تحریر:معراج زرگر
اعمالِ صالحہ میں سے سخاوت ایک عجیب اور انتہائی عظیم شئے ہے۔ فقط سخاوت کی بنا پر ایک معمولی شخص علماء، فضلاء، امراء، شیوخ ومعتبر پہ بھاری پڑ سکتا ہے اور بازی لے جا سکتا ہے۔ سخی ہونا فضلِ اِلٰہی ہے۔ اور اس فضل کا کوئی جوڑ نہیں۔ایثار سخاوت کی معراج ہے۔سخاوت تو یہ ہے کہ جس چیز کی انسان کو بقدر ضرورت احتیاج نہ ہو، اُسے اﷲ کی راہ میں کسی کو دیدے۔ جبکہ ایثار یہ ہے کہ اپنی ضرورت کی چیز کسی دوسرے شخص کو دیدے، جبکہ وہ شخص خود اسکا سخت محتاج ہو۔
نبی کریم ٖﷺ نے فرمایا’’ دو خلق ایسے ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ دوست رکھتا ہے۔ ایک سخاوت اور دوسری نیک خوئی۔ اور دو خلق ایسے ہیں جن کو وہ ناپسند کرتا ہے۔ ایک بخل اور دوسری بد خوئی‘‘۔آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ سخاوت بہشت کا ایک درخت ہے، جسکی شاخیں دنیا میں لٹک رہی ہیں۔جو مرد سخی ہے وہ ان ڈالیوں میں سے ایک ڈالی کو پکڑے گا اور اس کے ذریعے سے جنت میں پہنچ جائے گا۔اور بخل دوزخ کا ایک درخت ہے جس کی شاخیں دنیا میں لٹک رہی ہیں۔ اور جو مرد بخیل ہوگا وہ اس کی ایک شاخ پکڑے گا، اور وہ اسکو دوزخ میں پہنچادیگی‘‘۔آپ ﷺ یہ بھی فرمایا کہ ’’ سخی کی تقصیر معاف فرمادو کہ جب تک وہ تنگ دست ہوتا ہے تو اﷲ اسکی دستگیری فرماتا ہے‘‘۔
آپ ﷺ ارشاد فرمایا ہے کہ’’ سخی کا کھانا دوا کا حکم رکھتا ہے اور بخیل کا کھانا مرض ہے‘‘۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’ سخی اﷲ کے نزدیک ہے ،اسی طرح وہ بہشت سے اور دوسرے لوگوں سے نزدیک ہے۔اور دوزخ سے دور ہے۔ اور بخیل مرد اﷲ سے، بہشت سے اور لوگوں سے دور ہے ۔ اور دوزخ سے نزدیک تر ہے‘‘۔ اﷲ تعالیٰ سخی جاہل کو بخیل عابد سے ذیادہ دوست رکھتا ہے اور تمام بیماریوں میں بخل سب سے بڑی بیماری ہے۔ ایک حدیث میں آیاہے کہ میری اُمت کے ابدال لوگ نماز روزے کے باعث بہشت میں نہیں جائیں گے۔ بلکہ سخاوت، پاکیزگیء قلب اور اس نصیحت اور شفقت کے باعث جنت میں جائیں گے جو اُن کو خلقِ خدا سے تھی۔ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ حق تعالیٰ نے موسیٰ علیہ سلام پر وحی اتاری کہ سامری کو مت مارو کیونکہ وہ سخی ہے۔ اسی طرح ایک غزوہ میں نبی پاکﷺ نے سوائے ایک اسیر کے سب کو قتل کرانے کا حکم دیا۔ حضرت علی رضی اﷲعنہ نے دریافت کیا کہ اس شخص کو قتل کیوں نہیں کیا گیاجبکہ دین ایک، گناہ ایک اور خدا ایک ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبریل امینؑ تشریف لائے اور فرمایا کہ اِس شخص کو قتل نہ کرو کیونکہ یہ سخی ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک دفعہ بارگاہِ ایزدی میں عرض کی کہ اے اﷲ ۔ نبیء آخر الزمان ﷺ کے مدارج مجھ کو دکھائیے۔ ارشاد ہوا کہ آپ ان مدارج کو نہیں پاسکتے۔ البتہ ان کے مدارج میں ایک درجہ میں تم کو دکھلا سکتا ہوں۔اﷲ پاک نے جب وہ درجہ موسیٰ علیہ السلام کو دکھایا تو وہ اُس کے نور اور اسکی عظمت دیکھ کر غش کھاگئے۔ جب ہوش میں آئے تو عرض کیا کہ الٰہی ۔یہ درجہ آپﷺ کو کیونکر ملا۔ حق تعالیٰ نے فرمایا ۔ ایثار کے بدلے۔اور فرمایا کہ اے موسیٰ۔۔۔! ’’جو بندہ ساری عمر میں ایک بار ایثار کرے تو مجھے اُس کا مواخذہ کرنے میں شرم آتی ہے۔اور اس کی جگہ بہشت میں ہوگی، جہاں اس کا دل چاہیگا، وہ وہاں رہ لے گا‘‘۔
