از:سہیل ارشد
جب مکہ میں اسلام کا آغاز ہوا اس وقت پورے مکہ میں صرف سترہ افراد خواندہ تھے۔ مکہ کے زیادہ تر لوگ بت پرست تھے اور ان میں تعلیم کا رواج نہیں تھا۔ یہودیوں میں تعلیم کا رواج تھا لیکن وہ دوسری قوموں میں تعلیم کا فروغ نہیں چایتے تھے کیونکہ جاہل لوگوں کا مال ہڑپنا اور ان کے ساتھ لین دین میں بے ایمانی کرنا اسان تھا۔ بلکہ وہ یہ بھی کہتے تگے کہ ان پڑھ لوگوں کا مال ہڑپ لینے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
تعلیم سے دوری صرف عرب معاشرے میں یی عام نہیں تھی بلکہ دنیا کے دوسرے خطوں اور قوموں میں بھی تعلیم کا چلن عام نہیں تھا اور نہ ہی ہر شخص کو علم۔حاصل کرنے کے قابل سمجھا جاتا تھا۔ تحریری علم کا وجود نہ ہونے کی وجہ سے بھی تعلیم و تعلم کا نظام قائم نہیں ہوسکا تھا۔ علم کو کچھ خاص لوگوں کی میراث سمجھا جاتا تھا۔ہندوستان میں تو برہمن طبقہ دوسرے تمام طبقوں کو علم سے محروم رکھتا تھا۔ برہمنی نظام۔میں گروکل ہوتے تھے جہاں کوئی عالم یا پنڈت صرف منتخب لڑکوں کو ہی تعلیم دیتے تھے اور انہیں اپنی شاگری میں لینے سے قبل ان کا امتحان لیتے تھے۔ گویا اسکول۔میں داخلے سے پہلے انٹرنس ٹیسٹ ہوتا تھا۔ علم حاصل کرنے والے کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ ذہنی و اخلاقی طور پر علم کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل ہو۔لہذا، عالم وہی ہوسکتا تھا جو بلند اخلاق اور باضمیر بھی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی عالم صرف ایسے افراد کو یی علم حاصل کرنے کے قابل سمجھتا تھا جو علم کے تقاضے پورے کرسکتا ہو۔
لیکن اس طریقہء کار یا نظام تعلیم کا ایک نقصان یہ ہوا کہ ایک خاص طبقے نے علم۔پر اپنی اجارہداری قائم کرلی اور مذہبی امور کی انجام دہی کا حق اپنے پاس رکھ لیا۔ اس تعلیمی نظام نے نچلے طبقے یا غیر تعلیم یافتہ طبقے کا استحصال کیا اور ان کے ساتھ ظلم اور انصافی روا رکھی۔
رفتہ رفتہ علم کو فروغ ہوتا گیا اور کاغذ کی ایجاد نے علم کے فروغ کی رفتار کو مہمیز کیا۔ ساتویں صدی میں اسلام نے مذہبی طور پر آفاقی تعلیم کا نظریہ ہءش کیا اور ہر مسلمان مرد وعورت پر علم۔حاصل کرنا فرض قرار دیا۔ قرآن نے بھی علمی تحقیق اور جستجو پر کافی زور دیا۔ قرآن کی سینکڑوں آیات میں علم سیکھنے اور سکھانے ، غور وفکر کرنے اور علمی مذاکرات کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ہم۔میں سے بیشتر افراد اسلام میں علم کی اہمیت کو ثابت کرنے کے لئے سورہء علق کے ہہلے لفظ اقرا کا حوالہ دیتے ییں ۔ اقرا کا معنی ہے پڑھ۔ لیکن اس سورہ کے مخاطب حضور اکرم ﷺ ییں۔ عام مسلمانوں کے لئے دوسری سینکڑوں آیتیں ہیں جن میں علم حاصل کرنے ، اور دوسروں کو تعلیم دینے ، کائنات کے تمام شعبوں پر تحقیق و جستجو کرنے اور علمی بحث و مذاکرہ کرنے کی ہدایت اور حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
ابتدائی دور کے مسلمانوں نے قرآن کے اسی آفاقی تعلیم نظرئیے کی تقلید میں مدارس اور تجربہ گاہیں قائم کیں اور سائنس اور طب ، علم فلکیات اور طبیعیات ، سرجری اور دیگر سائنسی شعبوں میں قابل تقلید پیش رفت کی۔ جس کے بعد مغربی قوموں نے سائنس اور تکنالوجی کے شعبے میں قدم آگے بڑھایا۔
