تحریر:سادیہ کریم
خندہ روئی اور کشادہ پیشانی مترادف الفاظ ہیں ۔ خندہ روئی اصل میں فارسی زبان کا لفظ ہے۔ کشادہ جبیں ، فراخ پیشانی، شگفتہ پیشانی، خندہ پیشانی اور کشادہ پیشانی سب اس کے مترادفات ہیں۔ خندہ روئی ایک اہم انسانی صفت ہے۔ اس صفت کا حامل شخص ہمیشہ خوش و خرم رہتا ہے اور دوسرے انسانوں کے ساتھ کھلے دل اور خوشی سے پیش آتا ہے۔ غصے اور غم کی کیفیات میں بھی خود پر کنٹرول رکھتا ہے۔ ایسے شخص کے چہرے سے ہر وقت شگفتگی اور خلوص ظاہر ہوتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ خندہ روئی اورکشادہ پیشانی سے پیش آنا خالق دوجہاں کو بہت پسند ہے۔ اصل میں یہ اعلیٰ اخلاق کی نشانیوں میں سے ہے۔ اس عمل پر انسان کو دنیوی اجر کے ساتھ ساتھ اخروی ثواب و اجر بھی ملتا ہے۔ ان کے ساتھ ہی رب العالمین اور اس کے رسول ﷺ کی محبت اور ان کا قرب نصیب ہوتا ہے۔
خندہ روئی اور کشادہ پیشانی کارِ رسالت کا اہم جزو رہا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کرام علیہم السلام خندہ روئی اور کشادہ پیشانی کی صفات سے مزین تھے لیکن ان صفاتِ عالیہ کا اوجِ کمال ذات مصطفیٰ ﷺ میں نظر آتا ہے۔ہم یہ جانتے ہیں کہ تمام پیغمبر لوگوں کو خدا کی معرفت کروانے اور معاملات کی درستگی کے لئے مبعوث کے گئے۔ انہوں نے اپنا کارِ رسالت انجام دیتے ہوئے انسانوں کو نہ صرف معرفت خدا کروائی بلکہ آداب بندگی ٔخدا بھی سکھائے۔ وہ تمام امور جو کوئی بھی پیغمبر اپنی امت کو سکھاتا رہا وہ خدا کی طرف سے عطا کئے گئے تھے ان تمام امور کو بروئے کار لانا اور ان کے مطابق زندگی گزارنا ہی عبادت کہلاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغام پر عمل کرنا ہی اصل اور عین عبادت ہے اور حضور ؐ اکرم کا ارشاد اس کی تصدیق کرتا ہے کہ خندہ روئی اور کشادہ پیشانی ایک عبادت ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ’’مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘ اور آیت قرآنی آپؐ کے اس مقام کی وضاحت کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متصف ہیں )۔‘‘(القلم:۴)
اللہ رب العزت قرآن مجید میں عبادت کے مفہوم کی وضاحت میں ارشاد فرماتا ہے کہ’’ نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص الله پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (الله کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور الله کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں ، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں ، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں ۔‘‘(البقرہ:۱۷۷)
اس آیہ کریمہ میں عبادت کو نیکی سے تعبیر کیا گیا ہے اور صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو عبادت نہیں کہا گیا بلکہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشرہ کے تمام افراد کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور ان کے ساتھ خندہ روئی اور کشادہ پیشانی سے معاملات کرنے کو بھی عبادت قرار دیا گیا ہے۔