تحریر:نرجس سید
محرم کے آغاز سے ہی بحث و مباحثہ کا آغاز بہت ہی ترش روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ بہت سے سوالات جو امام حسینؑ سے عشق کرنے والوں کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں ایسے لوگوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں جو کہ خود کو اہل علم یا انسانیت کے پیروکار کہتے ہیں۔
اگر تو آپ اہل علم ہیں تو یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ برسوں سے مختلف عقائد کے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ قابیل نے جب ہابیل کو قتل کیا تو درحقیقت یہی سوچتا ہو گا کہ اس کو قتل کر کے گویا میں نے دنیا فتح کر لی۔ بحث و مباحثہ میں اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ مد مقابل کا سچ بھی ضد اور انا کے باعث جھوٹ لگتا ہے۔
ان موضوعات میں ایک موضوع یہ ہے کہ کیا کربلا اقتدار کی جنگ تھی؟
لیکن دیکھا جائے تو جنگ کربلا کردار کی جنگ تھی۔
کربلا میں امام حسینؑ نے اقتدار کے لیے جنگ کی ہوتی تو یہ مدینہ میں رہ کر زیادہ آسان تھا۔ اپنا گھر بار چھوڑ کر گھر کی خواتین کو لے کر جانا امام حسینؑ کے لیے انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔ رسول پاک ﷺ عیسائیوں کے مقابلے مباہلہ میں اپنے اہل بیتؑ کو لے کر گئے۔ جن میں امام علیؑ، بی بی فاطمہؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو اپنے ساتھ لے کر گئے اور جھوٹوں پر لعنت کے لیے خدا کی بارگاہ میں ہاتھ بلند کیے، عیسائی اہل معرفت تھے کہ ان ہستیوں کی تکریم میں جھک گئے اور نبی پاک سے امان مانگی۔ مگر دوسری جانب یزید ملعون جو خود کو مسلمان کہتا تھا، نہ تو قرآن پہ ایمان رکھتا تھا۔ وحی اور رسالت کا بھی انکاری تھا۔ اس کا کردار ایسا تھا کہ اسے مسلمان تو دور انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے۔ کوفہ والے اس کے ظلم و ستم سے تنگ تھے کیونکہ یہ وہی سب اعمال انجام دے رہا تھا جو ایک زمانہ میں کفار انجام دیا کرتے تھے۔ اہل کوفہ نے امام حسینؑ کو امداد کے لیے خطوط لکھے۔ انہیں خطوط کی وجہ سے امام حسینؑ نے اپنا گھر بار چھوڑ کر ان کی مدد کا ارادہ کیا۔ مگر یزید نے ابن زیاد کے ذریعے سفیر حسینؑ حضرت مسلم بن عقیلؑ کو قتل کروایا اور پھر ان کوفیوں کو پیسے دے کر خرید لیا اور کچھ لوگوں کو قتل کی دھمکیاں دے کر چپ کروا دیا گیا۔ قاضی کو خرید کر امام حسینؑ کے قتل کا فتویٰ جاری کروایا۔ کربلا میں امام حسینؑ اور ان کے خانوادہ پر وہ ظلم ڈھائے کہ تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ اور کہا کہ میں نے آج حسینؑ سے جنگ بدر کا بدلہ لے لیا۔ جبکہ جنگ میں کبھی بھی دونوں فریقین ٹھیک نہیں ہو سکتے ایک حق اور دوسرا باطل پر ہوتا ہے۔ تو اب جنگ بدر میں کون حق پر کون باطل پر تھا اس کا اندازہ فریقین کے کردار کے پیش نظر کیا جا سکتا ہے یونہی جنگ کربلا میں بھی کرداری تقابل ہی نتیجہ خیز ثابت ہو گا۔ مگر پھر بھی جس کے نظریات ہی باطل کی پیداوار ہوں وہ اسی کا ساتھ دے گا اور حق پیش ہونے کے باوجود بھی وہ باطل کو ہی درست کہے گا۔ آج بھی یزید کی باقیات ہیں جو اس کے دفاع کے لیے سرگرم ہیں جبکہ اس کے اپنے بیٹے معاویہ ابن یزید نے یزید کے مرنے کے بعد امام زین العابدین کو اقتدار کی پیشکش کی مگر انہوں نے ٹھکرا دی کیونکہ رسول ﷺ و آل رسول ﷺ کا مقصد کبھی بھی تخت و تاج کا حصول نہ تھا۔ رسول ﷺ و آل رسول ہادی ہیں اور ہادی کا مقصد ہدایت اور خدا کے پیغام کو پھیلانا ہے، جبکہ یزید جیسے باطل عقیدہ لوگ دنیا کی ہوس میں خدا کے بھی منکر ہو جاتے ہیں۔ امام حسینؑ نے اسی ہوس کو بے نقاب کرنے کے لیے کربلا کو منتخب کیا۔ اس جنگ میں حق و باطل واضح ہو گیا۔ امام حسینؑ نے منافقت کا پردہ چاک کر دیا۔ کیا آل نبی ﷺ کا قاتل مسلمان ہو سکتا ہے؟ کیا آل رسول ﷺ کا دشمن حق پر ہو سکتا ہے؟ کیا بچوں اور خواتین پر ظلم کرنے والا انسان کہلانے کے لائق ہے؟ ایسے بہت سے سوال امام حسینؑ نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے چھوڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام عالی مقام سے نہ مسلمان بلکہ ہندو عیسائی اور کچھ اہل دل ملحد بھی محبت کرتے ہیں۔ حق و باطل کی یہ لکیر در حقیقت اسلام اور کفر کی ہی نہیں بلکہ انسانیت اور یزیدیت کی لکیر ہے اور آج بھی انسانیت دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔
