ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کے دن کے طور منایا جاتا ہے ۔ اس موقعے پر یادکیا جاتا ہے کہ روز اول سے دنیا محنت کشوں اور مزدوروں کے دم سے قائم ہے ۔ یہ بات بڑے فخر سے کہی جاتی ہے کہ دنیا کی ترقی اور قوموں کی خوشحالی میں مزدوروں کا اہم رول رہاہے ۔ ایک زمانے میں مزدوروں کے طبقے کو بڑی حقارت سے دیکھا جاتا تھا اور ان کے ساتھ میل ملاپ کوئی اچھی بات نہیں سمجھی جاتی تھی ۔ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اپنی شان کے خلاف سمجھا جاتا تھا ۔یہاں تک کہ یورپ میں بدلائو کی تحریک چلی تو مزدوروں کے حقوق کی بات بھی سامنے آئی ۔ اس کے بعد اندازہ ہوا کہ مزدوروں کو ناراض یا نظر انداز کرکے ہر گز آگے نہیں بڑھا جاسکتا ہے ۔ جدید دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے کہ جامع ترقی محنت اور مثبت سوچ سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ افرادی قوت کو آج کی دنیا کا سب سے بڑا قدرتی وسیلہ مانا جاتا ہے ۔ اس طرح کی دنیا کے اندر مختلف طبقوں کے لوگ اپنا حصہ ڈال کر قوموں اور ملکوں کو آگے لے جانے میں رول ادا کرتے ہیں ۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ مزدوروں کے رول کو ترک کرکے کوئی کام انجام دیا جاسکتا ہے ۔ دنیا نے بحیثیت مجموعی تسلیم کیا ہے کہ اصل سرمایہ اور قوت مزدور طبقہ ہی ہے ۔ اس طبقے کا استحصال کرکے سماجی فلاح اور معاشرتی بہبود ممکن نہیں ہے ۔ معاشی ترقی ہر گز حاصل نہیں کی جاسکتی ہے جب تک مزدور اس میں اپنا حصہ نہ ڈالیں ۔ ظلم و جبر کے زمانے سے لے کر آج تک زندگی کو بحال رکھنے میں مزدوروں نے کلیدی رول ادا کیا ۔ جن قومی ورثوں اور دنیا کے عجائبات پر ہم فخر کرتے ہیں وہ از خود وجود میں نہیں آئے ہیں ۔ بلکہ ان کی تعمیر میں مٹی گارے کے ساتھ مزدوروں کا خون پسینہ شامل ہے ۔ اہرام مصر سے لے کر تاج محل تک بلکہ وائٹ ہاوس سے لے کر ہماری قومی شاہراہوں تک جن تعمیرات پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ جدید آلات اور مشینوں کے ساتھ ان کی تعمیر مزدوروں کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے ۔ سرینگر جموں شاہراہ اور سرینگر لداخ روڈ پر سفر کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ ان سڑکوں کی تعمیر میں کسی شہنشاہ یا ٹھیکہ دار کی زندگی ضایع نہیں ہوئی ہے بلکہ قدم قدم پر مزدوروں کی لاشوں کے انمٹ نشانات پائے جاتے ہیں ۔ یہ سڑکیں آج ہمارے لئے آرام و آسائش اور معاشی ترقی کی بنیاد بنی ہوئی ہیں ۔ لیکن ان کی تعمیر کے دوران کئی سو مزدوروں نے اپنی جان کا نذرانہ دیا ہے ۔ یہ انہی مزدوروں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ ہم آج آرام و آسائش کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ یکم مئی کے موقعے پر ان مزدوروں کی محنت اور قربانیوں کو یاد کرنا ضروری ہے ۔
جموں کشمیر میں مزدوروں اور محنت کشوں کا ایک بڑا طبقہ پایا جاتا ہے ۔ ایسے لوگ سرکاری اور نجی دونوں سیکٹروں میں پائے جاتے ہیں ۔ لیکن آج بھی استحصال کا شکار ہیں ۔ ان سے کام لے کر انہیں پورا معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے ۔ پرائیویٹ سیکٹر میں ان کا استحصال تو عام سی بات ہے ۔ بلکہ آج بھی ان سے جبری کام لیا جاتا ہے ۔ بہت کم معاوضے کے عوض ان سے بے جا مطالبات کئے جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ خواتین کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے ۔ بچوں کی مزدوری پر قانونی پابندی ہے ۔ لیکن چائلڈ لیبر کا رواج آج بھی ہمارے سماج میں پایا جاتا ہے ۔ اسی طرح تعلیمی ، طبی اور دوسرے نجی شعبوں میں کام پر رکھے گئے ملازمین سے ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔ سرکاری سیکٹر کے حوالے سے بھی مزدور اور ملازم کئی طرح کے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں ۔ ملازم یونینوں کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ ان کے حقوق صحیح معنوں میں ادا نہیں کئے جاتے ہیں ۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے ملازم چاہتے ہیں کہ انہیں مستقل کرکے ان کے ساتھ روا رکھی گئی پالیسی کو ترک کیا جائے ۔ ہزاروں کی تعداد میں کام کرنے والے یہ ملازم وقفے وقفے سے سڑکوں پر ظاہر ہوکر اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں ۔ لیکن اس طرف کوئی توجہ دینے کے لئے تیار نہیں ۔ دوسرے ملازم اس بات پر نالاں ہیں کہ نئی پنشن پالیسی کے اطلاق سے انہیں بے بس کردیا گیا ہے ۔ کام کرنے کی عمر کے بعد انہیں جو پنشن ملتی تھی بڑھاپے میں ان کا مضبوط سہارا سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن یہ سہارا ایسے ملازموں سے چھین لیا گیا ہے ۔ ملکی سطح پر اس پالیسی کی سخت تنقید کی جاتی ہے ۔ سرکار نے نئی پنشن پالیسی لاگو کرکے خزانے پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا ۔ لیکن اپنے ہی معمر شہریوں کو پس دیوار دھکیلا گیا ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی بات کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ ملازموں کو ساٹھ سال کی عمر تک عوامی خدمت پر مامور کرکے انہیں بڑھاپے میں پس پشت ڈالنا صحیح سوچ نہیں ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پنشن کی صورت میں ادائیگیاں عام لوگوں کی خدمات میں رخنہ انداز ہورہی ہیں ۔ حالانکہ پنشن حاصل کرنے والے اور اس پر گزر بسر کرنے والے عام لوگ ہی ہیں ۔ آج یوم مزدور کے موقع پر ملازموں کے پنشن کے حوالے سے بہتر سوچ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