از:محمد انیس
یہ امر مسلم ہے کہ دنیا کی اقلیتیں خواہ وہ کسی ملک میں ہوں’ ملک کے اہم دھارے (mainstream) سے الگ ہوکر ترقی کی منزلیں طے نہیں کرسکتیں۔ یہ بات بار بار مشاہدے میں آچکی ہے کہ اقلیتوں کی سیاسی پارٹیاں انہیں ملک کے اہم دھارے سے الگ کرتی ہیں اور انجام کے اعتبار سے اکثریتی فرقہ کو غذا فراہم کرتی ہیں۔ اس ضمن میں کچھ مشاہدات یہاں معذرت کے ساتھ درج کئے جارہے ہیں۔
1. 1906ء میں مسلمانوں نے متحدہ ہندوستان میں ملک کے اہم دھارے سے الگ ہوکر مسلم لیگ بنائی۔ ابتدا میں اس پارٹی کا مقصد صرف مسلم مفاد پر کام کرنا تھا۔ اسے دیکھ کر ہندؤں کو عندیہ ملا کہ انہیں بھی اس طرز کی پارٹی تشکیل دینی چاہئے جو ہندو مفاد کی رکچھا کرے۔ چنانچہ انہوں نے اس مقصد سے ہندومہاسبھا بنائی جس کی کوکھ سے بعد کے برسوں میں آرایس ایس اور اس کی تمام ذیلی تنظیموں کا جنم ہوا۔
2. 1929ء میں مسلمانوں نے مجلس احرار اور 1931ء میں خاکسار تحریک بنائیں۔ خاکسار تحریک اپنی اصل کے اعتبار سے ایک نیم عسکری تنظیم (para military organization) تھی جس کے ارکان خاکی کپڑے پہن کر اور کندھے پر بیلچہ( ہتھیار ) رکھ کر پریڈ کرتے تھے ۔ بعد میں آر ایس ایس نے بھی اسی طرز پر مسلح ہوکر اپنے کارکن کو ٹرینڈ کرنا شروع کردیا۔
3 ۔ مسلم لیگ نے جب 1940ء کے لاہور سیشن میں ملک کےبٹوارے کا قرارداد منظور کیا تو اس کے ردعمل میں آر ایس ایس کے چیف گولوالکر نے اپنی مشہور کتاب لکھی جس کا نام یہ تھا ۔
We, Our Nationhood Defined.
اس کتاب میں انہوں نے پہلی بار ہندو راشٹر کا وہ نظریہ پیش کیا جس کا زہریلا اثر اس وقت پورے ہندوستان میں نظر آرہاہے۔ یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کو ہندو مہاسبھا نے بالواسطہ طور پر سپورٹ کیا تھا ، کیونکہ متحدہ ہندوستان میں ہندو راشٹر یا رام راج قائم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
4. آسام میں پہلے bjp کا نام و نشان نہیں تھا۔ لیکن 2005ء میں قائم مولانا بدرالدین اجمل صاحب کی پارٹی AIUDF اور اس پارٹی کی زوردار تحریک نے مسلمانوں کو تو سیاسی طور پر متحد کرلیا اور کچھ سیٹیں بھی حاصل کیں’ لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہندؤں کو متحد کردیا ۔ نتیجے کے طور پر bjp جو پہلے اس صوبہ میں کھاتا بھی نہیں کھول پاتی تھی ، اب اقتدار پر قابض ہوگئی۔ bjp نے ہندؤں کو باور کرانے میں کامیاب ہوگیا کہ اگر کانگریس کو ووٹ دوگے تو اسکا الائنس پارٹنر بدرالدین اجمل ریاست کا وزیر اعلیٰ بن جائے گا ۔
5. اترپردیش کے گذشتہ اسمبلی انتخاب میں bjp کی پوزیشن اطمینان بخش نہیں تھی۔ لیکن حیدرآباد کی پارٹی مجلس اتحادالمسلمین نے آکر 💯 سیٹوں پر انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا۔ اس ہدف کو سامنے رکھ کر مجلس نے بڑی بڑی ریلیاں کیں اور اپنے جلسوں میں زبردست بھیڑ جٹائی۔ یہ بھیڑ بعض وجوہ سے ووٹوں میں تبدیل نہیں ہوسکی لیکن ان بھیڑوں اور اویسی صاحب کو فراہم کی گئی میڈیا پبلیسیٹی نے ایک بار پھر bjp کی راہ ہموار کی اورہندو ووٹوں کو bjp کےحق میں مزید متحد کردیا۔
