تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
کچھ دنوں سے کشمیر میں سیلابی صورتحال کا سامنا ہے ۔ اس صورتحال سے اندازہ ہورہاہے کہ موسم کی اچانک تبدیلی سے حالات ایک ہی نہج پر نہیں رہ سکتے ۔ کسی بھی وقت حالات خطرناک رخ اختیار کرسکتے ہیں ۔ بارشیں اب معمول کے مطابق نہیں برستی ۔ بلکہ غیر معمولی انداز اختیار کرکے مشکلات کا باعث بنتی ہیں ۔ یہ اچانک ابھرنے والی صورتحال نہیں ۔ بلکہ ماہرین پہلے ہی اندازہ لگاچکے ہیں کہ پولیشن کی وجہ سے قدرتی ماحول کافی بگڑ چکا ہے ۔ قدرتی توازن کو بگاڑا جائے تو حالات انسانی زندگی کو اجیرن بنانے کا باعث بنتے ہیں ۔ جہاں غیر معمولی برف باری اور ژالہ باری اس کا قدرتی نتیجہ ہے وہاں بادلوں کا پھٹ جانا اور تیز بارشیں اس کا یقینی نتیجہ ہیں ۔ بارشیں ضرورت سے زیادہ برسیں تو سیلاب اس کا قدرتی نتیجہ ہے ۔ پچھلے آٹھ دس سالوں سے یہ سبق پڑھایا جارہاہے کہ ندی نالوں کے آس پاس بستیاں بسانے اور تعمیرات کھڑا کرنے کے نتیجے میں سخت تباہی کا سامنا کرنا ہوگا ۔ بلکہ ایسی تباہیاں پہلے ہی اپنا اثر دکھا چکی ہیں ۔ اس کے باوجود لوگ ٹس سے مس نہیں ہورہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ علمائے دین اس حوالے سے سخت غفلت کا شکار ہیں ۔ بلکہ علما اس کا باضابطہ حصہ ہیں ۔ انہوں نے ایسی جگہوں پر اپنے محل تیار کئے ہیں جو کسی طور ان کی ملکیت ہیں نہ تعمیرات کھڑا کرنے کے لئے مناسب ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ سڑکوں کے کنارے مسجدیں تعمیر کی گئیں ۔ گھنے جنگلوں کے اندر درس گاہیں آباد کی گئیں ۔ یتیم خانے ایسی جگہوں پر بنائے گئے جو کسی طور بسنے کے لائق نہیں ۔ اسلام کے نام پر استحصال کو عروج بخشا گیا اور اسے علما کا کمال ظاہر کرکے اسلام کو بدنام کیا گیا ۔ ایک ایسے زمانے میں جب کہ حکومت مذہبی منافرت کو کسی طور ہوا دینے کے حق میں نہیں تھی نام نہاد علما نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خالی زمینوں اور سرکاری اراضی پر قبضہ جماکر دینی ادارے تعمیر کئے ۔ اس دوران عام لوگوں نے اس سے غلط نتیجہ نکال کر غنڈی گردی کی بنیاد پر کاہ چرائی اور سرکاری زمینوں پر قبضہ کیا ۔ جھیلوں ، دریائوں اور ندی نالوں کے کنارے بڑے بڑے ہوٹل رہائشی مکانات اور تجارتی مراکز قائم کئے گئے ۔ اس وجہ سے سیلاب کو روکنا اور پانی کے بہائو کو کم کرنا ممکن نہ رہا ۔ بلکہ پانی کے نکاس کی تمام سہولیات معدوم ہوکر رہ گئیں ۔ ایک ایسے مرحلے پر جب قدرتی آفات خاص کر سیلابی صورتحال کے امکانات بڑھ گئے ہیں کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ علما اصل وجوہات کے جائے ایسی تمام آفات کو قہر الٰہی قرار دے کر اسباب کے بجائے ماورائے دین طریقے اختیار کرنے پر زور دے رہے ہیں ۔ اصل اسباب تو اپنی جگہ موجود ہوتے ہوئے کوئی دوسرا روحانی یا خیالی طریقہ ان آفات کو قبو کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا ہے ۔ اس دوران بہت سے ادارے خیرات کو مصائب ٹالنے کا صحیح طریقہ قرار دیتے ہوئے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرتے ہیں ۔ ان کے اپنے گھر آباد ہوتے ہیں ۔ لیکن غریب لوگ تباہ ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ مضبوط گھروں اور شاہی محلوں میں بسنے والے علما تو محفوظ ہوتے ہیں ۔ البتہ غریب عوام قدرتی آفات کا شکار بن جاتے ہیں ۔ ان کے پاس حفاظت کرنے کو جو کچھ موجود ہوتا ہے وہ ان سے لوٹ لیا جاتا ہے ۔ یہ اپنی حفاظت کرنے کے لائق نہیں ہوتے ۔ انہیں خیرات ، دعائوں اور اجتماعی توبہ مجالس میں الجھا کر رکھا جاتا ہے ۔ ایسی دینی مجالس کا انعقاد کرنے والے خود ماہرین کی مدد لے کر محفوظ پناہ گاہیں تعمیر کرتے ہیں ۔ اپنا ہر طریقے سے بچائو کرتے ہیں ۔ غریب عوام کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ان کی تباہی کا باعث بنتے ہیں ۔ عام لوگ اس سے دھوکہ کھاکر سمجھتے ہیں کہ اللہ نے ان کی حفاظت کی اور خود کو گناہ گار سمجھ کر اسے اپنا مقدر مانتے ہیں ۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ جو لوگ صحیح اسباب اختیار کرکے حفاظت کے اقداماتا ٹھاتے ہیں وہ محفوظ رہتے ہیں ۔ جو صرف خیالی پلائو پکاتے ہیں وہ آنے والی تباہی کا شکار ہوتے ہیں ۔ اس صورتحال کے اندر دین کاصحیح فہم رکھنے والوں کو سامنے آکر عام اور پسماندہ لوگوں کی رہنمائی کرنی چاہئے اور کوئی لائحہ عمل ترتیب دے کر لوگوں کو صحیح راستہ اختیار کرنے پر زور دینا چاہئے ۔
قرآن و حدیث میں کہیں یہ بات نظر نہیں آتی کہ پرانی اقوام عبادت میں تساہل کی وجہ سے عذاب الٰہی کا شکار ہوئی ہیں ۔ ان تمام اصلوں کو پس پشت ڈال کر آج نئی تاویلات پیش کی جاتی ہیں ۔ کہیں بے پردگی کو آفات سماوی کا سبب مانا جاتا ہے ۔ کہیں لباس کو اسلامی اور غیر اسلامی خانوں میں بانٹ کر اسے مصائب کا سبب مانا جاتا ہے ۔ کہیں یہ درس دیا جاتا ہے کہ دینی تعلیمات سے روگردانی مصیبتوں کا باعث ہے ۔ یہ سبق بھی پڑھایا جاتا ہے کہ بے حیائی قدرتی آفات کے نزول کا سبب ہے ۔ اس دوران کوئی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ ان ترقی یافتہ ممالک کے اندر جہاں بے حیائی کو ہی اصل زندگی ماناجاتا ہے ایسے مصائب نازل کیوں نہیں ہوتے ۔ ان ممالک نے ہوائوں کو قابو میں کیا ۔ سیلابوں کا رخ موڑ دیا اور وبائوں کے خلاف جنگ جیت لی ۔ اس کے برعکس عبادت گزار لوگ آج بھی قدرتی آفات کا سب سے زیادہ شکار بن جاتے ہیں ۔ وہ لوگ جو قدرتی توازن کو اپنے حق میں کرنے سے قاصر ہیں قدرتی مصائب کا سب سے زیادہ شکار بنتے ہیں ۔ یہ سوچ کہ دین کے نام پر لوٹ مچانے والوں کی خدمت کرنے سے قدرتی آفات سے بچا جاسکتا ہے غلط سوچ ہے ۔ ان مصائب سے بچنے کے لئے اصل اسباب کو تلاش کرکے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا ۔ ساتھ ہی ساتھ ایسے مصائب سے متاثر ہونے والوں کی امداد کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا ۔ یہی دین اور عوام کی خدمت کا صحیح راستہ ہے ۔