تحریر:وی اے محمد اشرف
72 حوروں کے افسانے کی اصل کہاں ہے؟ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ جنت میں جانے والے مردوں کو خوبصورت خواتین عطا کی جائیں گی ہیں جنہیں حور کہا جاتا ہے، جو ہمیشہ کنواری رہیں گی، جن کا مقصد صرف مردوں کی شہوت رانی ہے۔ لفظ ‘حور العین’ کا اصل معنی ‘آنکھوں کو بھانے والی’ ہے۔
قرآن میں لفظ ‘حور’ کو جمع کے صیغے میں چار مرتبہ استعمال کیا گیا ہے (44:54، 52:20، 55:72، 56:22)۔ جنت میں حور کا ذکر تین آیات میں کیا گیا ہے (49-37:48؛ 38:52؛ 55:56)۔ مندرجہ بالا ساتوں آیات میں مومنوں سے حور کا وعدہ کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو. 2:25، 3:15، 4:57، 55:70)۔ دوسری آیات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ نیک ‘دنیاوی میاں بیوی’ جنت میں ایک ساتھ ہوں گے (قرآن. 24-13:23؛ 57-36:55؛ 40:8؛ 43:70)۔
قرآن کی دو آیات میں "بڑی خوبصورت آنکھوں والی ساتھیوں” کا ذکر ہے (زوجناھم بحور) (قرآن 44:54 اور 52:20)۔ دیگر آیات میں ایسے میاں بیوی کو پاکیزہ اور پارسا قرار دیا گیا ہے: "وہاں (شرمیلی) نیچی نگاه والی حوریں ہیں جنہیں ان سے پہلے کسی جن وانس نے ہاتھ نہیں لگایا (قرآن. 55:56)، "اور نوجوان کنواری ہم عمر عورتیں ہیں” (قرآن. 78:33)، "اور ہم نے انہیں کنواریاں بنا دیا ہے” (قرآن. 56:35-37)، "اور ان کے لئے بیویاں ہیں صاف ستھری” (قرآن. 2:25، 3:15، 4:57) وغیرہ۔
محمد اسد نے اپنی تفسیر کی کتاب میں لکھا ہے کہ قرآن میں جنت کے حوالے سے جو آیتیں نازل ہوئی ہیں انہیں لفظی طور پر نہیں لینا چاہیے۔ انہوں نے اپنے اس نظریے کی تائید میں قرآن کی آیت 32:17 کا حوالہ دیا ہے۔ اس میں بخاری اور مسلم کی حدیث کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ مذکور ہے کہ ‘میرے نیک بندوں کو وہ عطا کیا جائے گا جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا’۔ (محمد اسد، دی میسج آف قرآن، سورہ 56:22، نوٹ: 8 اور سورہ 44:54 نوٹ: 30)۔
قرآن میں کہیں بھی حور کی معین تعداد کا ذکر نہیں ہے۔ بہت سی معتبر احادیث میں اشارہ ہے کہ ہر مومن کو جنت میں دو حوریں ملیں گی۔ (مسلم: 2834؛ بخاری: 3245)۔ تاہم ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جس میں 72 حوروں کا ذکر ہو۔ مزید یہ کہ 72 کی تعداد خود قرآن میں کہیں مذکور نہیں۔
قرآن ایک ہی منبع زندگی سے بنی نوع انسان کی واحد ابتدا پر زور دیتا ہے (قرآن. 4:1)۔ یہ انسان کے حقوق، فرائض، خوبیوں اور خصوصیات کے سلسلے میں مساوات پر زور دینے کے لیے ہمیشہ دو صیغے ‘مرد اور عورت’ کا استعمال کرتا ہے (قرآن. 2:226، 3:195، 9:71، 16:97، 33: 35)۔ اس کے علاوہ، جب مردوں اور عورتوں کو ان کے اچھے اعمال کے لیے یکساں اجر کی ضمانت قرآن نے دی ہے (4:32)، تو یہ بھی ضروری ہے کہ اگر وہ نیک ہیں تو ابدی نعمتوں کے باغ میں داخل ہونے کے لیے دونوں کی روحانی تقدیر یکساں ہے (قرآن 43:70, 4:124)۔ ایک شخص کی فضیلت کا تعین نیکی اور تقویٰ و طہارت اور انصاف میں اس کے مقام سے کیا جاتا ہے (قرآن. 49:13، 5:8)۔
