آپریشن ٹوپیک ، "افغان جہاد” کی طرح مقامی لوگوں کی مفاد میں لڑا جانے والا معرکہ کم اور سی آئی آئے کے مفادات کو تقویت دینے والا اور امریکی اہداف کو پورا کرنیوالا زیادہ تھا۔ اگرچہ آئی ایس آئی نے اپنی ٹریڈ اور بزنس کو اس کے ذریعے خوب وسعت دی مگر یہ ایک بے سمت شورش کے سوا کوئی نتیجہ خیز عمل پاکستانیوں کیلئے ثابت نہ ہوا ۔ اس تخریبی گیم کو جنونی اور ہمہ گیر بنانے کیلئے اس پر اسی طرح اسلام کا سبز پینٹ چڑھادیاگیا جس طرح ماضی میں بنو امیہ اور بنوعباس مسلمانوں کے باہمی کشت و خون پراسلام کا لیبل لگاتے پھرتے تھے اس خونیں کارروائی میں پاکستان کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے مقدس ہاتھ بھی خون سے کچھ کم آلودہ نہیں ہیں جنہوں نے اس خون کو پوتر بنانے اور قتل و غارتگری کو جہاد کا جواز بخشنے کیلئے دارالعلوم کی نصابی کتب کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی بھی غلط تفہیم و تعبیرعام کرادی۔ سی آئی آئے کی ملٹری اور جیوپولٹیکل سٹریٹجی کو حاصل کرنے کیلئے ایک نئے طرز کے اسلام کو عربوں کی وساطت سے متعارف کرایا گیا جس سے دنیا ملی ٹنٹ اسلام یا وہابی اسلام کی سیاسی ٹرمنالوجی میں جانتی اور پہچانتی بھی ھے ۔ پاکستان نے اس ملیٹنٹ اسلام سے اپنا مطلب اور ہدف پانے کیلئے ہر طرح اور ہر لیول پر زور لگادیا۔ چنانچہ غزوہ ہند کی حدیث کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اور غیر معمولی طور پر مولویوں کے گلے میں ڈال کر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے آسلام کا پورا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ پاکستانیوں کے سپانسرڈ اور تحریف کردہ "اسلام” کی رو سے ہندوستان پر حملہ آور ہونا اور یہاں دہشت و خون کا ماحول گرم کرنا ایمان کا لازمی جز اور اسلام کا بنیادی کلمہ ھے۔ قرون اول کے صحابہ کرام نے غزوہ ہند کےمشن اور جنگ کو نامکمل چھوڑ کر اسے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور ملاوں کے حوالے کردیاھے تاکہ وہ پوری اسلامی غیرت کیساتھ اسے ہندوستان کے خلاف آزمائیں۔
ایک منظم تِخریبی پلان کے تحت غزوہ ہند کا رخ موجودہ بھارت کی طرف موڑدیاگیا۔ ڈاکٹر اسرار کے جہادی بیانات کو استعمال کرکے اور لال ٹوپی والے زید حامد کو میڈیا میں infiltrate کرکے اسے بہت بڑے فریضے کی مانند highlight اور پیش کیا گیا۔ پروفیسر حافظ محمد سعید اور شعلہ بیان مقرر مسعود اظہر کشمیری جیسے لوگوں کی تبلیغی اور "دعوتی” کیسٹوں اور ویڈیوز کو گھر گھر پھیلادیاگیا۔ جن میں ہند کے خلاف جہاد کا موضوع مرکزی حیثیت کا حامل ہوتا اور غزوہ ہند کی حدیث سنا سنا کر نوجوانوں کا خون گرما دیاجاتا۔ الیاس کشمیری جیسے کمانڈروں نے غزوہ ہند کیلئے باضابطہ جہادی یونٹس بھی کھول دیئے تھے۔
احادیث پر ایک نظر
جب اسلام کے ذخیرۂ احادیث کا جائزہ لیاجاتاھے توغزوہ ہند کوئی غیر معمولی اہمیت کی حامل دکھائی نہیں دیتی ھے جیسا کہ ہند و پاک میں اس کو پیش کیاجاتاھے ۔
سنن نسائی اور مسند احمد بن حنبل کے علاوہ اس کا کہیں پر کوئی ذکر نہیں ملتاھے ۔ بخاری ، مسلم ، سنن ابو داؤد، سنن ابن ماجہ ، ترمذی اسے خالی ہیں ۔ شیعہ کے ذخیرہ احادیث اور جعفری سکول میں یہ حدیث ملتی نہیں ھے۔ قرآن میں اس تعلق سے کوئی شہادت نہیں پائی جاتی ھے۔
