از:این اے مومن
آپ سے چھوٹی سی استدعا ھے کہ ابھی مضمون کو پڑھے بغیر صرف عنوان کو دیکھ کر ہی سیخ پا مت ھو جائے گا ، جناب ۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے تفصیل اور دلیل کیساتھ بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ جو کچھ غلط لکھا ہو گا تو ٹھیک کرنے کی سعی سے فرار اختیار نہیں کروں گا اور جو درست اور حق لگے تو اپنے رویہ اور طریقے پر نظر ثانی کر کے حقیقت حال کو پہچاننے اور ماننے سے انکار مت کیجئے گا ۔
ابن تیمیہ کی تنگ نظری اور شدت پسندانہ سوچ پر کچھ گلہ شکوہ نہیں کروں گا ، وہ زمانہ ہی کُھلے پن کا نہیں تھا تو دوش کس بات کا ؟ اسی طرح کلاسیکل علماء اور ائمہ فقیہا نے جو کچھ کام کیاھے اور رائج الوقت نظام یا دیئے گئے circumstances میں جو کچھ بھی کنٹریبیوٹ کیا ھے، اس کو چند خامیوں کے باوجود لاثانی کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ھے ۔ ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انہوں نے بہت ھی کٹھن حالات میں چیلنجز کا سامنا کیا ھے اور مسلمانوں کو کچھ بنیادی طور طریقوں پر مجتمع کرنے میں کامیابی حاصل کی ھے ۔ وہ کوئی نارمل زمانہ نہیں بلکہ طوائف الملوکیت اور بربریت کا دور تھا۔ اس خون آلود انتشار پذیر عالم اور وسیع افتراق میں، انہوں نے چند مکاتب فکر میں ساری امت کو جوڑ کر یا سمٹ کر ایک بہت بڑے خلفشار اور بکھرا و سے مسلمانوں کی امت کو بچایا ورنہ اسلام کی حالت آج ہندوازم سے بھی بدتر ہو گئی ہوتی۔ کوئی نقطہ اتحاد اور اشتراک دیکھنے کو نہیں ملتا، بھانت بھانت کی بولیوں میں کروڑوں تعبیرات اورversionsایک مسلمان کو پاگل کردیتے۔
جس نے بھی معاویہ اور بنو امیہ کے دور سے لے کر بنو عباس کے پیرڈ تک گہرائی سے تاریخ کا مطالعہ اور جائزہ لیا ھوگا وہ میری اس بات سے اتفاق کرے گا کہ یہ ایسا خطرناک دور رہاھے جس میں ایک سے بڑھ کر ایک فتنہ اور چلینج آئے روز ظاہر ہوتا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ اب اسلام باقی نہیں رہے گا۔
قتل و غارت گری تو معمولی بات تھی اسلام کے فکری اثاثے اور بنیاد پر ضربیں لگ رہی تھیں ۔ من گھڑت حدیثیں بنانے اور جھوٹ موٹ پھیلانے کی جابجا فیکٹریاں چل رہی تھیں ۔ حتی کہ خلفائے راشدین میں بھی کئی کو تشویش لاحق ہوگئی اور پابندیاں لگانے سے لیکر صحائف کے جلانے تک نوبت آگئی تھی ۔ خیر مختلف منسلک اور مکتب فکر وجود میں آنے کے بعد فتنہ ٹلا نہیں اور سو فیصد حل نکلا بھی نہیں مگر ایک طوفان اور سیلاب کو سب کچھ بہالےجانے کی کھلی چھوٹ بھی نہیں ملی تھی بلکہ اسے کچھ بڑے دریاؤں اور دھاروں main streamsمیں گرا کر ایک مثبت سمت کی طرف موڑا دیا گیا۔ اس وقت کے حالات میں اور فتنوں کی شدت کے سامنے اس کے بغیر کچھ چارہ بھی نہیں تھا ۔ وقتی طور پر یہی اس کا حل اور مداوا تھا۔ شیعہ-سنی، حنفی ،مالکی، شافعی، حنبلی جیسی سٹریمز نے بہت کچھ بہنے اور ضائع ہونے سےمحفوظ رکھا۔ پھر احادیث کو ادھر ادھر سے جمع و تدوین کرنے اور فقہوں کو وجود میں لانے کا مقصد آئیندہ امت کیلئے ایک راستہ مقرر کرنا تھا ، ایک مواد کو جمع رکھنا اور مہیا کرنا تھا ، ایک ادھورے پراجیکٹ کو پائہ تکمیل تک پہنچانے کا منصوبہ ذہنوں میں اتارنا تھا اور تحقیق کو جاری رکھنے کا عظیم منشاء سمجھانا تھا۔ اب سیلاب کو کچھ موٹے اور بڑے دھاروں میں بند کرکے کام میں سہولت پیدا کی گئ تھی ۔ آئیندہ آنے والے مسلمانوں کو اب سیلاب کے بجائے دھاروں سے مواد کی تحقیق و ترتیب کرنی تھی ، اسے بڑھانے اور الجھانے کے بجائے مزید کانٹ چھانٹ کے ذریعے گھٹانا اور سلجھانا تھا اور خالص کو ملاوٹ سے الگ کرنا تھا۔ اصل کو موجود رکھ کر نقل کو مٹانا تھا۔ یہ سب آنے والوں پر چھوڑ دیاگیاتھا۔مگرآنے والوں نے اس سب کو الٹ پھیر کردیا۔ انہوں نے اس کو مقدس اور ناقابل ترمیم بلکہ "الہامی” درجہ دے کر قرآن سے بھی زیادہ بڑا اور پوتر کردیایاکسی نے کلی طور پراس کو رد کرکے ائمہ ہی کو برا بلا کہہ کر مشرک ٹھہرایا۔یہ کوئی کم تر مصیبت نہیں تھی کہ ادھر دشمن بھی کمزوریوں کو بھانپ چکا تھا اور اس نے اندرونی اختلافات سے فائدہ اٹھانے اور لڑانے کی ایک وسیع سکیم ترتیب دی تھی۔ مزید برآں اب ڈالروں کی بارش بھی ہونے والی تھی ، ایک نئے دین کو اسلام کے نام پر جاری کرانے اور عملانے کا پروگرام بھی تشکیل دیاگیاتھا ۔
Part (2)
خلافت عثمانیہ مسلمانوں کی آخری شوکت اور سیاسی شان تھی جس نے تقریبا ساری ملت کو ایک وحدت میں پرویاتھا۔ یہ کوئی مثالی اور سو فیصد اسلامی نظام نہیں تھا مگر ایک اسلامی بلاک اور طاقت و عظمت کی آخری نشانی ضرور تھی جس کا کھٹکا مغرب خصوصا" برطانوی سامراج کو اور یورپی طاقتوں کو بہت زیادہ تھا۔ یہ اُن کی آنکھ کا کانٹا بن گیاتھا کیونکہ مسلمانوں کے پاس جووسائل اور رسائل تھے عثمانی اس کے پاسبان اور امانتدار بن گئے تھے۔ خلیفہ کی تعظیم اور اطاعت ہر مسلمان سلطان اپنا فرض سمجھتا تھا۔ دوسری مسلمان سلطنتیں انہی کا خطبہ اور احترام بجا لاتی تھیں ۔ لہذا برطانیہ کے حکمرانوں کو اس وحدت اور سیاسی نشانی کو ختم کرنے کیلئے خفیہ پلان اور جاسوسوں کا خصوصی نظام ترتیب دینا پڑا ورنہ ان کی استعماریت اور دنیا پر قبضہ جمانے اور وسائل لوٹنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ھوتا۔ برطانیہ میں جاسوسوں کو مفتی کورس اور عالمانہ کورس پڑھایاگیا۔ عربی زبان کی خصوصی تربیت دلائی گئی۔ کچھ مسلمان کی شکل میں مسلمانوں ہی کے دینی اداروں میں داخلہ پانے میں کامیاب ہوگئے اور بلا کسی خوف و خطر کے دینی کورس کو پائہ تکمیل تک پہنچا گئے۔ برطانیہ کی ایجنسیوں نے مسلمانوں کے اندرونی اور مذہبی اختلافات نیز ہسٹری کو جاننے کیلئے خصوصی مطالعاتی مراکز قائم کئے اور ماہرین کو عالم عرب میں پھیلا دیا۔ لارنس آف عربیہ ، ہمفر اور بہت سے جاسوسوں کو "عالموں” یا "شیوخ” کے روپ میں سرزمین حجاز میں پھیلایاگیا ۔ انہیں انتہائی خفیہ انداز میں عربوں کے حلیے میں خاص خاص قبیلوں ، مسجدوں ، شرفاء وغیرہ کے پاس "اسلام کی تبلیغ ” پر روانہ کیا گیا۔ یہ کام بڑے منظم انداز اور پوشیدہ طریقے سے برسوں تک جاری رہا۔ یہاں انہوں نے بہت ہی منظم نیٹ ورک قائم کرکے ہر اہم جگہ اپنا اثرورسوخ قائم کیا۔ لوگ بڑے پیار ،عزت اور احترام کیساتھ ان شیوخ سے ملتے اور دعوتیں کھلاتے۔ وہ سادہ لوح نہیں جانتے تھے کہ ان کے یہ شیوخ ،عرب نہیں ، مسلمان نہیں ہیں۔ ان کو کیا پتہ کہ یہ ‘بزرگ’ اسلام کا حلیہ اسلام کے نام پر بگاڑنے آئے ھیں ۔ یہ بڑے میٹھے انداز میں عصبیت پھیلاتے رہے، بلیغ انداز میں اختلافی مسائل اور منسلکی تنازعات ابھارتے رہے ، نت نئے فتنے سوچتے اور پھیلاتے رہے۔
Part (3)
انہوں نے انتہائی شاطرانہ اور مکارانہ طریقہ کار کو عملا کر ہولناک اہداف اور بڑے گھناونے منصوبوں کی جانب پیش رفت کو جاری و ساری رکھا۔ ان کے مشن یا آپریشن میں یہ نکات خاص طور پر شامل تھے :-
(1)- عربوں کے اندر اسلامیت کی جگہ قومیت پھیلانا اس طرح عربوں کو ٹرکوں اور عجمیوں کے خلاف لڑا کر خلافت عثمانیہ کو توڑنا
(2)- شیعہ-سنی اختلافات اور دیگرمنسلکی تنازعات کو نئے سرے اور قوت سے کھڑا کرکے مسلمانوں کو آپسی فتنوں میں مشغول رکھنا۔
(3)- علماء اور قبائلی شرفاء کے اندر گھس کر مختلف طریقوں اور لالچ دے کر ایک ایسی جماعت تشکیل دینا جو برطانیہ کی حمایت کرنے اور ان کی ڈکٹیشن لینےپر آمادہ ہوجائے۔
(4)-
علماء کے بھیس میں مسجدوں ،درسگاہوں ، ائمہ وغیرہ کو اسلام کی ایسی تشریحات کے بھنور اور تفسیر میں پھنسا دینا جو انتہا پسندی ، شدت پسندی اور مبالغہ آرائی کی طرف دھکیل دے اور ایسی تربیت اور ذہین سازی کرے کہ سماج میں عدم برداشت کی فضاء قائم و دائم رہے۔ اسلامی اخلاقیات ، انسانیت ، عدل و انصاف ، اخوت اور بھائی چارہ کو معاشرے کے اندر اور تعلیم و تربیت میں کوئی اہمیت اور درجہ نہ رہے۔
جب زمین ایک منفی تحریک اور تشدد کیلئےتیار ہوگئی اور عربوں کے علماء، سردار ، کچھ فوجی اور شرفاء پورے طور پر بک گئے اور غدار بن گئے تو دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف فتنے فسادات ،لڑائیاں ،قتال ، لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا۔ ایک نئی بحث اور معمولی باتیں "قومی مسلہ ” کی پوزیشن پر چھاگئے "خلیفہ قریش کا ہو عجمی خلیفہ نہیں چلے گا۔ ترک واپس جائیں اور سرزمین حجاز کو آزاد چھوڑیں۔ ہم عجم کے غلام نہیں بن سکتے ، ۔۔۔۔” انگریزوں نے جدید اسلحہ ، بندوقیں اور توپیں فراہم کیں ، دولت اور رشوت کی تھیلیاں کھولی گئیں انجام کار میں جب دیکھا کہ آگ خوب گرم ہوا ھے اور بجھنے نہیں پائے گی تو خود آکر میدان کارزار کی کمانڈ حاصل کرلی ۔ نتیجے کے طور پر ، تمام عالم عرب کو سائیکو پیکٹ Psyco Pact کے تحت آپس میں بانٹ دیاگیا۔ عرب سرزمین کے حصے بخیر کر رکھ دئیے گئے اور تمام سنہرے خواب چکناچور ہوگئے۔ اس طوفان بدتمیزی میں بھی عثمانیوں نے بنو امیہ کی روایت اور حجاج بن یوسف و یزید کا خون آلودہ عمل اور بے حرمتی کا طریقہ چھوڑ کر بغیر کسی خون خرابے کے پرامن طریقے سے مکہ اور مدینہ کی مقدس سرزمین حجاز سے دستبرداری اختیار کرلی۔ ان کے ضمیر اور ایمان نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ مقدس اور حرمت والی زمیں پر مسلمانوں کے خون کا کوئی قطرہ بہے۔ تاریخ نے ایک عبرتناک داستان رقم کردی جس سے ھماری نئی نسل بے خبر ھے ۔
اس عظیم فتنے اور سازش کے نتیجے میں جو کچھ بدنصیب مسلمانوں کو دیکھنا پڑا ،اس کا مختصر سا خاکہ کچھ اس طرح نظروں کے سامنے رقص کرتا ہواظاہرہوتا ھے :-
(1)- انگریزوں کی سازش اور ان کے جاسوسی "اسلامی کارندے” ایک نئی جماعت اور نام نہاد علماء کے طبقے کو سامنے لانے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک معتدل دین حنیف کی جگہ، نئے انتہاپسند اور تکفیری قسم کے اسلام کو متعارف کر گئے جو وہابی ازم کے نام سے دنیا بھر میں جانا جاتاھے ۔محمد بن عبدالوہاب نامی ایک مشکوک اور مشتبہ شخص کو ایک مصلح ،ایک عالم ،ایک طاقتور تنظیم کار کے روپ میں پروجیکٹ کیاگیا ۔اسے پونڈ، دھن دولت ،اسلحہ اور طاقت سے لیس کراکے باقی تمام علماء حق اور اہل سنت کو سر زمین حجاز سے پر تشدد طریقوں سے منظر نامے سے ہٹادیاگیا۔ بے مثال مظالم اور سختیاں عملا کر ایک نئے مذہب کو اہل عرب پر مسلط کیاگیا۔ جید علماء اور سکالرز کو یاتو قتل کرایا گیا یا ملک بدری پر مجبور ۔ کچھ جیلوں میں سڑ دیے گئے ،مارے گئے اور کئی لوگوں کی جبری طورزبان بند کردی گئی۔
(2)-
خلافت عثمانیہ کی جگہ ایک کٹھ پتلی بادشاہ اور السعود خاندان کو عربوں پر مسلط کردیاگیا ، جس طرح امریکہ آجکل مسلمان ملکوں پر قبضہ کرکے پھر وہاں کٹھ پتلی حکمرانوں کو اقتدار پر بٹھاتاھے۔ حجاز شریف کا نام بدل کر اسے غدار السعود خاندان کے نام پر سعودی عربیہ رکھ دیاگیاجو نجد کے اصلی باشندے تھے ۔
(3)-انگریزوں نے اپنا خفیہ اور طاقتور نیٹ ورک کام میں لاکر السعود ہاوس اور محمد بن وہاب نجدی کے درمیان ایک ایسا معاہدہ طے کرایا کہ وہابیوں کو مذہبی شعبہ پر کلی اختیار اور السعود گھرانے کو کو بادشاہت پر مکمل اختیار دیاگیا۔ یہ بالکل صلیبیوں کے ٹریڈیشن Christiandom اور کسی حد تک ان کے Papacy کا ہوبہو ماڈل تھا۔ وہاں بھی پادریوں کو اپنا حصہ الگ تھلگ کرکے دیا جاتا تھا اور بادشاہوں کو اپنا حصہ الگ۔ دونوں کے درمیان خاندانی رشتے بھی طے ہوگئے ۔ آج تک یہی خاندان اور نیٹ ورک سعودی عربیہ پر امریکیوں اور ویسٹ کی بھر پور آشیرباد سے قابض ھے اور کسی دوسرے عالم ،اسلامی لٹریچر، اسلامی تنظیم کو یہاں پر ٹکنے کی کوئی اجازت نہیں ھے ۔
