تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
بدھوار کو 360 عازمین پر مشتمل پہلا قافلہ حج بیت اللہ کے لئے روانہ ہوا ۔عازمین حج کو رخصت کرنے کے لئے انتظامیہ کے تمام اعلیٰ حکام موجود تھے ۔ ایل جی نے اس موقعے پر مسرت کا اظہار کیا ۔ حج ہاوس سے رخصت ہوتے وقت کئی رقت آمیز مناظر دیکھے گئے ۔ حاجیوں کو رخصت کرنے ان کے عزیز و اقارب بھی موجود تھے ۔ یہ پچھلے تین سالوں کے تعطل کے بعد پہلا ایسا قافلہ ہے جو حج کے لئے روانہ ہوا ۔ اس وجہ سے کافی جوش و خروش پایا گیا ۔ اس دوران بہت سے لوگوں نے حج کے بجائے عمرہ کرنا پسند کیا ۔ اس طرح کے قافلے سال بھر آتے جاتے رہے ۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کے مسلمان آج بھی اسلام اور اپنے عقیدے سے قریبی تعلق قائم رکھے ہیں ۔ جدید دور میں جبکہ لوگ مال وزر کو اپنی جان سے بھی عزیز رکھتے ہیں ۔ دولت جمع کرنے کی دوڑ لگی وئی ہے ۔ بینک بیلنس بڑھانے کی شدید فکر لگی ہوئی ہے ۔ ہر جائز ناجائز طریقے سے مال کے انبار لگائے جاتے ہیں ۔ دنیا پرستی کے اس دور میں بھی کچھ لوگ ہیں جو اپنی آمدنی کا بڑا حصہ دینی کاموں پر خرچ کرتے ہیں ۔ حج اب کثیر اخراجات والا مقدس سفر بن گیا ہے ۔ لاکھوں روپے بطور سفر خرچہ ادا کرنا پڑتے ہیں ۔ تاہم کچھ ایسے صاحب حیثیت ہیں جو صاحب ایمان بھی ہیں اور حج کے یہ اخراجات خوشی خوشی برداشت کرتے ہیں ۔ ایسی سعادت بہت کم لوگوں کے نصیب کے حصے میں آتی ہے ۔
حج محض ایک سفر و حضر کا معاملہ نہیں بلکہ ایک سنجید عمل ہے ۔ بہت سے لوگ ہیں جو اسے محض چند فرائض ادا کرنے کا عمل خیال کرتے ہیں ۔ طواف کعبہ ، سعی اور رمی اتنا ہی حج نہیں ۔ بلکہ ایسے ظاہری عمل اپنے اندر ایک واضح پیغام رکھتے ہیں ۔ ایسا ضرور ہے کہ یہ اعمال بنیادی طور حضرت ابراہیم اور ان کے خاندان نے انجام دئے ہیں ۔ اللہ نے یہ رسوم محض رسمی طور انجام دینے کے لئے باقی نہیں رکھے ۔ ان کا واضح ذکر قرآن مجید میں پایا جاتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ اور اس کے صحابہ نے یہ اعمال انجام دئے ۔ کعبہ کو اللہ کا گھر کہنے کے علاوہ امن کی جگہ بتایا گیا ہے ۔ بلکہ اس کے ارد گرد آباد شہر کو امن کا شہر قرار دیا گیا ہے ۔ یہاں خون بہانا تو کیا کسی کی طرف تیر دکھانا بھی ممنوع مانا گیا ہے ۔ جنگ و جدل سے نفرت کرتے ہوئے اس شہر میں دشمن بھی داخل ہوجائے تو اس پر تلوار اٹھانے سے منع کیا گیا ہے ۔ اس شہر میں ٹھہرنے والے حجاج معلوم نہیں اس طرف توجہ دیتے ہیں کہ نہیں ۔ سب حجاج واپسی پر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ شہر میں داخل ہوتے ہی دل کو یک گونہ سکون ملتا ہے ۔ بلکہ جن بزرگ شخصیات نے حج کے سفر نامے لکھے ہیں اپنی تحریر میں انہوں نے اس شہر کی بڑی تعریف کی ہے اور اعتراف کیا کہ اللہ کے گھر میں سکون قلب ملتا ہے ۔ امن سے بھرے شہر میں ایسا ہونا یقینی ہے ۔ ہر گھر کو امن کا گھر بنانا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے ۔گھر کے اندر ایک مخصوص ماحول بنانے کی تعلیم دی گئی ہے ۔ ایسا تو ہر مسلمان کو سوچنا چاہئے ۔ تاہم حجاج کرام کو اس حوالے سے پہل کرنی چاہئے ۔ ہمارے معاشرے کے اندر جو فساد پایا جاتا ہے گھروں سے شروع ہوکر پورے معاشرے میں پھیل جاتا ہے ۔ کعبے کا طواف کرنے والوں ۔ اس گھر کے گرد چکر کاٹنے والوں ۔ اس کی دیواروں سے لپٹنے والوں اور اس کے چپے چپے سے محبت کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہر گھر اور ہر دل کو کعبے کی طرح مقدس اور متبرک بنانا ہوگا ۔ ایسا نہیں کہ کعبے کا مترادف کوئی دوسرا مقام بھی ہے ۔ لیکن یہاں جو سکون اور امن حاصل ہوتا ہے واپس گھر پہنچ کر ہمارے گھروں میں اس کا پرتو ہونا چاہئے ۔ ایسا نہیں کہ ہم کعبے کو امن گھر قرار دینے میں رطب السان ہوں ۔ لیکن ہمارے گھر وں کے اندر ہر وقت لڑائی جھگڑے اور بے اطمینانی ہو ۔ عملی طور ایسا ہے ۔ ہمارے گھروں کے اندر اپنے مکین بھی سکون محسوس نہیں کرتے ۔ بہووں اور بیوائوں کا کیا کہیں ۔ کتنے ہی گھر ہیں جہاں بھائیوں کے درمیان جھگڑے چلتے رہتے ہیں ۔ جہاں باپ بیٹے میں تعلق ختم ہوگیا ہے ۔ ماں بیٹی کا رشتہ اجڑ گیا ہے ۔ میاں بیوی کے درمیان ر وقت چخ چخ رہتی ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کئی افراد خود کشی کرتے ہیں ۔ گھر کا امن و سکون ختم ہونے کے بعد اس طرح کے واقعات کا پیش آنا ضروری ہے ۔ بہووں پر ساس اور دوسرے گھر والوں کے ہاتھوں جو ظلم ہوتا ہے اس سے تنگ آکر ہی خود کشی کی جاتی ہے ۔ جب ہمارے گھروں میں ایسے واقعات پیش آتے ہیں تو اللہ کے گھر کا طواف کرنا کوئی مقصد نہیں رکھتا ۔ حج کے دوران ابراہیم ؑ کی زوجہ کی عزیمت اور وفاداری یاد نہ آئے اور ہمارے لئے مشعل رہ نہ بن جائے تو سب کچھ اکارت ہیں ۔ اللہ کے گھر سے امن کی شعائیں لے کر ہم اپنے گھروں ، محلوں اور بستیوں کو امن کا گہوارہ نہ بنائیں تو سفر محمود کی برکات حاصل ہونا ممکن نہیں ۔ جو لوگ اللہ کے گھر سے امن کا درس لینے کے بجائے فتنہ و فساد سیکھ کر آئیں ان کے لئے حج کرنا یا نہ کرنا ایک ہی بات ہے ۔ ہم حیران ہیں کہ کافروں کے شہر بڑے نظم و ضبط کے پابند ہیں ۔ ایسے شہر امن کا گہوارہ ہیں ۔ ترقی کے زینے ہیں ۔ ایک دوسرے سے ہمدردی کے سمندر ہیں ۔ لیکن ہم ہیں کہ حج کے بعد بھی کوئی مثال کرنے میں ناکام ہیں ۔ امن کے شہر اور اللہ کے گھر کو پوری دنیا کے لئے اطمینان و سکون کی مشعل بنانے کی ضرورت ہے ۔