تحریر:سہیل زبیری
آج اسلام کی حیثیت اور مسلم دنیا کی حالت اس عظیم مذہب کے شاندار آغاز کے بالکل برعکس، غمناک اور انتہائی افسوسناک ہے۔ 632 عیسوی میں پیغمبر اسلام کی وفات کے فوراً بعد ابھرنے والی اسلامی سلطنت نے ایک بہترین تہذیب کو جنم دیا تھا۔ اسلام کا سنہری دور آٹھویں صدی کے وسط سے شروع ہوا۔ ا س دور میں مسلمانوں نے سائنس، فلسفہ ،ریاضی اور دیگر علوم میں بہت شاندار کامیابیاں حاصل کیں ۔ مسلمانوں کا سنہری دور تقریباً تیرہویں صدی تک جاری رہا ،اس کے بعد اسلامی تہذیب تاریک دور میں داخل ہوئی جو آج تک جاری ہے۔
یہ اہم سوال ہیں کہ
مسلم تہذیب کے عروج کا سبب کیا تھا؟
یہ شاندار تہذیب تاریک دور میں کب، کیسے اور کیوں داخل ہوئی ؟
اور آج مسلم معاشروں میں روشن خیالی اور اصلاح کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟
اس مضمون میں، میں پہلے سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں اور باقی دو اہم سوالات پر الگ مضامین میں بحث کروں گا۔
ایک مذہب کے طور پر اسلام کی ابتدا 610 عیسوی میں ہوئی جب پیغمبر اسلام (ص) پر وحی نازل ہوئی ۔ 632 عیسوی میں ان کی وفات تک یہ وحی آتی رہی۔ اس وحی کا مجموعہ قرآن ہے جواسلام کی بنیاد ہے اور اس کی صداقت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
ایک دلچسپ مشاہدہ یہ ہے کہ تہذیب کے آغاز سے ہی ان مذاہب کے زندہ رہنے کے امکانات بہت زیادہ تھے جن کی بنیادوں میں کتاب موجود تھی۔ یونانی، مصری، اور آشوری مذاہب مٹ گئے اور پھر غائب ہو گئے، لیکن یہودیت، ہندومت، عیسائیت اور اسلام زندہ رہے اور پھلے پھولے۔
قرآن، ایک طویل مدت میں نازل کردہ آیات کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے، کوئی عام کتاب نہیں ہے۔ یہ ایک دعا سے شروع ہوتی ہے اور ایک عمدہ زندگی گزارنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ سب سے زیادہ زور خدا، اللہ کی وحدانیت اور قیامت کے دن پر ہے جب ہر ایک کو اس کے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ نماز اور زکوٰۃ پر زور دیا گیا ہے اور وراثت کے قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ قتل، زنا اور چوری جیسے جرائم کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ اور انبیا کی زندگی اور ان سے متعلق واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کی شاید سب سے نمایاں اور منفرد خصوصیت یہ ہے کہ تمام مذاہب کی مذہبی کتابوں میں یہ واحد کتاب ہے جو عقائد کے ایک مجموعے کے علاوہ طرز زندگی کا تعین کرتی ہے۔
میرے نزدیک ان قوانین کو سمجھنے اور ان کی تشریح کرنے کی کوشش مسلم سلطنت کو ایک عظیم تہذیب کی شکل دینے کا باعث بنی ۔ذیل میں ،میں اپنے اس نقطہ نظر کی وضاحت کرتا ہوں۔
اسلامی دور کے پہلے 150 سال ایک ہنگامہ خیز دور تھا۔ عمر بن خطاب (634-644) کے دور خلافت میں قادسیہ اور یرموک کی مشہورجنگوں میں اس وقت کی دو سپر پاورز ،فارس اور بازنطین، کو شکست دے کر مسلمانوں نے ایک عظیم سلطنت قائم کی۔ اس طور مسلمان پہلی دفعہ عالمی منظر نامے پر نمودار ہوئے۔ ساتویں صدی کے آخر تک، یعنی پیغمبر اسلام کی وفات کے بمشکل ستر سال بعد تک، مسلم سلطنت راجستھان کے صحرا سے لے کر بحر اوقیانوس کے ساحلوں تک پھیل چکی تھی ۔
