نیو ایج اسلام
اگر کوئی جیب کترا اپنے بیٹے کو جیب کترنے کی تربیت دیکر چھوڑ دے تو ضروری نہیں کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو جیب کترنے تک ہی محدود رکھے گا بلکہ وہ وقت کے ساتھ اور ضرورت کے تحت اور صحبت کے زیراثر ڈاکہ ڈالنے کی راہ پر چل پڑے گا۔ اس وقت اس کے باپ کی یہ دلیل کہ اس نے تو اپنے بیٹے کو صرف جیب کترنے کی تربیت دی تھی اس لئے اس کی ڈاکہ ذنی کا وہ ذمہ دار نہیں ہے مضحکہ خیز ہوگی۔۔ بیشک قانونی طور پر وہ اپنے بیٹے کی ڈاکہ زنی کا ذمہ دار نہیں ہوگا لیکن وہ اپنے بیٹے کی مجرمانہ ذہن سازی اوراس کو جرم کی راہ پر لگانے کا ذمہ دار ضرور ہوگا۔
یہی حال مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ہے۔ جب کسی مذہب کے پیروکاروں میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا جاتا ہے تو یہ انتہا پسندی رفتہ رفتہ کچھ پیروکاروں میں دہشت گردانہ خیا لات و نظریات کو فروغ دہتی ہے اور پھر ان کا ایک گروہ دہشت گردی کی راہ پر نکل پڑتا ہے۔اس طرح مذہبی انتہا پسندی دہشت گردی کی پیش رو ثابت ہوتی ہے۔ 80ء کی دہائی میں یندوستان کی ایک اسلامی تنظیم کی طلبہ شاخ قائم ہوئی۔ یہ تنظیم مذہبی امور میں انتہا پسندانہ نظریات کی تبلیغ و اشاعت کرتی تھی۔ لہذا، اس تنظیم سے وابستہ طلبہ اورنوجوانوں میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ہوا۔چند ہی برسوں کے بعد اس اسلامی تنظیم کی طلبہ شاخ پر حکومت وقت نے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا اور سینکڑوں کارکنان کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور اس طلبہ تنظیم پرپابندی لگا دی گئی۔ اسلامی تنظیم نے اپنی اس طلبہ شاخ پر غلط راہ پرچل پڑنے کا الزام لگا کر اس سے پلہ جھاڑ لیا اور طلبہ کی ایک نئی شاخ نئےنام سے قائم کی۔
لیکن کیا وہ اسلامی تنظیم یہ کہہ کر اپنی طلبہ شاخ سے پلہ جھاڑ سکتی ہے کہ اس کے کارکنان غلط راہ پر چل پڑے تھے۔جب استاد اپنے شاگرد کو انتہاپسندی اور کٹر پسندی کی تعلیم دے گا تو طالب علم ایک دن دہشت گردی کی راہ پر چل پڑے گا۔ پھر استادکی یہ دلیل کہ اس نے تو اپنے شاگرد کو صف انتہا پسندی کی تعلیم دی تھی دہشت گردی کی نہیں قابل قبول نہیں ہوگی۔کیونکہ جب انسان غلط راہ پر چل پڑتا ہے تو پھر وہ بدی کی نئی نئی سنگ میل پار کرتا جاتا ہے۔
آج اسلامی دنیا میں دہشت گردی عروج پر ہے۔ دنیا کا کوئی اسلامی یا غیر اسلامی ملک نہیں ہے جہاں انتہا پسند تنظیمیں اور دہشت گرد گروہ سرگرم نہیں ہیں۔ ایشیا ، افریقہ ، امریکہ ، یوروپ ، افریقہ دینا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں دہشت گرد تنظیمیں سرگرم نہیں ہیں اور ان دہشت گرد تنظیموں کو اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کوجواز یہ انتہا پسند مذہبی تنظیمیں اور ان سے وابستہ انتہا پسند علماء اور فقہاء عطا کرتے ہیں۔ یہ علماء دینی امور میں اعتدال کا راستہ چھوڑ کر انتہا پسندانہ طرز فکر وعمل کی اشاعت کرتے ہیں اور عام مسلمان ان انتہا پسند علماء کی آراء کو قرآن اور حدیث کا حکم سمجھ کر اپنالیتے ہیں اور انتہا پسندی کی راہ پر چل پڑتے ہیں جو بعض دفعہ دہشت گردی کی کھائی تک لے جاتی ہے۔
آج اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں خلافت ، اشاعت دین اور توہین مذہب کے نام پر دہشت گردی ، تشدداور خون خرابہ عام ہے اور اس خون خرابہ اور دہشت گردی کے شکار غیر مسلم۔تو ہیں زیادہ تر شکار مسلمان ہیں۔ اس کی وجہ خلافت ، اشاعت دین اور توہین مذہب پر انتہا پسند علماء کے نظریات اور آراء ہیں۔ایک عام مسلمان حکم اور رائے میں فرق نہیں سمجھتا ۔ وہ کسی عالم۔دین یا علماء کی ذاتی رائے کوبھی قرآن اور حدیث کا حکم سمجھتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ عام مسلمان قرآن اور حدیث سے نابلد ہے بلکہ اسے منصوبہ بند طور سے قرآن اور حدیث سے دور رکھا گیا ہے تاکہ وہ اپنے مسلک کے علماء کا غاشیہ بردار بنا رہے ۔ قرآن مسلمانوں کو امت وسط کہتا ہے اور اعتدال پسندی اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہے جبکہ انتہا پسند علماء مسلمانوں کو کسی ایک انتہا پر قائم رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے انکے سیاسی ، سماجی اور مسلکی مفادات محفوظ رہتے ہیں جبکہ امت ان کے ذاتی نظریات اور رائے کی وجہ سے انتشار ، قتل و غارت گری اور تشدد کے چکرویوہ میں پھنس چکی ہے جس سے نکلنے کی سبیل اسے نظر نہیں آتی۔ انتہا پسند مذہبی نظریات کی وجہ سے مسلم معاشرے میں آئے دن خون خرابہ اور تشدد ہوتا رہتا ہے لیکن علماء کی طرف سے اس کی مذمت بھی نہیں کی جاتی کیونکہ وہ جانتے ییں کہ یہ تشدد اور خون خرابہ مسلمان انہی علماء کی کتابوں کو پڑھ کر یا انکی تقریروں کو سن کربرپاکرتے ہیں ۔
لہذا، اگر رہشت گردی کو مسلم معاشرے سے پوری طرح سے ختم کرنا ہے تو اسلامی ثانوی لٹریچر کو انتہا پسند نظرہات سے پاک کرنا ہوگا اور علماء اورمفسرین کو دین کی اعتدال پسند تفسیر اور تشریح پیش کرنی ہوگی۔دین کی اعتدال پسند تفسیر تب ہی ممکن ہے جب دین کی تفہیم و تفسیر قرآن اور حدیث کی روشنی میں کی جائے انتہا پسند علماء کی تفسیر اور آراء کی روشنی میں نہیں۔