے اور وہاں سے کچھ دیر بعد گرما گرم لزیز کھانا لاکر اپنے پیر کامل ؒ کی خدمت میں پیش کیا۔پیر کامل ؒ نے پوچھا اتنا لزیز کھاناکہاں سے آیا ؟حضرت صالحؒ نے عرض کیا جنت سے میرے آقا۔حضرت با با نصیب ؒ نے پانی کا تقاضا کیا۔حضرت صالحؒ پھر اندر تشریف لے گئے اور پانی لیکر آئے ۔ مرشد کاملؒ نے پھر پوچھا اتنا میٹھا پانی کہاں سے آیا؟ مرید کاملؒ نے جواباََ عرض کیا آب زم زم ہے میرے مرشد۔حضرت نصیب الدین غازی ؒ اپنے شاگرد کے روحانی کمالات دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سمائے۔کھانا تناول اورزم زم نوش فرمایا۔بچا ہوا پانی نزیک ہی ایک سفیدے کے درخت کے نیچے ڈالنے کا حکم دیا ۔اس درخت کے نیچے سے دیکھتے ہی دیکھتے ایک چشمہ پھوٹ پڑا۔موقع پر موجود لوگ بابا نصیب الدین غازی ؒ کا یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہوگئے ۔لوگ اسی دن سے اس چشمے کو چشمہ زم زم نام سے پکارنے لگے۔یہ کراماتی چشمہ آج بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔اس چشمے کی خاص بات جو چاہ زم زم سے بلکل مماثلت رکھتی ہے وہ یہ کہ اس کا پانی اپنی مقررہ حد سے تجاوز کرتا ہے نہ خرچ کرنے سے کبھی کم ہوتا ہے۔صدیوں سے ایک ہی جگہ پر ساکن رہنے کے باوجود اس پانی کا ذائقہ نہ ہی رنگ کبھی بدلتا دیکھا گیا۔ چشمہ زم زم پر ایم ایل اے فنڈ کی مدد سے ایک خوبصورت ڈھانچہ تعمیر کیا جاچکا ہے۔خانصاحب کا عرس مبارک ہر برس ۱۷ تا ۲۴ جون تک منایا جاتا ہے۔ (واللہ علم بہ ثواب)