بہر حال ، اسلام نے علم اور تعلیمی نظام کا ایک الگ تصور پیش کیا۔ اسلام کے نزدیک علم اور ڈگریوں کے حصول کا مقصد صرف مادی ترقی اور دنیاوی آسائشوں کا حصول نہیں ۔ موجودہ تعلیمی نظام پروفیشنل تو ہیدا کرتا ہے لیکن اچھا انسان پیدا نہیں کرتا۔یہ تعلیمی نظام طالب علموں کو اخلاقی اقدار کا احترام نہیں سکھاتا اور ان میں انسانیت کے جذبات ہیدا نہیں کرتا۔ بلکہ کمپیٹیشن اور ملازمت کی دوڑ انہیں خود غرض اور مفاد پرست بنا دیتی ہے۔ علم ان کے نزدیک صرف ڈگریاں حاصل کرنے کا ذریعہ اور بہتر مادی زندگی کا وسیلہ بن کر رہ گیا ہے۔اس نظام سے نکل کر عملی زندگی میں قدم رکھنے والا شخص اخلاقی اقدار اور انسانیت کے احترام کے جذبے سے عاری ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک ہر دوسرا انسان اس کے لئے زیادہ روہئے کمانے کا ذریعہ ہے۔ اس نظام سے نکلنے والا ڈاکٹر ، انجینئر ، تاجر ، کسان ، صحافی ، وکیل ، جج وغیرہ انسانیت کے احترام اور خدمت کے جذبے سے عاری ہوتا ہے اور صرف اپنے مفاد کے لئے کام کرتا ہے اور اپنے مفاد کے لئے دوسرے انسانوں کے مفادات بلکہ ان کی زندگیوں تک کو قربان کردیتا ہے۔ آج اس تعلیمی نظام کے نقائص ہم ہر شعبے میں دیکھتے ہیں۔
اسلام نے سبھوں کے لئے تعلیم فرض قرار دیا لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ تعلیم اور علم کو,اخلاقی اور انسانی اقدار کا پابند بنایا۔اسلام کی نگاہ میں اخلاقی اقدار اور انسانی ہمدردی کے جذبات سے عاری انسان کا علم نہ اس کے کسی کام کا ہے اور نہ ہی اس کے معاشرے کے کام کا ہے۔ اسلام کی نگاہ میں علم نجات کا,ذریعہ ہے اور یہ نجات اسے انسانیت نوازی اور خدمت خلق کے ذریعہ ہی مل سکتی ہے۔پڑوسی کو اذیت دینے والا عالم جہنمی ہے چاہے وہ سارا دن روزہ رکھے اور ساری رات عبادت کرے۔ طعام المسکین کا فرض ادا نہ کرنےوالا نجات کی امید نہیں رکھ سکتا۔ خلق سے محبت اور خدمت خلق کےجذبے کے بغیر علم صرف سماجی مقام و رتبے کا وسیلہ تو ہوسکتا ہے نجات کا نہیں۔
آج کے عالمی معاشرے میں انسانی اقدار اور انسانی حقوق کی پامالی اسی لئے ہورہی ہے کہ علم کو صرف دنیاوی اور مادی ترقی کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں خون خرابہ، استحصال ، ناانصافی ، جنگ اور خانہ جنگی ہے جبکہ آج حکومتوں اور سرکاری شعبوں میں اعلی تعلیم یافتہ افراد ہی عوام کے متعلق فیصلے لیتے ہیں اور پالیسیاں بناتے ہیں۔ ان کے ذہن میں انسانی زندگیوں کا ذرا بھی احترام اور اپمیت نہیں ہے۔ اعلی سطح سے لے کر ادنی سطح تک ہر انسان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ایک چلتا پھرتا حیوان ہے۔ اس میں انسانی صفات اور جذبات کی بجائے حیوانی خصلتیں اور عادتیں ہیں۔ ہوائی جہاز میں بغل۔میں بیٹھی ہوئی بزرگ خواتن پر پیشاب کرنے والا شخص تعلیم یافتہ تھا۔ اس طرح کے سینکڑوں واقعات اور افراد جدید تعلیمی نظام کے کھوکھلے پن کو ثابت کرتے ہیں۔
لہذا، تعلیمی نظام کے اس بگاڑ کا مؤثر علاج اسلامی نظام تعلیم میں ہے جس میں علم کے حصول کے ساتھ ایمانداری ، قناعت ، انسانیت نوازی، حقوق العباد، خدمت خلق اور احترام انسانیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ کوئی بھی تعلیمی نظام ان قدار سے الگ رہ کر بہتر انسان اور بہتر معاشرہ تیار نہیں کرسکتا۔