سخی اصل میں وہ شخص ہے جو بغیرکس مطلب اور غرض کے بے لوث طرز پر اپنا مال دوسرے کو دے ۔ اور یہ عام انسانوں کے بس کی بات نہیں۔کیونکہ یہ صفتِ رحمانی ہے اور عام بندوں پر گراںگذرنے والی۔ مگر جب کوئی اﷲ پاک کا بندہ رضائے الٰہی اور جذبہء ہمدردی کے تحت معاوضہ اور بدلہ نہ چاہے اور فقط اﷲ کی خوشنودی کیلئے ایسا کرے تو وہ سخی ہے۔کیونکہ بالفعل وہ اپنے مال کے انفاق کا کوئی بدل نہیں چاہتا۔اپنا مال دیکر اس کے بدلے کسی بات کی امید رکھنا معاوضہ ہوگا سخاوت نہیں۔
سخاوت اور بخل دو دریا ہیں جو ایک دوسرے کے متوازی بہتے ہیں۔سخاوت کا دریا اگرچہ میٹھے اور شیرین پانی کا سرچشمہ ہے، لیکن اس کے کنارے پر آپ کو بہت ہی کم لوگ نظر آئیں گے۔ اور یہ خوش بخت لوگ ہیں۔اسکے برعکس بخل کے دریا کا پانی بد ذائقہ اور آلودہ ہے۔ مگر اسکے اندر اور کناروں پر لوگوں کا جمِ گفیر ہے۔ اور یہ لوگ مادہ پرست اور بد بخت ہیں۔جب یہ دونوں دریا عارضی دنیا کی سرحدیں عبور کرکے آخرت کے بحرِ بے کراں میں داخل ہونگے تو وہاں سخیوں کی شان اور بخیلوں کا برا انجام دیدنی ہوگا۔
سورۃ ابراہیم میں اﷲ کا ارشاد ہے،’’ اے سچے نبی ﷺ۔ میرے بندوں کو فرما دیجئے کہ نماز پڑھتے رہا کریں۔ اور جو ہم نے اُن کو دیا ہے اس میں سے خرچ کیا کریں۔اس دن کے آنے سے پہلے جب کوئی سودا نہ ہوگا اور نہ کوئی دوستی کام آئے گی‘‘۔ اسطور یہ حکمِ خداوندی ہے کہ اس کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ سورۃ رعد میں اﷲ پاک کا ارشاد ہے، ’’اور جو اپنے پروردگار کی طلب میں صبر پر قائم رہتے ہیں۔اور نمازیں پڑھتے ہیں اور ہمارے دئے ہوئے مال میں سے اﷲ کی راہ میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ اور برائی کو نیکی سے بدل دیتے ہیں۔انہی کیلئے آخرت کا گھر ہے۔
حضرت ابنِ عباس ؓ نبی پاک ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ’’ سخی کے گناہ سے در گذر کرو۔ کیونکہ جب وہ سخاوت کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اُس کا ہاتھ تھام لیتا ہے‘‘۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں، ’’جنت سخی لوگوں کا گھر ہے۔حضرتِ حزیفہ ؓ فرماتے ہیں،’’ بہت سے دین میں نافرمانی کرنے والے لوگ جو اپنی معیشت میں تنگی کا شکار ہوتے ہیں، لیکن وہ سخاوت کی وجہ سے جنت میں جائیں گے‘‘۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا،’’ بیشک اﷲ تعالیٰ سخاوت فرمانے والا ہے۔اور سخاوت کو پسند کرتا ہے۔ اور اچھے اخلاق کو پسند کرتا ہے۔ اور بد اخلاق کو ناپسند کرتا ہے‘‘۔
ریاض الصالحین میں امام نووی ؒ بخاری اور مسلم کی چند روایات نقل کرتے ہیں۔ ایک روایت میں عبد اللہ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا، ’’ دو قسم کے لوگوں پر اللہ رشک کرتا ہے، ایک وہ جس کو اللہ نے مال عطا کیا ہو اور پھر اسے توفیق دی کہ وہ اس مال کو اللہ کی راہ میں لٹائے۔ اور دوسرا وہ جس کو اللہ نے حکمت سے نوازا اور وہ اس کے ذریعے سے درست فیصلے کرتا ہو اور لوگوں میں اسے یعنی حکمت کو پھیلاتا ہو‘‘۔ ابن مسعود ؓ سے ہی ایک اور روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ، ’’ تم میں سے ایسا کون ہے جس کو اپنے مال سے ذیادہ اپنے وارث کا مال عزیزہے۔ صحابہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ۔ ہم میں سے تو ایسا کوئی نہیں۔ ہر ایک کو تو اپنا ہی مال محبوب ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’ اس کا مال تو وہی تھا جو اس نے اپنے آگے بھیج دیا‘‘۔
عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’ اپنے آپ کو آگ سے بچائو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی سے‘‘۔ ایک اور روایت جو ابو ہریرہ ؓ سے ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ’’ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا کہ جب صبح اللہ کے بندے بیدار ہوتے ہیں تو آسمان سے فرشتے اتر کر دعائیں کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ خرچ کرنے والے سخی کو اچھا بدلہ عطا فرما اور دوسرا یہ کہ جوڑ جوڑ کر(مال) رکھنے والے کو تباہ و برباد کر۔
امام غزالیؒ احیاالعلوم میں ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت یحیٰ بن ذکریاؑ کی شیطان سے اُس کی اصل حالت میں ملاقات ہوگئی۔آپ ؑ نے پوچھاکہ ’’بتا آپ کو کس سے ذیادہ محبت ہے اور کس کو تو سب سے ذیادہ ناپسند کرتا ہے‘‘۔شیطان بولا،’’ مجھے بخیل مومن سے سب سے ذیادہ محبت ہے اور فاسق سخی سب سے ناپسند ہے۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اﷲ اس کی سخاوت کو قبول کرے گا۔‘‘ اور پھر جاتے ہوئے بولا ’’کہ اگر آپ یحیٰ نہ ہوتے تو میں یہ بات آپ کو نہ بتاتا۔‘‘
انوارالعلوم میں ایک واقعہ درج ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے دورِ مبارک میں شہر میں بھیانک آگ لگ گئی۔ آدھا شہر جل چکا تھا۔ لوگ اس پر پانی اور سرکہ ڈالتے تھے۔ اور آگ تھی کہ مزید بڑھ رہی تھی۔لوگ حضرت عمر فاروق ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا، ’’ آگ پانی سے نہیں بجھ رہی ہے‘‘۔ آپ ؓ نے فرمایا۔ ’’ یہ آگ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہے اورتمہارے بخل کی آگ کا شعلہ ہے۔اس پر پانی ڈالنا چھوڑ دو اور روٹیاں تقسیم کرو اور بخل سے توبہ کرو اور خیرات کرو۔‘‘
لوگوں نے عرض کیا۔ ’’ ہم تو شروع سے ہی خیرات کرتے ہیں اور شروع سے ہی بہت سخی ہیں۔‘‘
آپ ؓ نے فرمایا، ’’ تم خود نمائی اور شان وشوکت کی وجہ سے ایسا کرتے ہو۔ نہ کہ اﷲ کے خوف اور اس کی خوشنودی کیلئے ایسا کرتے ہو۔‘‘
اعمال الصالحین میں درج ہے کہ حضرت شفیق ملجی ؒ فرماتے ہیں ، ’’میں نے سات سو علماء سے یہ دریافت کیا کہ’’ عقل مند کون ہے،دولت مند کون ہے، دانا کون ہے، درویش کس کو کہتے ہیں اور بخیل کون ہے؟
تو سب نے اک ہی جواب دیا۔’’ عقل مند وہ ہے جو دنیا کو دوست نہیں رکھتا ہے، اور دولت مند وہ ہے جو اﷲ کی تقسیم پر راضی رہتا ہے۔ دانا وہ ہے کہ دنیا اس کو فریب نہیں دے سکتی۔ درویش وہ ہے جس کے دل میں ذیادتی کی طلب نہیں ہوتی ۔ اور بخیل وہ ہے جو اﷲ کے دئے ہوئے مال کا حق ادا نہیں کرتا۔‘‘
رمضان المبارک کا مہینہ ہم پہ سایہ فگن ہے۔ یہ مواصات ، ایثار، محبت، انفاق اور سخاوت کا مہینہ ہے۔ کتنے ہی سخت دل لوگ اس مہینے کی برکت سے پگھل جاتے ہیں۔ آئیے سخاوت کریں اور سخی بنیں-