(4)- وہابیوں نے اسلام کی وہی تشریح اور تعبیر کردی جو انگریزی جاسوس علماء کے روپ میں کرتے آئے تھے۔ مسلمانوں کو لڑانا اور آپسی قتل و غارتگری کو جہاد قرار دینا ۔ مسلمانوں کو کافر اور مشرک قرار دے کر ان کے قتل کا جواز پیدا کرنا۔ شیعہ-سنی فسادات اور بنیادی حقوق پر شب خون مارنا ۔ ائمہ اربعہ کو گمراہ بلکہ بعض اوقات مشرک قراردینا۔ [[آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ محمد بن وہاب نجدی نے درود شریف پڑھنے والوں کو قتل کردیا، اور جب کوئی مسلمان ان کی وہابی جماعت میں آکر اس کے ہاتھ پر بیعت کرتاتھا تو اسے کہا جاتا تھا کہ پہلے اقرار کرو کہ اس کے اسلاف اور خود وہ صحیح دیں پر نہیں تھے لہذا نئے سرے سے کلمہ پڑھادیاجاتاتھا یعنی تب تک کے دور کو مشرکانہ اور غیرمسلم دور قرار دیاجاتا ۔]]
کربلا پر یزیدی فوج کی طرح حملہ کرکے اس کی بے حرمتی کرنا۔ لاکھوں مسلمانوں کو ذبح اور تہہ تیغ کرنا۔ روضہ رسولﷺ کی بے حرمتی کرنا اور اس کو لوٹنا ، گنبد خضری کو ڈھانے کی کوشش ہی نہیں بلکہ رسول پاک ﷺ کے جسم مبارک کو بھی کسی انجان مقام کی طرف منتقل کرنا بھی ان کا منصوبہ رہاتھا جو عالمی دباؤ کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا۔ اہل بیت کے مقدس مقبروں کو تہس نہس کرنا، رسول رحمت ﷺ سے منسوب اھم مقامات کو بدلنا یا ان کو مسمار کردینا وغیرہ سب کچھ ان کے ایجنڈے اور مشن میں شامل رہاھے۔
(5)- ایک اھم بات یہ ہوئی کہ سعودی بادشاہ تا حیات انگریزوں کیساتھ ایک خفیہ معاہدے میں جڑ چکے ھیں جس کے تحت یہ دونوں اکٹھے ہو کر مسلمان ملکوں پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ھیں ۔ وہابی مساجد،درسگاہوں ،دارالعلوموں ، مولویوں کے ایک مضبوط نیٹ ورک کے ذریعے وہابی ازم اور "جہادی” کلچر پھیلاتے اور وہاں خانہ جنگی کا ماحول برپا کرتے ھیں امریکہ ساتھ میں یا بعد میں آکر اس ملک کے وسائل کو اپنے قبضے میں کرتاھے ۔ یہ طریقہ تمام مسلمان ملکوں کے خلاف انہوں نے اکٹھے طور پر اپنایا ھے، جہاں پر امریکہ مخالف یا روس موافق حکمران تھے ۔ سیریا، لیبیا، عراق، افغانستان وغیرہ کو اسی وہابی – امریکہ الائنس نے برباد کردیا ۔ القاعدہ ، داعش، طالبان وغیرہ اسی گیم اور کھیل کا تماشہ ھے ۔ بن سلمان نے کچھ سال پہلے کھلے طور پر اس مشترکہ الائنس اور گیم کا اقرار بھی کیاھے جب انھوں نے میڈیا پر آکر تسلیم کیا کہ وہابیت اور جدید جہادی کلچرامریکہ اور ویسٹ کے کہنے پر دوسرے ملکوں کو برآمد کیاگیا۔
(6)-
وہابی ازم نے پٹرو ڈالر کو بطور کرپشن استعمال کیا اور سعودی حکومت کے طاقت کا سہارا لیکر اسلام کا حلیہ ہی بدل ڈالا۔ چونکہ سعودی خاندان اور وہابی دونوں انگریزوں کی اولاد اور پیداوار ہیں لہذا دونوں نے اپنے ھدف و مفاد کو سامنے رکھ کر نہ صرف Pro America (امریکی مفادات کو بڑھاوا دینے والا) لٹریچر اور اسلام تخلیق کیا بلکہ دونوں کے درمیان باضابطہ اشتراک عمل اور تعاون بھی رہاھے۔ امریکہ کو کمیونزم ہرانے کیلئے ، روس کو شکست دینے کیلئے اور اپنی اکیلے کی عالمی چودھراہٹ جمانے کیلئے ایک بہت بڑے آپریشن ( آپریشن سائیکلون ) اور وسیع تر منصوبے کی ضرورت پڑی تو اس نے سعودیوں کو ساتھ ملا کر اور وہابیوں کو استعمال کرکے ایک ایسے اسلام اور جہاد کی تخلیق اور تشہیر کردی ،جس کی اسلام میں گنجائش ہی نہیں نکلتی تھی۔ آپ حیران ہوں گے کہ ازہر یونیورسٹی سے لیکر دیوبند تک سب بک گئے اور سعودیوں کے پٹروڈالر اور وہابی ازم کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ جماعت اسلامی سے لیکر اخوان المسلمون سب پر وہابی ازم کا تسلط اور سعودیوں کے پٹرو ڈالر کا غلبہ ھوگیا ۔ اب اسلامی جماعتیں ،دارالعلوم ، مولوی و مفتی ، ادارے اور دانشگاہیں ، انٹلیکچول اور صحافی ، پروفیسر اور سیاستدان، سبزی کی طرح بکنے لگے اور کرپٹ ہوتے گئے۔ اب اسلام وہی اسلام مشہور اور رائج ہوا جس پر سعودی مہر لگتی ، جو وہابی ایڈ کے بل بوتے پر پریس سے چھپتا ، مغرب کے سیمیناروں اور دوروں سے قلم میں اتر جاتا، جو سی آئی اے کا منظور نظر ہوتا اور ان کے "جہادی ” نظریئے میں فٹ آتا یعنی جو عالم، سکالر، ادارہ، تنظیم وہابی فکر کی تشہیر و ترجمانی کرتا وہی معیاری اور اصلی اسلام کہلاتا ۔
آپ کو یقین نہ آئے تو 60 یا 70 دہائی کے پہلے دیوبندی اور ازہری یا ندوی عالم کا تقابلی مطالعہ 1960 عیسوی کے بعد لکھی جانے والی کتابوں ،فتووں اور تشریحات سے کیجئے تو آپ دھنگ رہ جائیں گے ۔ صرف افغان جہاد کا ریسرچ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ جماعت اسلامی جیسی تنظیموں اور دیوبندی علماء (اس مکتب کی شاخیں پاکستان اور افغانستان تک پھیلی ہوئی ہیں ) اور دارالعلوم نے کتنے ملین ڈالر امریکہ سے حاصل کئے ہیں۔ دستور زمانہ ھےجس کا روپیہ کھایاجاتاھے تو کام بھی اسی ہی کا کرنا پڑتا ھے لہذا شدت پسندی ،انتہا پسندی اور جہاد کی بگڑتی تعبیر سے تشکیل پایاجانے والا اسلام اب اصلی اسلام قرار پایا جو کہ حقیقت میں امریکہ سے ڈکٹیٹ ہونے والا ایک نئے ایڈیشن کا اسلام تھا۔ پاکستان اور افغانستان کے دینی مدارس میں جو اسلامی کتابیں بلکہ روس تک جو قرآن کے ترجمے پڑھائے جاتے وہ سی آئی اے کے تیار کردہ امریکہ سے چھپ کر آتے ۔ اسی اسلام سے بننے والا مسلمان آج آپ کو طالبان ، لشکر ، جیش ، القاعدہ، النصر، اخوان ، جماعت اسلامی ، النور ، داعش وغیرہ میں نظر آئے گا۔ کشمیر میں سلفی ازم کے نام پر جو اسلام آج دکھتا ھے یہ نوئے کی دہائی میں ملی ٹینسی کیساتھ تحریک المجاہدین نامی عسکری تنظیم اور لشکر و جیش جیسی ملی ٹینٹ جماعتوں کیساتھ درآمد ہواھے ورنہ اسے پہلے یہاں آٹے میں نمک کے برابر ہی لوگ وہابی نظر آرہے تھے۔ وہابی ازم کے بارے میں میرے خیالات کسی تعصب اور افواہ بازی پر مبنی نہیں بلکہ اس تعلق سے میں مسلسل کئی دہائیوں سے تحقیق کرتا آیا ہوں ۔ بہت ساری کتابیں اور تحقیقی آرٹیکلز اس راز سے پردہ اٹھاتی ہیں ۔ مثال کے طور پر یہاں میں صرف ایک تحقیقی مضمون کو شامل کرتا ھوں جو ڈاکٹر عبداللہ محمد نے لکھا ھے :