تحریر:غلام رسول دہلوی
“اپنی روزمرہ کی کوششوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں اور پھر اپنی محنت کا پھل آپس میں بانٹیں۔”
حال ہی میں، راقم الحروف کو سفر ‘عمرہ’ کی سعادت نصیب ہوئی، جو سالانہ فریضہ حج کا ایک مختصر ورژن ہے۔ اس مقدس موقع پر، حج اور عمرہ کے زائرین مدینہ منورہ میں مسجد نبوی اور مقدس شہر مدینہ کا خصوصی دورہ کرتے ہیں – جو کہ اسلام میں مکہ المکرم کے بعد مقدس ترین شہر ہے۔ کیونکہ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسکن ہے، اور سنن الدارقطنی کی ایک حدیث میں ہے کہ:
“من زار قبري وجبت له شفاعتي”
(جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس پر میری شفاعت واجب ہو گئی)
اس حدیث کو ایک عظیم مفسر قرآن، اشعری عالم اور شافعی فقیہ حافظ تقی الدین السبکی نے مستند اور مضبوط قرار دیا ہے۔ اگرچہ ابن تیمیہ اور ابن عبد الوہاب کے پیروکار یعنی سلفی اور حنبلی خاص طور پر سعودی عرب میں اس روایت کو رد کرتے ہیں، لیکن ہندوستانی مسلمان بڑے پیمانے پر اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ مانتے ہیں۔ لہٰذا، ہندوستانی مسلمان حج اور عمرہ کے مقدس دنوں میں انتہائی عقیدت و محبت کے ساتھ مدینہ منورہ زیارت کے جوق در جوق تشریف لاتے ہیں۔
مدینہ منورہ مسجد نبوی
———-
عام طور پر، مدینہ منورہ کا مقدس شہر دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کے لیے قابل احترام ہے کیونکہ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات میں سے ایک، مسجد نبوی یہاں واقع ہے۔ خانہ کعبہ کے بعد جو دین ابراہیمی کی پہلی عبادت گاہ ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور مسجد الحرام میں واقع ہے، مسجد نبوی اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان مدینہ منورہ کو اتنی اہمیت حاصل ہے جس کی تقدیس و تعظیم اور مقدس مقام – مسجد قبا – مدینہ منورہ میں اسلام کی پہلی مسجد کی وجہ سے اور بھی دوبالا ہو جاتی ہے۔
دنیا بھر میں اور خاص طور پر ہندوستان کے صوفی مسلمانوں کے لیے اہم بات یہ ہے کہ اسلام کا پہلا صوفی مدرسہ جسے “دار الصفا” کے نام سے جانا جاتا ہے، بھی مسجد نبوی کے اندر واقع ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صوفیانہ مزاج رکھنے والے صحابہ کرام کی ایک خاص جماعت تھی جسے اصحاب صفہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ ایک منظم طریقے سے صوفیانہ تعلیمات حاصل کرتے تھے اور باقاعدگی سے دارالصفہ میں رہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ رسمی روحانی تعلیم اور تربیت سے اپنی شخصیت کو مزین کیا کرتے تھے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر کی کہانی آج کے مسلمانوں کو مسحور کر دے گی۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ مکہ سے ہجرت کر کے آئے تھے اس لیے انہیں “المہاجرین” کہا جاتا تھا۔ اور مدینہ کے مقامی باشندے جنہوں نے مہاجرین کا استقبال کیا اور ان کی بہت مدد کی انہیں الانصار (مددگار) کہا جاتا تھا۔ انصار کا تعلق مدینہ کے دو اہم قبیلوں بنو خزرج اور بنو اوس سے تھا جن کی آپس میں پرانی دشمنی تھی۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مخالف قبائل کے درمیان اخوت (مواخات) اور باہمی ہمدردی (مواسات) قائم کی۔ یہ وہ پیغمبرانہ نظریات تھے جنہوں نے مدینہ میں دو مختلف قبائل کے درمیان روحانی تعلق کے دور کا آغاز کیا- دونوں ایک دوسرے کی ہر ممکن مدد کرتے تھے۔
مدینہ کے انصار نے مہاجرین کی اپنے گھروں میں میزبانی کرکے اور ان کی مالی اور مادی ضروریات پوری کر کے ان کی مدد کی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انصار اور مہاجرین دونوں نے خاص طور پر مسجد نبوی اور پورے مدینہ کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ دو مختلف قبیلوں کے درمیان اخوت کا یہ رشتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تربیت اور ہدایات سے قائم ہوا تھا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ان دونوں کو نصیحت کی: “اپنی روزمرہ کی کوششوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں اور پھر اپنی محنت کا پھل آپس میں بانٹیں۔”
جب انصار اور مہاجرین مسجد نبوی کی تعمیر میں محنت اور مشقت کر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: اے اللہ! انصار اور مہاجرین کے درمیان مضبوط رشتہ قائم کرنے میں ان کی مدد فرما۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف انصار اور مہاجرین کے درمیان بلکہ مدینہ کے مختلف مذہبی قبائل کے درمیان بھی برادرانہ تعلقات استوار کیے جو پہلے آپس میں الجھے ہوئے تھے۔ چنانچہ انصار اور مہاجرین کو ایک تیسرے گروہ یعنی مدینہ کے یہودیوں نے تقویت دی۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ایک مربوط معاشرہ تشکیل دیا جہاں مسلمان اور یہودی پرامن طور پر ایک ساتھ رہتے اور آپسی خوشیوں اور غموں میں شریک تھے۔ ان دونوں کا دین الگ الگ تھا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایسا دوستانہ رشتہ تھا کہ اگر کوئی کسی یہودی کو نقصان پہنچاتا ہے تو مدینہ کے مسلمان یعنی انصار اور مہاجرین سب سے پہلے ان کی مدد کے لیے آتے۔ اس طرح شہرِ رسول ﷺ مدینہ میں ایک ہم آہنگ، پیار بھرا اور مربوط معاشرہ قائم ہوا۔
آج، دنیا بھر سے، خاص طور پر ہمارے ملک، ہندوستان سے مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پر حاضری دیتے ہیں اور اس کی تعظیم و تکریم کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں تاکہ آپ کا فیض حاصل کریں اور روحانی سکون حاصل کریں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے تھے لیکن مکہ کے مشرکین کے ہاتھوں مذہبی ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے بعد آپ نے مدینہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ مکہ میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا گیا تو مدینہ کے لوگوں نے کھلے بازوؤں اور بڑی گرمجوشی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا۔ اس لیے مدینہ منورہ کی روحانی اسلامی روایات بالخصوص تصوف میں بڑی اہمیت ہے۔ مناسک حج کی تکمیل کے بعد، صوفی بزرگوں نے روضہ رسول کی زیارت کی سخت تاکید فرمائی ہے، جو کہ مدینہ منورہ میں اسلام کا ایک عظیم ورثہ ہے۔
حرم نبوی اور مسجد نبوی کے علاوہ، جنت البقیع – جہاں پیغمبر اکرم کے اہل خاندان، اہل بیت اور بہت سے صحابہ کرام اور اسلام کی ابتدائی روحانی شخصیات کی آخری آرام گاہیں ہیں – کا بھی تصوف میں بڑا مقام ہے۔