مندرجہ بالا ایات کے مطابق، قرآن میں، مردوں اور عورتوں کو جنت میں حوریں یا ‘خالص شریک حیات/ساتھی’ (ازواج مطہرۃ، .2:25، 4:57) کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ان ‘خالص میاں بیوی’ سے متعلق حوالہ جات سے اکثر مرد مراد لیے جاتے ہیں اور اس کی وجہ یہ کہ کنوارے پن کے ساتھ عفت و پارسائی کو جوڑ کر دیکھا جاتا ہے جو کہ ایک غلط روایت ہے۔ تاہم، قرآن میں ‘پاکیزگی’ سے مراد تقوی و طہارت اور انصاف ہے؛ اس سے کہیں بھی جسمانی کنوارہ پن مراد نہیں ہے۔
بالعموم یہی مانا جاتا ہے کہ جنت میں 72 کنواریاں ملیں گی جو کہ حدیث میں مذکور محض ایک افسانہ ہے اور اس کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ ہمارے تمام اعمال اچھے ہونے چاہئیں (قرآن. 16:30، 16:125، 28:54، 41:34)؛ اچھے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا (قرآن. 6:160، 27:89، 28:84، 39:10، 42:23)؛ جنت کے باغوں میں ہر چیز اچھی اور خوبصورت ہوگی (قرآن.55:70)؛ نیک لوگوں کے لیے ایک خوبصورت رہائش گاہ ہوگی (قرآن. 13:29، 3:14)؛ وہ وہاں سبز تکیوں اور خوبصورت قالینوں پر تکیہ لگائے رہیں گے (قرآن.55:76)؛ ان کے ساتھ ایسے پاکیزہ ساتھی ہوں گے جو نظروں کو بھائیں گے (قرآن.44:54، 52:20، 55:72، 56:22)۔
ذیل میں اس سلسلے میں چند آیات غور طلب ہیں۔ خاص طور پر نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ ہر آیت میں مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کیا گیا ہے:
قرآن 2:25: "[نبی]، اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ان جنتوں کی خوشخبریاں دو، جن کےنیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ جب کبھی وه پھلوں کا رزق دیئے جائیں گے اور ہم شکل ﻻئے جائیں گے تو کہیں گے یہ وہی ہے جو ہم اس سے پہلے دیئے گئے تھے اور ان کے لئے بیویاں ہیں صاف ستھری اور وه ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔”
قرآن 4:57: "اور جو لوگ ایمان ﻻئے اور شائستہ اعمال کئے ہم عنقریب انہیں ان جنتوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں وه ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، ان کے لئے وہاں صاف ستھری بیویاں ہوں گی اور ہم انہیں گھنی چھاؤں (اور پوری راحت) میں لے جائیں گے۔
قرآن 43:70-73: "‘تم اور تمہاری بیویاں ہشاش بشاش (راضی خوشی) جنت میں چلے جاؤ- ان کے چاروں طرف سے سونے کی رکابیاں اور سونے کے گلاسوں کا دور چلایا جائے گا، ان کے جی جس چیز کی خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں لذت پائیں، سب وہاں ہوگا اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے- یہی وه بہشت ہے کہ تم اپنے اعمال کے بدلے اس کے وارث بنائے گئے ہو- یہاں تمہارے لیے بکثرت میوے ہیں جنہیں تم کھاتے رہو گے۔”
جنت میں داخل ہونے کی شرط یہ ہے کہ مرد اور عورت دنیا میں متقی اور پرہیزگار ہوں۔ خدا جانتا ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ اس کے رشتہ دار بھی جنت میں اس کے ساتھ ہوں۔ تو، یہاں خدا کا وعدہ ہے:
قرآن 13:23-24: "ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اوﻻدوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے، ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئیں گے- کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو، صبر کے بدلے، کیا ہی اچھا (بدلہ) ہے اس دار آخرت کا۔”
