از:ڈاکٹر جی ایم بٹ
کشمیر میں سوچھتا تحریک کا اچھاخاصا اثر دیکھنے کو مل رہاہے ۔ دیہی ترقی کے محکمے کی بیشتر سرگرمیاں اسی مہم کے تحت انجام پارہی ہیں ۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ سوچھتا ہی سیوا ہے ۔ یہ ایسا نعرہ ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اس سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے اس کام پر زور دیا ۔ انہوں نے صفائی کو آدھا ایمان قرار دیا ۔ بلکہ ہر عبادت کے لئے صفائی کو لازمی قرار دیا گیا ۔ اس سے گویا اسلامی عملیات کی بنیاد صفائی پر ہی رکھی گئی ۔ بعد میں دل کی صفائی پر زور دیا گیا ۔ اس کے لئے تقویٰ کی اصطلاح استعمال کی گئی ۔ تقویٰ کا لفظ قرآن و احادیث دونوں میں نظر آتا ہے ۔ اس طرح سے اسلام نے اندر اور باہر دونوں مقامات کو صاف رکھنے پر زور دیا ۔ اندر اور باہر کی اس صفائی کا ہی نتیجہ ہے کہ صحیح اسلامی معاشروں کے اندر ایسا توازن پایا جاتا تھا جس نے دنیا کو ایک طویل عرصے تک اپنا گرویدہ بنالیا ۔ مسلمان جہاں بھی جاتے تھے وہاں کا سارا نظام سے ہی الٹ پلٹ ہوجاتا اور لوگ اسلام کے شیدائی بن جاتے ۔ دنیا آج صفائی کے حوالے سے سنجیدہ نظر آرہی ہے ۔ اس حوالے سے ماحولیات کو صاف رکھنے کے علاوہ گلی کوچوں اور سڑکوں کی صفائی پر زور دیا جارہاہے ۔ انسانی زندگی کے لئے صفائی کو بڑا اہم مانا جاتا ہے ۔ بیماریوں کو انسانی جسم اور ماحول سے دور رکھنے کے لئے صفائی پر زور دیا جارہاہے ۔ مغربی ممالک میں رہنے والوں نے بہت پہلے سے ان باتوں کو سمجھا اور سمجھنے کے ساتھ ان کو اپنایا بھی ۔ وہاں ہر فرد اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف رکھنے کی کوشش کرتا ۔ ہر کوئی اپنا رول ادا کرتا ۔ اس وجہ سے ظاہری گند ہی صاف نہیں ہوئی بلکہ پوری معاشرتی زندگی اپنے طور بڑی دلکش بن گئی ۔آج وہاں اندر اور باہر کہیں بھی گندگی کا کوئی ذرہ نظر نہیں آتا ہے ۔ وہاں کی سڑکیں آئینے کی طرح چمکتی ہیں اور عوامی مقامات صفائی کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں ۔ جہاں بھی جائے گندگی کا ایک ذرہ بھی نظر نہیں آتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ صفائی کرمچاریوں کو بہت کم کام کرنا پڑتاہے ۔ وہاں کا ہر شہری اپنے طور کوشش کرتا ہے کہ ماحول کو صاف رکھا جائے ۔ ہر شخص ایک ذمہ دار شہری بن کر اپنا رول ادا کرتا ہے ۔ کہیں گندگی نظر نہیں آتی ہے ۔ اداروں کو بھی متاثر کن ہیئت دی گئی ہے ۔تمام دفتر ، ہسپتال ، پارکیں ، سڑکیں ،آبی ذخائر اور دوسرے مقامات صفائی کے آئینہ دار ہیں ۔ گھروں میں گندکو برداشت کیا جاتا ہے نہ دفتروں کو آلودہ کیا جاتا ہے ۔ کسی کی مجال نہیں کہ دفتر آنے والے سائل کے ساتھ سختی یا ترش روئی سے پیش آئے اور اس کو رشوت دینے پر مجبور کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں صاف رہنے اور آلودگی سے بے زاری دکھانے کے لئے لوگوں کو مجبور نہیں کرنا پڑتا ہے ۔ سڑکوں پر گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں نہ دفتروں میں گندگی پھیلانے والے مردہ ضمیر ملازم دیکھے جاتے ہیں ۔