یہ وہ دور بھی تھا جب بنیادی طور پر دو قبیلوں کے درمیان کئی خانہ جنگیاں ہوئیں، جن میں سے ایک پیغمبر کے پردادا، ہاشم کی اولاد، اور دوسری ہاشم کے چچا امیہ کی اولاد تھی۔682 عیسوی میں کربلا کا المناک واقعہ پیش أیا، جب یزید بن معاویہ کی فوجوں کے ہاتھوں رسول اللہ کے نواسے حسین اور ان کے ساتھی مارے گئے تھے۔ اس واقعے نے دونوں قبیلوں کے درمیان تلخ دشمنی کو مضبوط کر دیا۔ بنو امیہ نے 750 عیسوی تک اقتدار برقرار رکھا ،جب خاندان کی ہاشمی شاخ نے ان کا تختہ الٹ دیا۔ ابو العباس السفاح جو پیغمبر اسلام کے چچا عباس بن عبدالمطلب کے پڑپوتے تھے، بنی امیہ کو شکست دے کر عباسی خاندان کے پہلے خلیفہ بنے۔ یہ تبدیلی بہت خونریز تھی۔ عباسی فاتحین نے امیہ کی زیادہ تر اولاد کو بہیمانہ انداز میں قتل کیا ۔ السفاح نے صرف چار سال حکومت کی جب ان کے بھائی المنصور 754 عیسوی میں خلیفہ بنے اور 775 تک تقریباً 22 سال حکومت کی۔ المنصور کے نسبتاً پرامن دور نے عباسی اقتدار کو مستحکم کیا۔ خلافت میں ان کے بعد ہارون الرشید (786 – 809) اور المامون (813 – 833) جیسی شخصیات نے ان کی پیروی کی جن کے دور اسلامی تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور ہیں کیونکہ ان کے دور میں اسلامی سنہری دور کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ المنصور نے ایک نیا دارالحکومت بنایا اور اس کا نام بغداد رکھا۔ بغداد جلد ہی مذہبی اور غیر مذہبی ،دونوں لحاظ سے علم کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔ یہ وہ عبوری دور ہے جب اسلامی دور کی تاریخ لکھنے، اسلامی قانون (فقہ) کی تشکیل اور اقوال حدیث کو جمع کرنے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
ابتدائی تاریخ کے اس مختصر تذکرے کے بعد، میں اسلامی تاریخ کے اوائل میں علمی میدان میں مسلمانوں کے عروج کے اسباب کا جائزہ لینے کی کوشش کرتا ہوں۔
یہ بات دلچسپ ہے کہ اس دور میں مسلمانوں نے مذہبی اور غیر مذ ہبی علوم ، دونوں میں نمایاں کارنامے انجام دئیے۔ یہ عروج کئی اعتبار سے حیران کن تھا۔ ایک طرف تو ہزاروں سال پرانی عرب تاریخ کسی علمی روایات سے محروم تھی اور پھر ابتدائی اسلامی تاریخ فوجی تنازعات اور خاندانوں کے درمیان اقتدار کی جنگوں سے بھری تھی ۔
سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا میں علم کی پیاس کی وجہ کیا تھی؟
ایسا کیا ہوا کہ پیغمبر کی وفات کے ڈیڑھ سو سال بعد ہی مسلمانوں نے ہر قسم کے علمی میدان میں قدم جمانے شروع کر دیے؟
ایک سنہری دور کا آغاز ہوا جس نے اگلے تقریباً پانچ سو سالوں کے دوران اسکالر، فلسفیوں اور سائنسدانوں کی ایک بڑی کہکشاں تیار کی۔
