تحریر:ثاقب سلیم
یونیورسٹی کے فارغ التحصیل افراد اور انٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والے لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ دیوبند مدرسہ (دارالعلوم) تصوف کے خلاف ہے۔ اس سے بڑی غلط فہمی کچھ نہیں ہو سکتی۔ دیوبند مدرسہ نہ صرف صوفی نظریات پر گامزن ہے بلکہ ان کی تبلیغ بھی کرتا ہے۔
18ویں صدی کے عظیم عالم دین شاہ ولی اللہ دہلوی نے صوفی افکار، تاریخ اور معمولات پر متعدد کتابیں لکھیں۔ دارالافتاء دیوبند سے ان پر فتویٰ جاری ہوا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ ’’حضرت شاہ ولی اللہ علمی طور پر ہمارے والد کی طرح ہیں اور علمائے دیوبند ان کے وارث ہیں۔‘‘
ولی اللہ نے اپنی ایک تحریر میں برملا طور پر یہ کہا کہ اسلام دو الگ الگ صفوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک ظاہری مذہبی ضابطہ ہے اور دوسرا مسلمانوں کے باطن کا ضابطہ ہے۔ جبکہ پہلا امن و امان، نماز، اور سماجی اور مذہبی ضابطوں سے متعلق ہے، دوسرا روحانیت سے متعلق ہے۔ روحانیت دل کی تطہیر کا باعث بنتی ہے۔ اس میں لوگ مذہب پر عمل ایک رسم کے طور پر نہیں بلکہ اللہ کی محبت کے لیے کرتے ہیں۔
ولی اللہ نے اپنی ایک تحریر میں برملا طور پر یہ کہا کہ اسلام دو الگ الگ صفوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک ظاہری مذہبی ضابطہ ہے اور دوسرا مسلمانوں کے باطن کا ضابطہ ہے۔ جبکہ پہلا امن و امان، نماز، اور سماجی اور مذہبی ضابطوں سے متعلق ہے، دوسرا روحانیت سے متعلق ہے۔ روحانیت دل کی تطہیر کا باعث بنتی ہے۔ اس میں لوگ مذہب پر عمل ایک رسم کے طور پر نہیں بلکہ اللہ کی محبت کے لیے کرتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ کی دلیل ہے کہ مذہب کے دو صفوں بڑے ہوئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی قیادت کو بھی دو طبقات میں تقسیم کیا جائے۔ ایک قیادت بیرونی سماجی اور مذہبی نظام کا خیال رکھے۔ طبقہ یہ علماء اسلام، مجاہدین، منتظمین اور اساتذہ پر مشتمل ہے۔ لوگوں کا ایک اور طبقہ مسلمانوں کو اسلام کے روحانی پہلو کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ مشائخ ہیں جن کی طرف عوام رہنمائی کے لیے رجوع کرتے ہیں۔ جنہیں ہم صوفی کہتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ولی اللہ نے لکھا ہے کہ مداریہ، چشتیہ اور نقشبندیہ جیسے سلاسل طریقت کے مشائخ کے ساتھ ہماری قریبی علمی روابط ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان مشائخ کی روحوں نے میرے روحانی سفر میں میری رہنمائی کی اور مجھے تصوف کے معارف سے آگاہ کیا۔
ان کے خیال میں مختلف سلسلۂ طریقت کے صوفیاء کا تقابل نہیں کیا جانا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ کا ماننا تھا کہ ہر صوفی اپنے آپ کو اس وقت اور جگہ کے مطابق ظاہر کرتا ہے جس میں وہ موجود ہے۔ایک دور کی صوفیانہ تعلیمات کا دوسرے دور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا اور تمام صوفی سلسلے یکساں طور پر صالح ہیں اور حضرت علی کی تعلیمات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔
شاہ ولی اللہ کا عقیدہ تھا کہ صوفیاء کے علوم کے تین ذرائع میں سے کوئی ایک یا تینوں ذرائع ہوتے ہیں – حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلّم، حضرت علی رضہ اللہ عنہ، اور غوث اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
شاہ ولی اللہ کا ماننا تھا کہ تصوف انسان کی روح کو پاک کرنے کا نام ہے جو کہ اعلی ترین اسلامی قدروں میں سے ایک ہے۔ صوفی لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔ ان کی رائے میں روحانیت مذہبی رسومات اور فرائض سے بلند مقام پر ہے۔
اس کے برعکس لوگ جو لوگوں کا خیال ہے شاہ ولی اللہ کے یہ افکار بڑے پیمانے پر دیوبند اور اس سے ملحقہ مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