اس طرح اوپر کی چھ مثالوں سے کسی حد تک یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ اقلیتوں کی علحدہ سیاسی پارٹیوں سے حقیقتاً اقلیتوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ ان سے وہ منفی حالات پیدا ہوگئے جن کا فائدہ آخرکار اکثریتی طبقہ کو ہوا ۔ بات دراصل یہ ھے کہ اقلیت اور اس کے لیڈرز کی للکار سے ہمیشہ اکثریتی سیاست کو غذا فراہم ہوتی ہے، اقلیت کو نہیں۔ اقلیت تو صرف تالیاں بجاتی ہے، واہ واہ کرتی ہے اور بس۔ جب ہمارے سامنے ماضی کے تلخ تجربات موجود ہیں تو آنے والے دنوں میں غلطیوں کو دہرانے کی کیا ضرورت ۔ حدیث کے مطابق مومن ایک بل سے بار بار ڈسا نہیں جاتا۔
آزادی کے فوراً بعد 1948ء میں لکھنؤ میں مولانا حسین احمد مدنی کی صدارت میں جمعیت علماء کا اجلاس ہوا تو اجلاس میں مولانا آزاد نے یہ تجویز رکھی کہ تقسیم کے سبب ملک میں جو فرقہ وارانہ ماحول پیدا ہوگیا ہے’ اسے ختم کرنا ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جو ہونا تھا، ہوگیا ۔ اب ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنی الگ پارٹی کی ضرورت نہیں۔ انہیں سیاست کے اہم قومی دھارے ( مین اسٹریم پولیٹکس) میں رہنا ہوگا۔ لیکن المیہ یہ رہا کہ بٹوارے کےبعد بھی مسلمانوں کے گھروں میں مسلم لیگ کےجھنڈے لگے رہتے تھے ۔ دھیرے دھیرے حکومت کی کارروائی سے گھروں سے جھنڈے تو ہٹالئے گئے۔ لوگوں نے ریڈیو پاکستان سننا بھی دھیرے دھیرے کم کردیا۔ لیکن مسلمانوں کے ذہنوں سے جناح سوچ ختم نہیں ہوئی جو کہ غیر ضروری طور پر آج تک برقرار ہے ۔ ہندو فرقہ پرست ایسی سوچ کی تلاش میں رہتے ہیں ‘کیونکہ کوئی مسلم چہرہ یا مسلم پارٹی للکارنے والی تقریر نہ کرے تو ذات پات میں منقسم ہندو قوم کو متحد رکھنا مشکل ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ کشمیر کی میلیٹنسی بھی سنگھ پریوار کیلئے اکسیر کا کام کرتی ہے ۔ ان چیزوں نے ملک میں پھر وہی منافرت کی فضا پیدا کردی ہے جو مسلم لیگ کی تحریک پاکستان نے پیدا کی تھی ۔ آج ملک میں مسلمانوں کیلئے جو منفی حالات نظر آرہے ہیں وہ کسی کی سازش کے نتیجے نہیں بلکہ مسلمانوں کے اسی جذبات کے شاخسانے ہیں جسے وہ کنٹرول نہیں کرپاتے ۔ ملک کا بٹوارہ ہوگیا ، لیکن تقسیم کی جذباتی سوچ آج بھی برقرار ہے۔ بلکہ جناح کے دو قومی نظریہ پر تنقید کیجئے تو ہمارے بہت سے احباب کو غصہ آتا ھے ۔ وہ فوراََ اس کا ذمہ دار غیر قوموں کو قرار دےکر اطمینان حاصل کرلیتے ہیں ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا منفی ردعمل کے پیش نظر آدمی اقدام کرنا چھوڑ دے۔ نہیں ، ایسا نہیں ہے ۔ قرآن میں یہ رہنمائی موجود ہے کہ صرف ان امور کو چھوڑا جائے گا جو منفی نتائج پیدا کرے (سورہ انعام: 108)۔ جو نفع بخش امور ہیں انہیں ہر حال میں اختیار کیا جائے گا ۔ یہ ایک سادہ سا فارمولا ہے کہ جس کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اسباب کی دنیا میں کس چیز کو اختیار کیا جائے اور کس چیز کو اختیار نہ کیا جائے ۔ کسی اقدام کا معیار یہی ہوتا ہے کہ اگر وہ مثبت کے بجائے منفی نتیجے پیدا کرے تو اس اقدام سے احتراز کیا جائے ۔ چونکہ یہ اسباب و علل کی دنیا ہے اور یہاں دوسری قومیں بھی رہتی ہیں، اس لئے کسی اقدام کے نتیجے کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ جو قوم منفی نتیجے کا ادراک نہیں کرتی وہ پیچیدے مسائل میں گھری رہتی ہے ۔