ابتدائی اسلامی دور میں شاید سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اختلافات کے باوجود ، اسلام کے دو بنیادی پہلوؤں پر تمام مسلمان متفق تھے: محمد (ص) کی نبوت اور قرآن کی صداقت۔ ہاشمیوں اور امویوں کے درمیان تمام تنازعات بنیادی طور پر سلطنت کے کنٹرول اور اقتدار کی جدوجہد سے وابستہ تھے ۔ جبکہ قرآن کی سند، تفسیر اور تعلیمات پر مکمل اجماع تھا۔ یہ اہم حقیقت کئی صدیوں تک سلطنت کو متحد رکھنے میں معاون ثابت ہوئی ۔
اب أتے ہیں اس سوال کی طرف کہ وہ کون سا پہلا قدم تھا جو مسلمانوں کے سنہری دور کی بنیاد بنا؟
میری رائے میں ، مسلمانوں کی علم کی راہ میں سب سے پہلا اور اہم ترین قدم فقہ کے اصول وضع کرنا تھا ۔ مسلم سلطنت بہت تیزی سے پھیل چکی تھی اور سلطنت کے زیادہ تر لوگ اسلام قبول کر چکے تھے۔ ان نو مسلموں کو اسلام کے طریقوں کی تعلیم دینے کی ضرورت تھی۔ ایک تڑپ بھی تھی اور ضرورت بھی تھی کہ زندگی کے تمام گوشوں پر ایسے اصول مرتب کیے جائیں جن کی بنیاد قرآن اور رسول اللہ کی معلوم روایات ہوں۔ اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ ایسے موضوعات اور مسائل پر بھی قرآن کی روشنی میں اصول وضع کیے جائیں جن کا ذکر یا تو قران میں موجود نہیں تھا یا پھر جن پرقران کے احکامات واضع نہیں تھے۔ یہ تڑپ زندگی کے تمام پہلوؤں پر قرآن اور سنت نبوی پر مبنی احکام کی تشکیل کا ذریعہ تھی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کی تشکیل ایک ایسے معاشرے کی طرف پہلا قدم تھا جو علم کی قدر کرتا تھا۔ فقہ کی تصنیف دنیا کی تاریخ کے نمایاں ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ تاریخ میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی جہاں انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر ایک مقدس متن کی بنیاد پر قوانین وضع کیے گئے ہوں۔ مسلمانوں کے لیے، قرآن اللہ تعالیٰ کی خواہش کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ہدایت کی کتاب ہے۔ تاہم، قرآن نے زیادہ تر ایک وسیع خاکہ فراہم کیا اور تفصیلات کو چھوڑ دیا گیا۔ مثال کے طور پر قرآن نے نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے پر زور دیا ہے۔ البتہ نماز پڑھنے کے طریقہ کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی ۔ اسی طرح زکوٰۃ کے بارے میں تفصیلی احکام موجود نہیں ۔
فقہ کی تالیف اموی دور میں شروع ہوئی اور ابتدائی عباسی دور تک جاری رہی۔ اسلامی قوانین وضع کرنے والے پہلے شخص جعفر الصادق تھے جو حسین ابن علی کے پوتے تھے۔ وہ جعفری مکتبہ اسلامی فقہ کے بانی ہیں ۔ مثال کے طور پر، انھوں نے ناص کا نظریہ پیش کیا جس کے مطابق ایک امام اپنے بعد کے امام کا تعین کرتا ہے ۔ انھوں نے اسماء نامی یہ نظریہ بھی پیش کیا جس کے مطابق سب امام معصوم ہیں اور ان سے غلطی سرزد نہیں ہو سکتی ۔ یہ شیعہ اسلام کے مرکزی اصول قرار پائے۔
اسلامی فقہ کی ایک اور اہم شخصیت ابو حنیفہ تھے۔ ان کا مکتبہ فکر، جسے حنفی کے نام سے جانا جاتا ہے، اسلامی دنیا میں سب سے بڑا ہے۔ انہوں نے اسلامی قوانین کی ترویج کے لیے عقلی دلائل کو بنیاد بنایا۔ ان کے نزدیک ہر اسلامی عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔ ابو حنیفہ 699ء میں بنو امیہ کی حکومت کے عروج کے دور میں عراق میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاسی ماحول میں بڑی تعداد میں ایسی احادیث پھیلی ہوئی تھیں جن کا ہدف بنی امیہ تھے۔ اس رویے کی وجہ سے ابوحنیفہ نے حدیث کی صداقت طے کرنے کے لیے سخت قوانین مرتب کیے اور استدلال پر زیادہ سے زیادہ انحصار کیا۔ کسی مسئلے کا حل تلاش کرنے کےلیے ان کا بنیادی انداز یہ تھا کہ وہ بہت سے طلباء کے سامنےیہ مسئلہ پیش کرتے جو قرآن اور رسول کے مشہور ارشادات کی روشنی میں اس پر بحث کرتے تھے۔ بحث کے اختتام پر ابو حنیفہ اپنا فیصلہ سناتے جو ان کے شاگرد قلمبندکر لیتے ۔ یہاں تک کہ انھوں نے بعض ایسے مسائل پر فیصلے صادر کیے جن کا فی الوقت مسلمانوں کو سامنا نہیں تھا، اس طرح مستقبل میں پیش آنے والے بعض معاملات پربھی اسلامی قوانین وضع کیے گئے۔ ابو حنیفہ کو بنو امیہ کے دور میں اور پھرعباسی خلیفہ المنصور کے دور میں جج کے عہدے کی پیشکش کی گئی ۔ انہوں نے ان دونوں پیشکشوں کو ٹھکرا دیا۔ تاہم، ان کے ایک مشہور شاگرد ، ابو یوسف، ہارون الرشید کے دور میں چیف جج بنے۔ انسانی تاریخ میں یہ ایک بے مثال واقعہ ہے کہ ایک نجی شخص کے بنائے ہوئے قوانین کو ایک وسیع سلطنت کے قوانین کے طور پر اپنایا گیا ۔
آٹھویں صدی کے دوران، بہت سے دوسرے لوگ تھے جنہوں نے آزادانہ طور پر فقہ کے مکاتب کو تخلیق کیا۔ جعفر الصادق (702-765) اور ابو حنیفہ (699-767) کے علاوہ، دوسرے بڑے نام مالک بن انس (711-795) ہیں، جن کے پیروکار شمالی افریقہ، مغربی افریقہ اور جزیرہ نما عرب میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انھیں مالکی کہا جاتا ہے، محمد بن الشافعی (767 – 820)، جن کے پیروکار حجاز، لیونٹ اور افریقہ کے کچھ حصوں میں اکثریت رکھتے ہیں، انہیں شافعی کہا جاتا ہے، اور احمد بن حنبل (780 – 855)، جن کے پیروکار متحدہ عرب امارات میں موجود ہیں ، انھیں حنبلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اسلامی فقہ کے بانیوں کے بارے میں بہت سے قابل ذکر حقائق ہیں۔ شاید سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسلامی فقہ بڑے پیمانے پر عقلیت پر مبنی تھا۔ قرآنی تعلیمات پر مبنی ہر قانون کے پیچھے ہمیشہ ایک وجہ اور ایک فلسفہ ہوتا تھا۔ میرے نزدیک یہ وہ اہم ترین حقیقت ہے جو اسلامی سنہری دور کی بنیاد بنی ، اور جس نے ایک علمی انقلاب برپا کر دیا۔
دوسری اہم حقیقت یہ ہے کہ فقہ کے تمام بانی تقریباً ہم عصر تھے، اور بعض صورتوں میں، استاد اور طالب علم کے تعلقات رکھتے تھے – احمد بن حنبل، محمد ابن شافعی کے شاگرد تھے، جو خود مالک ابن انس کے شاگردتھے ،جبکہ مالک ابن انس ، ابو حنیفہ کے شاگرد رہےتھے۔ ابو حنیفہ بھی کچھ عرصہ جعفر الصادق کے شاگرد رہے۔ اتنے قریبی تعلقات کے باوجود وہ سب بہت سے فقہی مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے۔ اس کے باوجود باہمی احترام کا ماحول تھا جس میں حق پر اجارہ داری کا کوئی احساس نہیں تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مذہب متحرک نظر آتا تھا اور اس کی بنیاد عقلی سوچ پر رکھی گئی تھی۔ عمومی طور پر کوئی اولیا، کوئی معجزہ اور کوئی فرقہ نہیں تھا۔
