از۔ محمد انیس
برصغیر میں تقریباً سو ڈیرھ سو سال سے بہت سارے ملی ادارے چندے پر چل رہے ہیں۔ مدارسِ اسلامیہ کا پورا ڈھانچہ اسی پر ٹکا ہوا ہے ۔ بلکہ اب تو ایک ایک محلے میں کئی کئی مدرسے کھل گئے ہیں۔ لیکن دیکھئے کہ ان اداروں سے اب کس معیار کے افراد نکل رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چندہ کسی مسئلہ کا مستقل حل نہیں، اور نہ کوئی قوم اس کے سہارے مطلوبہ معیار تک پہنچ سکتی ہے ۔
قوم کو اٹھانے کیلئے پورے چندہ سسٹم کو ختم کرنا ہوگا، تب جاکر یہ قوم امامت و سیادت کے بارے میں سوچ سکتی ہے ۔ چندہ کے سہارے کوئی قوم اپنا وجود تو برقرار رکھ سکتی ہے، مگر اس سے کسی قوم کو اٹھایا نہیں جاسکتا ۔ یعنی چندہ سے کسی قوم کا survival ہوسکتا ہے revival نہیں ۔
غور کیجی ۓ کہ چندہ وصولی کیا ہے ؟ یہ ہنگامی حالات میں ایک عارضی انتظام کا نام ہے، کیونکہ فوری طور پر کوئی دوسرا انتظام ممکن نہیں ہوتا۔ یہ کسی مسئلہ کا مستقل حل نہیں ۔ رشید لےکر گھر گھر چندہ وصول کرنا ایک ہنگامی حالت ہوسکتی ہے مگر سالہا سال تک اس حالت کو برقرار رکھنا کسی قوم کیلئے موزوں نہیں ۔ جو قوم اسے مستقل طور پر اختیار کرے گی وہ مسابقت کے دور میں دوسری قوموں سے پیچھے رہیگی۔ اس لئے کہ چندے سے چلنے والا کوئی بھی ادارہ مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچ سکتا۔ لہذا چندے کے سہارے کوئی قوم سیادت کے مقام تک نہیں پہنچ سکتی، اور نہ خیر امت کا کردار ادا کرسکتی ہے ۔
یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ چندہ سسٹم کو ہم نے مستقل طور پر اختیار کرلیا ہے ۔ہماری زکوٰۃ کی رقم کا ایک بڑا حصّہ مدرسے کی نذر ہوجاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جہاں ایک طرف بھکاریوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے وہیں دوسری طرف پیشہ ور رشید بردار صاحبان بھی ہر چہار سو نظر آتے ہیں ۔ اب اس سسٹم پر نظرثانی کی ضرورت ہے ۔ اس لئے کہ کوئی قوم مسابقت سے ہی ترقی کرتی ہے ‘ چندے کے نظام سے نہیں ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ مسلم معاشرہ میں نئے تقاضوں کے تحت بیداری لائی جائے، چندے کے نظام پر نظرثانی کی جائے یا کم از کم اس کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔
اب رہا یہ سوال کہ چندے کا نظام نہ ہو تو مدارس اسلامیہ کیسے چلیں گے ۔ مدرسے کا پورا ڈھانچہ تو چندے پر ہی قائم و دائم ہے۔ دراصل اصل مسئلہ یہی ہے اور بظاہر یہ ایک ناقابلِ حل مسئلہ معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ غور و فکر سے سارے مسائل کے حل نکل آتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ دائمی امراض کیلئے کڑوی دوائوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی طرح چندہ سسٹم کو ختم کرنے کیلئے کچھ غیر مقبول قدم اٹھانے ہونگے ۔ سب سے پہلے ان عوامل کو روکنا ہوگا جن کی وجہ سے مدرسے کا بجٹ حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔ ان میں سب سے اہم فیکٹر ھے مدرسے کے داخلے میں امدادی طلباء کی کثرت ۔ اگر امدادی طلباء کی تعداد دس فیصد سے کم رکھی جائے تو چندہ سسٹم پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ جو لوگ تعلیم کا خرچ بالکل نہ اٹھا سکیں انہیں سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کرنی چاہئے، یا پھر وہ کوئی پروفیشنل کورس کریں اور پھر روزگار کرکے اپنے اہل وعیال کی کفالت کریں۔ مدرسے میں نادار طلبہ پڑھیں گے تو تعلیم مکمل ہونے کے فوراً بعد ان کے سامنے روزگار کا مسئلہ آتا ہے۔ چنانچہ فارغ ہوکر وہ بھی رشید پکڑلیتے ہیں ۔ اس طرح یہ ایک سلسلہ (سائیکل) ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا، اور زوال کی حالت بدستور قائم رہتی ہے ۔
مدارس کی تعلیم کے نتیجے میں اگر محتاج علماء پیدا ہوتے ہوں تو اس کی ضرور اصلاح ہونی چاہئے ۔ اس کا واحد حل یہی ہے کہ مدرسے میں امدادی داخلےکو آخری حد تک کم کردیا جائے۔ اس کے بعد بھی جو امدادی طلباء ہوں، تعلیم مکمل ہونے کے فوراً بعد ان کو لازمی طور پر skill training دی جائے تاکہ مدرسہ سے نکلنے کے بعد ان کے سامنے روزگار کا مسئلہ نہ رہے ۔ اس کے بعد آگے چل کر آپ سے آپ چندہ کا نظام ختم ہوجائے گا ۔
چندے کا نظام کوئی باعزت نظام نہیں ، بلکہ اس میں ذلت کا عنصر موجود ہے ۔ مگر مذہب کی آڑ میں اسے لوگ سالہا سال سے اختیار کرتے جارہے ہیں۔ انتہا یہ کہ اب لوگ تعمیر مسجد کیلئے بھی رشید چھپوا لیتے ہیں۔ گاؤں محلے کے لوگ تعمیر مسجد کا منصوبہ بناتے ہیں اور رشید چھپواکر فوراً دور دراز کے علاقوں کا سفر باندھتے ہیں ۔ شریعت میں ایسی وصولی کا کوئی جواز نہیں ۔ گاؤں کے لوگ رہنے کیلئے گھر بناتے ہیں تو عبادت کیلئے مسجد کیوں نہیں بنا سکتے ؟ ہر جگہ عالیشان مسجد بنانا تو ضروری نہیں۔ پھوس، چھپراور کچی مسجدیں بھی عبادت کیلئے کافی ہوتی ہیں۔ تعمیر مسجد کیلئے باہر کے لوگوں سے پیسہ مانگنے کا آخر کیا جواز ھے ؟ یہ کیسی ستم ظریفی ھے کہ نماز تو گاؤں والے پڑھیں اور چندہ باہر کے لوگوں سے اگاہی جائے ۔ جس طرح ایک گھر کا انتظام اہل خانہ کرتے ہیں ، مسجد کا انتظام بھی اہل محلہ کو کرنا چاہئے ۔مسجد کا انتظام و انصرام باہر کے لوگوں کی ذمہ داری نہیں ۔