تحریر:جی ایم بٹ
کچھ عرصے سے کشمیر میں مختلف مسلکوں کے مبلغوں کے درمیان سخت جنگ جاری ہے ۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے مسجدوں اور خانقاہوں کا خوب استعمال کیا جارہاہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ عوام اس سارے معاملے سے لاتعلق ہیں ۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون کس مسلک کو لے کر عمل کررہا ہے ۔ اختلاف اگر ہے تو ان خود ساختہ علما کے مابین جنہوں نے مسجدوں اور دوسری عبادت گاہوں پر قبضہ جمایا اور انہیں اپنے ذاتی اغراض کے لئے استعمال کررہے ہیں ۔ عام لوگ تو مختلف مسالک کے ائمہ کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے ۔ ان کے مرتبے کو کم نہیں سمجھتے بلکہ انہیں دین کے نمائندے اور خدمت گزار سمجھتے ہیں ۔ اس کے باوجود ملا اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے مسلکی اختلافات کو ایمان کی بنیاد اور جنت و جہنم کے لئے فیصلہ ساز قرار دے رہے ہیں ۔ ہمارے یہاں جو دینی مبلغ پائے جاتے ہیں بحیثیت مجموعی دین سے بے خبر اور دین کے اصول وضوابط سے پوری طرح سے لاعلم ہیں ۔ یہ کسی بات سے باخبر ہیں تو وہ ان کا اپنا مسلک ہے ۔ مسلک سے زیادہ انہیں کسی چیز کی خبر نہیں ۔ اسلام کی حیات اور اس کی بقا سے انہیں دور کا واسطہ بھی نہیں ۔ بلکہ اسلام کو مٹانے کے درپے ہیں ۔ اسلام کے جو دشمن پائے جاتے ہیں ان کے ساتھ ان لوگوں کی دوستی ہے اور پورے خلوص کے ساتھ ان سے تعلق نبھا رہے ہیں ۔ اس دوران اپنے مسلک کا بھر پور پرچار کررہے ہیں ۔ مسلمانوں کے علاوہ یہ کسی بھی شخص کو اسلام کی دعوت نہیں دے رہے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ انہیں اسلام کی تعلیمات کا پتہ ہے نہ اس کی تبلیغ کرنے کی صلاحیت ہے ۔ اسلام کے علم سے یہ پوری طرح سے بے خبر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلک کی تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں ۔ یہاں بھی مسلکی اختلافات سے زیادہ انہیں کسی چیز کا علم نہیں ۔ دیکھا جائے تو انہوں نے جو مباحثے شروع کئے ہیں ۔ جو جنگ چھیڑ رکھی ہے اس کی بنیاد علمی نہیں بلکہ سراسر جہالت ہے ۔ علم تو ان لوگوں کو چھوکر بھی نہیں گزرا ہے ۔ بلکہ یہ جہالت کے مضبوط پتلے ہیں ۔ ان کی ساری جنگ علم کی بجائے جہالت پر مبنی ہے ۔ کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں ہمیشہ ہی اصل دین کی تبلیغ کرنا مشکل رہاہے ۔ اس کے بجائے مسلکی اختلافات دینی مبلغوں کا مشغلہ رہاہے ۔ خاص طور سے آستانوں اور خانقاہوں کے اندر صحیح دین کی بات کرنے کی کبھی اجازت نہیں دی گئی ۔ اب کئی سالوں سے مسجدوں کی بھی یہی حالت بنادی گئی ہے ۔ بیشتر مسجدوں میں دین کی تعلیم دینے اور اس کی تبلیغ کرنے کے بجائے مسلکی اختلافات کو ہوا دی جارہی ہے ۔ ایسے اختلافات دین اور علم دین سے ہر گز کوئی تعلق نہیں رکھتے ۔ بلکہ سراسر جہالت اور دروغ گوئی پر مبنی ہے ۔ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا کرنے والے کوئی عالم ہیں اور نہ اختلافات علمی ہیں ۔ بلکہ ان کی اصل بنیاد جہالت اور ایسا کرنے والوں کی علمی صلاحیتوں کا فقدان ہے ۔
مسلکی اختلافات کی جنگ پہلے سعودی عرب میں لڑی گئی جہاں اس جنگ کا اصل مقصد اقتدار حاصل کرنا تھا ۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد دین سے لاتعلقی اختیار کی گئی ۔ بلکہ دین دار لوگوں کے خلاف محاذ کھولا گیا اور ان کی زبانیں یا تو کاٹ دی گئیں یا ان پر تالے چڑھائے گئے ۔ اس کے بجائے مسلکی جنگ جاری رکھی گئی تاکہ اتحاد امت کے نتیجے میں کوئی ان کا اقتدار چھین نہ لے ۔ اقتدار کے تحفظ کے لئے مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کے لئے خوب سرمایہ خرچ کیا گیا اور اس جنگ کو ہر مسلم ملک میں پھیلانے کے لئے پٹرو ڈالر فراہم کئے گئے ۔ اس سرمایہ کا آنا تھا کہ نام نہاد علما نے اس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ۔ اس سے ان کے گھروں میں چار چاند لگ گئے ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی اس جنگ کو ختم کرنے پر تیار نہیں ۔ پاکستان میں اس جنگ کو لے کر کافی خون بہایا گیا ۔ مختلف مسلکوں کے بڑے بڑے لیڈروں کو قتل کیا گیا ۔ یہاں تک کہ مسجدوں اور امام باڑوں کے اندر خود کش دھماکے کرکے وہاں آنے والے نمازیوں کے چیتھڑے اڑادئے گئے ۔ اس جنگ کو کشمیر بر آمد کرنے کی خوب کوشش کی گئی ۔ لیکن زیادہ کامیابی نہ ہوئی ۔ اب کچھ عرصے سے محسوس ہورہاہے کہ مسلکی جنگ کے لئے رضاکار فراہم آئے ہیں جو خود کو اس میدان کا شہسوار دکھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ مسلکی اختلافات کا دین سے ہر گز کوئی تعلق نہیں ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلکی جنگ کے ان رضاکاروں کو ہرگز دین کے خدمت گزار قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ ان کا دین کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس کے باوجود دینی مراکز پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ وقف بورڈ ان کو ایسی باتوں سے احتراز کرنے کو نہیں کہہ رہاہے ۔ اس سے پہلے وقف بورڈ کی طرف سے کئی اچھے قدم اٹھائے گئے جن کی عوامی حلقوں میں پذیرائی کی گئی ۔ لیکن ان ابتدائی اقدامات کے بعد ہاتھ باندھ لئے گئے اور مزید بہتری کا کوئی بھی کام نہیں کیا گیا ۔ وقف بورڈ ایسے مسائل سے لاتعلق ہوجائے تو لوگوں کو اس جنگ کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ایسے نیم ملائوں کو روکنا بہت ضروری ہے ۔ ورنہ یہاں کی مسجدیں رزم گاہوںمیں تبدیل ہونگی ۔ ایسے اختلافات کو علمی اختلاف قرار دے کر لوگوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے ۔ ان باتوں کا علم یا دین کسی ایک کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ سراسر جہالت ہے اور جاہل لوگ اس کام کو آگے بڑھارہے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اختلافات کو ہوا دینے والوں کو عالم قرار دے کر ان کے خلاف منہ کھولنے کی کسی کو اجازت نہیں ۔ اس طرح کا ماحول بحال رہا اور مسلکی اختلافات کی باتیں کرنے والوں کو مزید چھوٹ دی گئی تو مسلمانوں کی خیر نہیں ۔ بلکہ اسلام کی حفاظت کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی ہے ۔