یہاں میں چند مثالوں اور مشاہدات کے ذریعے ثابت کرونگا کہ دنیا کی کامیاب اقلیتیں صرف وہ ہیں جنہوں نے الگ سے کوئی سیاسی پارٹی نہیں بنائی بلکہ صرف تعلیمی اور تعمیری کاموں ( social contribution) کے ذریعے ملک میں اپنا مقام بنایا۔
پہلی مثال امریکہ کے یہودیوں کی ہے ۔ امریکہ میں یہودیوں کی تعداد وہاں کی کل آبادی کا محض 2.4 فیصد ہے ۔ یہ تعداد اتنی کم ہے کہ امریکی سیاست میں یہودیوں کا کوئی رول نہیں ہوسکتا۔ لیکن تعلیم’ تحقیق اور تجارت کے میدان میں یہودیوں نے اپنے آپ کو ملک کا اثاثہ (asset) ثابت کیا ہے ۔ اس بنا پر وہ امریکہ کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوجاتے ہیں۔ امریکی یہودیوں کی یہ مضبوط پوزیشن کسی سیاست کے ذریعہ پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ انہوں نے اپنی صلاحیتوں اور کاوشوں کو ملک کیلئے ناگزیر بنادیا ھے ۔ انہوں نے عیسائیوں سے زیادہ تعلیمی اور فلاحی ادارے کھول رکھے ہیں’ لیکن کبھی کوئی سیاسی پارٹی نہیں بنائی ۔ امریکی یہودی جان چکے ہیں کہ بغیر لیاقت ( merit) کے یہاں کی اکثریت انہیں اہمیت نہیں دیگی۔ شکاگو کے ایک یہودی ادارہ کے سربراہ سے امریکی یہودی کی برتری اور غلبے کا راز پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اپنے بچوں کو ابتداء ہی میں یہ باور کرادیتے ہیں کہ تم اقلیت میں ہو اور عیسائی اکثریت میں۔ وہ تمہارے ساتھ ناانصافی کریں گے۔ تم اتنی محنت کرو کہ ہر شعبہ حیات میں تمہاری برتری ثابت ہو اور عیسائی تمہارے محتاج ہوجائیں۔
دوسری مثال بنگلہ دیش کے ہندو اقلیت کی ہے۔ اس ملک میں ہندؤں کی آبادی تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔ یعنی کل آبادی کا 9 فیصد۔ لیکن چند استثنائی معاملے کو چھوڑ کر وہاں ہندؤں کو بطور اقلیت کوئی مسئلہ نہیں۔ وجہ یہ ہےکہ وہاں ہندوقوم ملک کے اہم دھارے میں رہتے ہیں، ان کی کوئی علحدہ سیاسی پارٹی نہیں ہے. ان کی داخلی اور خارجی پالیسی وہی ہوتی ہے جو حکومت کی ہوتی ہے ۔ وہ سیاست میں زیادہ سرگرم بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے کبھی الگ سے کوئی تحریک نہیں چلائی۔
تیسری مثال ملیشیا میں چینی اقلیت کی ہے ۔ ملیشیا کی ساڑھے تین کروڑ آبادی میں تقریباً %20 چینی اقلیت ہے جن میں %80 بودھ مذہب کے پیروکار ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی شعبے میں ان لوگوں نے بے شمار ادارے قائم کررکھے ہیں جن کی وجہ سے وہاں تجارت اور تعلیمی شعبے پر اقلیتوں کا غلبہ ہے ۔ ان چیزوں نے اس ملک میں چینی اقلیت کے وجود کو معنی خیز بنادیا ہے ۔ تاہم ان کی الگ سے کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے ‘ بلکہ وہ سیاسی طور پر ملک کے اہم قومی دھارے میں شامل ہیں۔