اگر زوجین میں سے کوئی ایک جنت میں نہ جائے تو کیا ہوگا؟ اس کا جواب قرآن کی آیات 44:54، 52:20 اور بہت سی دوسری آیات میں ملتا ہے۔ اور اسی کے ضمن میں حور العین کا ذکر ملتا ہے۔
"یہ اسی طرح ہے اور ہم (حور العین) بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کا نکاح کردیں گے۔” (قرآن 44:54)
لیکن زیادہ تر تراجم میں خامیاں ہیں۔ آیت 44:54 کے کچھ عام تراجم میں اس کا ترجمہ خوبصورت آنکھوں والی کنواریاں کیا گیا ہے جو کہ غلط ہے۔ بعض علماء نے غلطی سے یہ فرض کر لیا ہے کہ اس تناظر میں "انہیں” سے مراد صرف مرد ہیں۔
اگر قرآنی آیات 44:51، 44:52، 44:53 اور 44:54 کا ایک ساتھ مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آیت 44:54 میں ‘وہ’ سے مراد متقی و پرہیزگار لوگ ہیں:
قرآن.44:51: "بیشک (اللہ سے) ڈرنے والے امن چین کی جگہ میں ہوں گے؛
قرآن.44:52: "باغوں اور چشموں میں۔”
قرآن.44:53: "باریک اور دبیز ریشم کے لباس پہنے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے”
قرآن 44:54: "یہ اسی طرح ہے اور ہم آنکھوں کو بھانے والی حوروں (حور العین) سے ان کا نکاح کردیں گے۔”
لہٰذا یہ خیال کرنا غلط ہے کہ قرآن 44:54 میں مذکور حور العین سے مراد عورت ہے۔ یہ ایک جنس پرست مفروضہ ہے۔ حور العین کا صنفی اعتبار سے غیر جانبدار معنی ‘خوبصورت، آنکھوں کو بھانے والی، ساتھی’ ہے۔ اس سے متقی مردوں اور عورتوں دونوں پر یکساں طور پر مراد لیے جا سکتے ہیں۔
قرآن خود اپنی ‘جنت اور جہنم کے بیان’ کو تمثیلات کہتا ہے (قرآن۔ 27-2:24;17, 4:10; 7:44-50,176,177,194; 13:35; 17:48,60,89; 32:17 – 20, 67-37:61; 47:15; 74:31; 23-76:12)۔
غلط فہمی کی اصل وجہ یہ ہے کہ حور العین کا ترجمہ جنتی عورتیں کر دیا گیا جو کہ غلط ہے۔ حور العین کا صنفی اعتبار سے غیر جانبدار معنی ‘ آنکھوں کو بھانے والی’ ہے۔ اگر کوئی قرآن کی نمبر 55-44:51 کو دیکھے تو وہ اس بات کی قائل ہو جائے گی۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مرد صرف وہی ہیں جو ریشم پہنتے ہیں، پھل کھاتے ہیں اور آرام سے گپ شپ کرتے ہیں۔
‘کواعب اترابا’ کا اصل معنی کیا ہے؟
بدقسمتی سے، اکثر علماء نے آیات .32-78:31 کا ترجمہ اس انداز میں کیا ہے جس سے جنسی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ لفظ ‘کواعب اترابا’ کا ابھرے ہوئے سینوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر اس کا مطالعہ سیاق و سباق کے اندر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں قدرتی حسن کی بات کی گئی ہے۔
‘کواعب’ = کوئی بھی چیز جو ابھری ہوئی ہو۔
‘اترابا’ = زمین کے ٹیلے
قرآن. 32-78:31: یقیناً پرہیزگار لوگوں کے لئے کامیابی ہے۔ باغات ہیں اور انگور ہیں۔ اور مٹی کے ٹیلوں کے گھاس کے میدان۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ قرآن جب بھی جنت کے انعامات کی بات کرتا ہے تو صنفی غیر جانبدار اسم استعمال کرتا ہے۔ متقون ایک اصطلاح ہے جس سے خدا سے ڈرنے والے، نیک لوگوں (مرد اور عورت دونوں) مراد ہوتے ہیں۔ اس لیے قرآن میں مردوں یا عورتوں کے لیے کسی خاص تحفے کا ذکر نہیں ہے۔ بہت سی دوسری آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ متقون کا ثواب حور العین ہے۔ الحاصل یہ کہ حور العین سے مراد ایک خوبصورت اور محبوب شریک حیات یا ساتھی ہے۔