غزوہ ہند کے بارے میں مروی احادیث میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
’’عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: وَعَدَنَا رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَةِ الْهِنْدِ، فَإِنْ اسْتُشْهِدْتُ کُنْتُ مِنْ خَيْرِ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُوهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ‘‘.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا تھا، سو اگر میں (ابوہریرہ) شہید ہو گیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا۔ اگر واپس آ گیا تو میں آزاد ابو ہریرہ ہوں گا‘‘۔
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 228، رقم: 7128، مؤسسة قرطبة، مصر. حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 3: 588، رقم: 6177، دار الکتب العلمیة، بیروت
’’عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ: وَعَدْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَزْوَةَ الْهِنْدِ، فَاِنْ اَدْرَکْتُهَا أُنْفِق فِيْهَا نَفْسِي وَمَالِي فَاِنْ اُقْتَل کُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَآءِ وَاِنْ أَرْجِع فَأَنَا اَبُوْهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ.‘‘
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ مسلمان ہندوستان میں جہاد کریں گے، اگر وہ جہاد میری موجودگی میں ہوا تو میں اپنی جان اور مال اللہ تعالی کی راہ میں قربان کروں گا۔ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں افضل ترین شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں زندہ رہا تو میں وہ ابو ہریرہ ہوں گا جو عذاب جہنم سے آزاد کر دیا گیا ہے‘‘۔
سنن النسائي، 3: 28، رقم: 4382، دار الکتب العلمیة بیروت
’’عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اﷲُ مِنْ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَکُونُ مَعَ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام‘‘.
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام تھے، سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا : ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا‘‘۔
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 278، رقم: 22449 سنن النسائي، 3: 28، رقم: 4384 البیهقي، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18381 الطبراني، المعجم الأوسط، 7: 2423، رقم: 6741، دار الحرمين القاهرة
حدیث لٹریچر میں غزوہ ہندکا مقام :
غزوہ ہند کی حدیثیں علمائے کرام اور سکالرز کے درمیان زبردست کنٹروورسی کا موضوع بنی ہوئی ھیں ۔ ایک بڑی تعداد اس کو قابل اعتبار اور صحیح نہیں مانتی ھے ۔ ماننے والے ایک چھوٹے سے حلقے کے اندر بھی اس بارے میں کوئی متفقہ رائے اور یکسیاں رحجان پایا نہیں جاتاھے ۔ مثال کے طور پر کچھ حضرات اس کو ماضی میں مکمل شدہ غزوہ سے تعبیر کرتے ھیں اور کچھ علماء اس کو آخری دور کیساتھ جب مسلمان فلسطین کو فتح کریں گے اور حضرت عیسٰی کا ظہور ہوگا ، ( جیسا کہ حدیث کے الفاظ اور متن بتارہا ھے) سے جوڑ کر آخری وقت کی پیشن گوئی کے پس منظرمیں لیتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ علماء غزوہ سے مراد جہاد و قتال کے بجائے دعوت و تبلیغ اور صوفیاء کے مشن کو لیتے ھیں جس نے برضغیر ہند میں اسلام کی اشاعت میں غیرمعمولی رول نبھایاھے۔ ( پوری حدیث اور تنقیدی مباحث کیلئے دیکھئے ” کیا ھے غزوہ ہند کی حقیقت ؟ ” صفحہ 10 -15) نیز اسی کتاب کے صفحات 39 تا 43 اور 71 ملاحظہ فرمائیں ۔ ص۔ 7 پر محمد ذکوان ندوی کی تریب و تلخیص قابل ستائش ھے۔
کم سے کم اتنا تو روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتاھے کہ موجودہ بھارت اور موجودہ حالات کے ساتھ اس کا کوئی تعلق اور جوڑ نہیں بنتاھے ۔ یہ صرف مخصوص پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے مکروہ عزائم اور مخصوص ملاوں کی بے ایمانی و تحریفی عمل کا شاخسانہ ھے جو اس کو موجودہ سیاسی حالات اور ہندوپاک سیاسی چپقلش میں غلط طریقے سے تشریح کرتے ھیں ۔
غزوہ ہند کے متعلق احادیث اور اس کا مصداق
کچھ علماء کے خیال میں اس غزوے کے حقیقی مصداق کے بارے میں کوئی صریح نص موجود نہیں ہے کہ یہ کب ہوگا، اور اسے یقینی طور پر متعین بھی نہیں کیا جاسکتا، تاہم حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت سے اشارہ ملتاہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نزول فرمانے کے زمانے کے قریب ’’ہند‘‘ میں غزوہ ہوگا، اس میں شریک مسلمانوں کی جماعت کی خاص فضیلت بیان کی گئی ہے۔ لیکن اسے قطعی طور پر ’’غزوہ ہند‘‘ کا واحد مصداق نہیں کہا جاسکتا۔ در اصل ان احادیث میں اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے حتی الوسع اپنی کوشش صرف کرنے کی ترغیب ہے۔اور اس کا وقوع کب ہوگا یہ بات دین کے مقاصد میں سے نہیں۔ نہ اس پردین کا کوئی حکم موقوف ہے۔ (فقط واللہ اعلم)۔
میڈیا میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کے اکثر الزامات دیوبندی پر ھی لگا دیئے جاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اہل دیوبند خود کیا کہتے ھیں ، غور سے سنئے :
فتوی نمبر : 144012200358
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
وضاحتی نوٹ
اکثر علماء اور دارالعلوم دیوبند کی رائے یہ ہے کہ یہ غزوہ، محمد بن قاسم کے دور سن 711ء سے 713ء کے درمیان ہوچکا
https://www.facebook.com/share/p/DpXn3nybipT7ZcXk/?mibextid=oFDknk
دارالعلوم دیوبند کا ایک فتوی
Published on: Nov 10, 2018 جواب # 145788
بسم الله الرحمن الرحيم
اس سلسلے میں دارالعلوم کا ایک فتوی منسلک ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
سوال:
براہ کرم ، حدیث غزوہ ہند کی مکمل تفصیلات بتائیں ۔ یہ غزوہ کہاں سے شروع ہوگا؟ کیا پاکستان اس غزوہ کا ایک حصہ ہوگا؟
جواب:
اس سلسلے میں جو احادیث آئی ہیں ان میں صرف غزوة الہند کا ذکر ہے کسی زمانہ کی تخصیص نہیں ہے، کہ کس زمانہ میں پیش آئے گا، اسی طرح اس قسم کی بھی کوئی صراحت نہیں ہے کہ غزوہ کہاں سے شروع ہوگا۔
ان روایات میں وارد غزوہ کا مصداق کونسا غزوہ ہے اس بارے میں تین آراء پائی جاتی ہیں:
(۱) اسلام کے ابتدائی اور وسطی دور میں جو غزوات پائے گئے جن کی بنا پر ہندوستان ایک عرصہ تک دارالاسلام بنا رہا اور وہاں اسلامی حکومت قائم رہی، یہ غزوات الہند کا مصداق ہیں جن میں بالخصوص محمد بن قاسم اور سلطان محمود غزنوی کی معرکہ آرائی قابل ذکر ہے۔
(۲) بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ حدیث میں جو ہند کا ذکر آیا ہے اس سے خاص ہندوستان مراد نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی طرف کے علاقے مراد ہیں جس میں خاص طور پر بصرہ اور اس کے اطراف کا علاقہ ہے اس کی تائید بعض آثار صحابہ سے ہوتی ہے جو یہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم لوگ ہند سے بصرہ مراد لیتے ہیں اس تاویل کے اعتبار سے غزوہ ہند کے سلسلہ کی روایات کا تعلق ابتدائی زمانہ میں جو فارس سے جنگیں ہوئیں ان سے ہے۔
(۳) تیسری رائے یہ ہے کہ ابھی ان روایات کا مصداق پیش نہیں آیا بلکہ حضرت امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اس معرکہ آرائی کا تحقق ہوگا اس رائے کے قائلین ان روایتوں کو پیش کرتے ہیں جو علامہ بن نعیم بن حماد نے اپنی کتاب ”الفتن“ میں پیش کی ہیں، جن میں یہ ذکر ہے کہ ”ایک جماعت ہندوستان میں جہاد کرے گی اور اس کو فتح نصیب ہوگی اور جب وہ مال غنیمت لے کر واپس لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ملک شام میں نزول ہوچکا ہوگا“۔ (الفتن، ص۴۰۸)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/hadith/145788
اسی نوعیت کی باتیں ” کیا ھے غزوہ ھند کی حقیقت ” مولانا محمد فاروق خان کے مقالہ میں بھی کہی گئی ھیں ۔ ملاحظہ ہو صفحہ 7 تا 18 ۔ یہاں محنت کیساتھ دکھادیاگیاھے کہ راویوں اور اسناد میں کتنی کمزوریاں اور خامیاں ابھر کر سامنے آتی ھیں ۔ یہاں مشکل سے ایک حدیث حضرت ثوبان کو کچھ وزن دیاجاتاھے باقی ابوہریرہ کی روایت کردہ ساری احادیث ضعیف اور بے اعتبار نکلتی ھیں۔
ہند یا سندھ کا اصلی محل وقوع کیا ھے ؟
"غزوہ ہند” سے سیاسی معنی لینے والے کچھ حلقے حدیث تو آج سے پندرہ سو برس پہلے والی سناتے ہیں مگر اس میں استعمال کیاگیا "ہند” کے لفظ سے آج کا بھارت وہ مراد لیتے ہیں ۔اس زمانے میں ہند کے لفظ سے کیا معنی مراد لئے جاتے تھے ، اس کے متعلق ” اردو دائرہ معارف اسلامی” ، جلد 23 صفحہ 173 پر تحریر ھے : ” قدیم مصر کے مسلم جغرافیہ دان لفظ "ہند” کو سندھ کے مشرقی علاقوں کیلئے استعمال کرتے تھے۔ ہند سے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک بھی مراد لیے جاتے تھے۔ چنانچہ جب ” ہند کے بادشاہ ” اور ” ہند کے علاقے ” کہا جاتاتھا تو اس سے صرف ہند ہی مراد نہ تھا ، بلکہ اس میں انڈونیشیا، ملایا وغیرہ بھی شامل سمجھے جاتے تھے اور جب "سندھ ” کہا جاتاتھا تو اس میں سندھ ، مکران، بلوچستان، پنجاب کا کچھ حصہ اور شمال مغربی سرحدی صوبہ بھی شامل سمجھے جاتے تھے۔ ایسا کوئی ایک نام نہ تھا جس کا اطلاق پورے ہندوستان پر ھو ۔ ہند اور سندھ مل کر ہی ہندوستان کو ظاہر کرتے تھے ۔ عربی اور فارسی میں جب ہندوستان کے جغرافیائی حالات بیان کیے جاتے تھے تو اس میں ہند اور سندھ کے حالات شامل ہوتے تھے ۔ یہ بھی بیان کیا جاتاھے کہ مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد سے پہلے کوئی نام ایسا نہ تھا جس کا اطلاق پورے ملک پر ہو ۔ ہر صوبے کا اپنا الگ الگ نام تھا۔ اہل فارس نے جب اس ملک کے ایک صوبے پر قبضہ کرلیا تو اس دریا کے نام پر جسے اب سندھ کہتے ہیں ، ” ہندھو” رکھا ، کیونکہ قدیم ایران کی پہلوی اور سنسکرت زبان میں ” س” اور "ہ” آپس میں بدل جایاکرتے تھے ۔ چنانچہ فارسی والوں نے ” ہندھو ” کہہ کر پکارا ۔ عربوں نے سندھ کو تو سندھ ہی کہا ، لیکن اس کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کو ہند کہا اور آخر میں یہی نام تمام دنیا میں پھیل گیا ۔ پھر "ہ” کا حرف ” الف” میں بدل کر یہ نام فرنچ میں انڈ Ind اور انگریزی میں انڈیا India کی صورت میں مشہور ہوگیا ۔ ” [ بحوالہ کیا ہے غزوہ ہند کی حقیقت صفحہ 16_17 ]
اس پس منظر میں "ہند” کا اطلاق نہ صرف موجودہ بھارت پر ہوجاتاھے بلکہ پاکستان اور افغانستان بھی اسی طرح اس کے زمرے میں آجاتے ھیں جس طرح خطے کے دیگر ممالک جیسے برما، ملائشیا، انڈونیشیا، ویت نام وغیرہ اس سے اس بنیادی حقیقت کو سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ھے کہ کس طرح ہند کا غلط استعمال اور کرپٹ فارم ایک مقبول نیریٹیو بنادیاگیا۔ ہند کو سکڑا کرکتابوں اور خطابوں میں صرف ” بھارت ” کی حد تک محدود کیا گیا۔ کیا غزوہ ہند پاکستان پر لاگو نہیں ہوتا ھے ؟ پھر اس "جہاد” میں کن کو قتل اور کس کو "فتح” کیا جائے گا۔ ؟ یہی بات آپ افغانستان کیلئے بھی سوچیں اور حدیث کی غلط تشہیر و تعبیر کا اندازہ لگائیں۔
کیا مسلمانوں کا غلبہ پانے کے بعد بھی غزوہ ہند ابھی باقی ھے ؟
جب رسول پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم کیساتھ اس وضع کردہ حدیث کا زمانہ جوڑ دیاجائے گا تو یہ لگ بھگ ایک ہزار سال قریب کا دور بنتاھے اس ٹائم سے جب ہند اور سندھ مسلمانوں کے قبضے میں آجکا تھا۔ زمانہ رسالت میں نہ پاکستان تھا نہ بنگلہ دیش۔ افغانستان بھی موجودہ شکل میں نہ تھا ، نہ بھارت کی یہ جغرافیائی حیثیت تھی۔ یہاں عالم کفر اور شرک کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتاتھا۔ صحابہ کبار اور صوفیاء کرام کی پرامن کوششوں سے یہاں اسلام متعارف ہوگیا۔ سیاسی غلبہ اموی حکمرانوں کے دور سے شروع ہو کر بالآخر مغلوں کے زمانے تک حاوی رہا۔ مسلمانوں نے 600 سال تک برصغیر ہندوپاک پر حکومت قائم کرکے اقدامی جہاد یا کسی "غزوہ” کے تمام امکانات و عوامل کو بدل کے رکھ دیاھے ۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے روپ میں دو اکثریتی مسلم ممالک کے ظہور پذیر ہوجائے کے بعد غزوہ ہند کیلئے ہندوستان میں کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ھے ۔ پاس پڑوس والا ہند اور سندھ بھی مسلمانوں سے کھچا کھچ بھرا پڑاھے۔ کیا یہ صورتحال رسول اللہ صلعم کی پیغمبرانہ بصیرت سے بعید اور اوجھل رہ سکتی تھی جو وہ غزوہ ہند کو انیسویں یا بیسویں صدی کیلئے موخر کرادیتے ؟
عجیب بات ھے کہ اسلام کی مقتدر شخصیتوں اور علماء نے "غزوہ ہند” کو غیر اہم مان کر اس پر کوئی سپیشل فوکس نہیں کیاھے ۔ حدیث کے صف اول کے علماء محدث عبدالحق دہلوی، شاہ ولی اللہ ، شاہ عبدالعزیز دہلوی وغیرہ نے اس پر خاموشی اختیار کی ہوئی ھے ۔ ہند پر حملہ آور ہونے والے اور حکومت کرنے والے کسی بھی مسلمان نے اس ” حدیث ” کو بنیاد اور دلیل بنا کر ہندوستان کے خلاف جہاد کا جواز نہیں بنایاھے۔