چوتھی مثال خود ہندوستان میں عیسائی اقلیت کی ہے۔ ہندوستان کے ناگالینڈ، میزورم، میگھالیہ جیسے علاقوں میں عیسائیوں کی آبادی 70 فیصدی سے زیادہ ہے ۔ اس کےعلاوہ منی پور، گوا، اروناچل پردیش، کیرلا جیسی ریاستوں میں بھی ان کی آبادی 20 سے 40 فیصدی کے درمیان ہے ۔ انڈیا میں تبدیلی مذہب اور دیگر معاملات کو لےکر عیسائیوں پر بھی حملے ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے جواب میں وہ پرامن طور پر صرف قانونی لڑائی پر اکتفا کرتے ہیں۔ احتجاجی اور مطالباتی سیاست سے انہوں نے اپنے آپ کو دور رکھا ہے ، درآحالیکہ پورے یورپ اور امریکہ میں ان کی مضبوط lobbies موجود ہیں ۔ انہوں نے قومی دھارے سے الگ ہوکر کبھی عیسائی پارٹی نہیں بنائی اور نہ دھرنا جلوس کا پروگرام بنایا۔ ان کا صرف ایک ہی نشانہ ہے کہ تعلیم کےساتھ مشنری ورک جاری رہے۔ وہ عیسائیت کے پیغام کو گھر گھر تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں ۔ یعنی جو کام مسلمانوں کا تھا ، وہ کام عیسائیوں نے اختیار کرلیا ہے ۔ مسلمانوں سے بھی یہی مطلوب ھے کہ وہ تمام شکایتوں اور مطالبات کو چھوڑ کر صرف تعلیم اور دعوت الی اللہ (کارنبوت ) کا کام انجام دیں اور اپنے آپ کو خیر امت ثابت کریں۔ اس لئے کہ یہی ایک کام ہےجو ان کے تحفظ کو یقینی بنائےگا۔ اسی سے انہیں غلبہ حاصل ہوگا, اسی سے امامت ملےگی۔ لیکن افسوس کہ 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام سے لےکر آج تک ہم اسی مغالطے میں ہیں کہ کامیابی اور سرفرازی کا راز علحدہ سیاسی قیادت پیدا کرنے میں ہے۔ علحدہ سیاست کے اسی نظریہ نے مسلمانوں کو تین ٹکڑوں (انڈیا،پاکستان ،بنگلہ دیش) میں تقسیم کرکے کمزور کردیا ‘ مگر اس قوم نےماضی کے تلخ تجربات سے کوئی سبق نہیں لیا۔
لندن میں میٹر کا الیکشن ہر چار سال پر ہوتا ہے ۔ گذشتہ مئی کی ابتدا میں لندن میں جو میئر کا الیکشن ہوا، اس میں لیبر پارٹی کے صادق خاں نامی مسلمان پھر لندن کا میئر منتخب ہوگیا ہے ۔ یہ لگاتار تیسری بار ہے جب انہیں لندن کے میئر بننے کا شرف حاصل ہوا۔ وہاں کا پی ایم رشی سونک ایک ہندو ہے جو اس عیسائی دیش کے سب سے اونچے عہدہ پر فائز ہے ۔ وہ ایک دوسری اہم دھارے کی پارٹی (conservative party) سے ہیں ۔ اسی طرح اگر براک اوباما امریکہ میں کوئی بلیک پارٹی بناتے تو کبھی امریکہ کا صدر نہ بن پاتے ۔ ہندوستان میں سکھ برادری سے آنے والے ڈاکٹر من موہن سنگھ دو بار اس ملک کے وزیراعظم بن گئے ۔ یہ سب مین اسٹریم سیکولر پارٹی میں رہنے سے ممکن ہوتا ہے کہ دوسری قوم کے لوگ آپ کو منتخب کرلیتے ہیں۔
انڈیا میں عیسائیوں نے ہزاروں مشنری اسکول معیاری انداز میں چلا رکھے ہیں ۔ ان اسکولوں میں زیادہ تر ہندو اور قبائلی لڑکے ہی تعلیم پاتے ہیں۔ اگر وہ علحدہ سیاست کے چکر میں پڑکر احتجاجی سیاست کرتے تو کبھی مشنری کام نہیں کرپاتے ۔ مسلمانوں نے مشنری کام ( فریضہ دعوت الی اللہ) ترک کر رکھا ھے ۔ اس لئے انہیں ان طریقوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ زیادہ تر اپنے حقوق کی باتیں کرتے ہیں، اپنے فرائض اور ذمہ داریوں پر دھیان نہیں دیتے ۔ انہیں تو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ زمین پر ایک خیر امت کی حیثیت سے موجود ہیں ( آل عمران : 110)اور اللہ تعالیٰ نے ان کو امت وسطہ کی ذمہ داری سونپی ہے ( البقرہ :143) ۔ اس رول میں مسلمان کسی قوم کا حریف نہیں ہوسکتا بلکہ وہ تمام اقوام کے حلیف ہیں ۔ اور یہی چیز اس قوم کو دیش کے قومی دھارے میں شامل رہنے کی ترغیب دیتی ہے تاکہ تمام راہیں ہموار رہیں اور دعوت الی اللہ کی قبولیت میں کوئی امر مانع نہ رہے ۔