اب تک میں نے مذہبی روشن خیالی کے صرف ایک پہلو پر بات کی ہے۔
میرے خیال میں اسلامی فقہ کی تشکیل نے مسلم معاشرے پر ایک قابل ذکر اثر ڈالا۔ یہ علمی رویہ دیگر مذہبی اور دنیاوی تعلیم میں بھی پھیل گیا۔ یہ وہ دور تھا جب محمد ابن اسحاق نے نبی کی پہلی سیرت لکھی تھی۔ فقہ کی تشکیل سے وابستہ یہ وہ ماحول تھا جب عقلی نقطہ نظر سے متاثر ہو کر مسلمانوں میں یونانی ، فارسی، ہندوستانی اور چینی فلسفیوں کی تعلیمات کو سیکھنے کی تڑپ پیدا ہوئی۔
سب سے بڑا واقعہ جسے سائنس کے اسلامی سنہری دور کا آغاز قرار دیا جاسکتا ہے، بغداد میں بیت الحکمہ (حکمت کے گھر) کا قیام تھا ۔
عباسی خلیفہ ہارون الرشید (763 – 809)، جنھوں نے 786 سے 809 تک موجودہ پاکستان سے لے کر شمالی افریقہ میں بحر اوقیانوس کے ساحلوں تک پھیلی ہوئی ایک سلطنت پر حکومت کی، انھوں نے دارالحکومت بغداد میں ایک شاندار لائبریری کی بنیاد رکھی، جس کا نام ، بیت الحکمہ (حکمت کا گھر) رکھا گیا۔ علم کا یہ مرکز 830 میں ہارون الرشید کے بیٹے المامون (786-833) کے دور میں مکمل ہوا جنھوں نے 813 سے 833 تک حکومت کی۔
بیت الحکمہ میں مسلم سلطنت کے مختلف حصوں سے کتابیں منگوائی جاتیں اور ان کا عربی میں ترجمہ کیا جاتا۔ ان میں فلسفہ، ریاضی، فلکیات، اورطب جیسے شعبوں میں ہندوستان، یونان اور فارس کی پرانی تحریریں شامل تھیں۔
بیت الحکمہ نے اپنے وجود کے ابتدائی سالوں میں کچھ ایسے اسکالر پیدا کیے جو اپنے دور میں اپنے اشعبوں میں بہترین سمجھے جاتے تھے اور جن کی تحقیقات نے أنے والی صدیوں میں انسانی سوچ پر گہرے نقوش چھوڑے ۔ان فکری کا وشوں کے لیے حکومت کی اعلیٰ ترین سطح کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ معاشرے کی حمایت بھی حاصل تھی۔
میرے خیال میں جس چیز نے اسلامی سنہری دور کو پروان چڑھایا ، وہ ان کی فلسفے میں دلچسپی تھی۔ اس دور میں مسلم فلسفیوں نے انسانی علم کے ہر پہلو میں عقلیت کو روایات پر فوقیت دی۔ اس دور نے الکندی، الفارابی، اور ابن سینا جیسے عظیم فلسفی پیدا کیے۔
ایک سائنسی سوچ صرف عقلی دلائل پر سچائی کی تلاش کی متقاضی ہے۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہے کہ سائنس نے مسلم دنیا میں اس زمانے میں ترقی کی جب فلسفیانہ نقطہ نظر علم کی بنیاد تھی ۔ یہاں تک کہ خدا کے وجود اور اس کی فطرت سے وابستہ مذہبی سوالات کو سمجھنے کے لیے بھی عقلی دلائل کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ الکندی کے زمانے سے لے کر ابن رشد تک کے دور میں، مسلم تہذیب نے کیمسٹری، ریاضی، طب اور دیگر سائنسی علوم میں وقت کے بہترین سائنس دان اور ریاضی دان پیدا کیے۔ اسلامی دور کے سب سے پہلے فلسفی ، الکندی بذات خود آپٹکس، میڈیسن اور ریاضی میں اہم خدمات کے لیے جانے جاتے ہیں ۔
اسلامی تہذیب گیارہویں صدی کے آخر تک اپنے عروج تک پہنچ چکی تھی۔
پھرایسا کیا ہوا کہ یہ عظیم تہذیب زوال کا شکار ہو گئی۔ ان اسباب کا ذکر اگلی تحریر میں کرنے کی کوشش کروں گا۔