ہمارا اور ہمارے اداروں کا سارا زور باہر کی گندگی دور کرنے پر ہے ۔ دینی حلقے بھی ظاہر ی رنگ وروپ کو بہتر بنانے کی تعلیم دے رہے ہیں ۔ اس وجہ سے ایسے لوگ پیدا ہورہے ہیں جو بہ ظاہر صاف و شفاف ہیں ۔ زرق برق لباس میں ملبوس ہیں ۔ سفاری سوٹوں ، قمیض پاجاموں اور ایسے ہی قیمتی سوٹوں میں ملبوس ان لوگوں کی ظاہری ہیئت سے ہر کوئی دھوکہ کھاتا ہے ۔حالانکہ یہ لوگ اندر سے غلاظت سے بھرے پڑے ہیں ۔ ان لوگوں کی موجود گی کی وجہ سے گلی کوچوں اور سڑکوں کی صفائی سے ہماری زندگی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑرہاہے ۔ ان جگہوں کو صاف رکھنے کے لئے ہنگامے کئے جاتے ہیں ۔ پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں ۔ گیت گائے جاتے ہیں ۔ بورڈ آویزان کئے جاتے ہیں ۔ جلسے جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ڈھیر سارے پیسے خرچ کئے جاتے ہیں ۔ باہری دنیا بہ ظاہر صاف ہوتی ہے ۔ لیکن اندر کی دنیا بنجر اور ویران ہوجاتی ہے ۔ کسی کو اطمینان میسر نہیں آتا ہے ۔ ہر روز ملازم رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں ۔ دھوکہ دہی زور پکڑتی جارہی ہے ۔ اغوا کاری روزمرہ کا معمول ہے ۔ فرضی کاموں کے لئے جعلی بلیں نکالی جاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ دین کے نام پر لوگوں سے چندہ اور سرکار سے فنڈس حاصل کئے جاتے ہیں ۔ اس طرح کے کاروبار کے زیر اثر جو معاشرہ تیار ہوگا وہ کبھی بھی احتساب کے لئے تیار نہیں ہوگا ۔ وہاں خود احتسابی کسی بھی صورت میں جگہ نہیں پائے گی ۔ وہاں صفائی کے کام انجام دینے کے باوجود ضمیر ہمیشہ آلودہ ہی رہیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات پر زور دیا جارہاہے کہ باہر کی گندگی سے زیادہ اندر کی گندگی دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ سڑکوں کے بجائے دفتروں کو صاف و پاک بنانے کی ضرورت ہے ۔ جو لوگ جھاڑو لے کر سڑکوں کی صفائی کے لئے آگے آتے ہیں ۔ انہیں ایسا کام کرنے پر مبارک باد دی جاسکتی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ضروری ہے کہ دفتروں سے وہ گندگی دور کریں جس کے بد بو نے پورے شہر اور پورے کشمیر میں بدبو پھیلا دیا ہے ۔ دفتروں میں موجود گندے انسانوں سے عوام کو نجات دلانا ضروری ہے ۔ یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ایسے گندے لوگوں کو عوام کے سروں پر سے اتارنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی ۔ کوئی سوچھتا مہم نہیں چلائی جاتی ہے ۔ کوئی سیوا نہیں کی جاتی ہے ۔ سوچھتا کا ایسا کام سیب سے بڑی سیوا ہے ۔ ایسے گندے لوگوں کے عوام کے سروں سے اتارا جائے تو سوچھتا کا بہتر کام انجام پائے گا ۔ سوچھتا کی ایسی مہم سیوا بھی ہے اور ثواب بھی ہے ۔ اس طرح سے دنیا اور آخرت دونوں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی ۔