ڈاکٹر سہیل زبیری
دور دراز صحرائے عرب میں اسلام کا ظہور انسانی تاریخ کے سب سے نمایاں واقعات میں سے ایک ہے جس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ اس شاندار انقلاب کے واحد ذمہ دار حضرت محمد ﷺ تھے۔ یہاں میں ایک مصلح کے طور پر ان کے کردار پر بات کرنا چاہوں گا۔ جب ہم کسی تاریخی شخصیت کی عظمت کا اندازہ لگاتے ہیں، تو یہ ضروری ہے کہ وہ وقت اور جگہ کا پس منظر سامنے رکھیں، جن میں انھوں نے کام کیا۔ نیز کسی بھی شخص کی عظمت کا تعین تاریخ پر اس کے اثرات سے ہوتا ہے۔ آئیے سب سے پہلے عرب کے ان سیاسی اور سماجی حالات کا جائزہ لیتے ہیں جن میں حضرت محمد ﷺ پیدا ہوئے۔
قبل از اسلام عرب میں کوئی سیاسی ڈھانچہ نہیں تھا، نہ ہی کسی قسم کی حکومت تھی۔ صرف قبیلے کے سرداروں کو فیصلے کا اختیار تھا۔ عربی معاشرہ صدیوں بلکہ ہزاروں سال سے مکمل لاقانونیت کی حالت میں زندگی گزار رہا تھا۔ اگر کسی سے جرم سرزد ہوتا تھا تو ہر ایک کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا حق تھا۔ اگر کبھی کوئی روک ٹوک ہوئی تو وہ قانون کے احترام کی وجہ سے نہیں تھی، یہ صرف انتقام کے خوف کی وجہ سے تھی۔ قبائل کے درمیان نسل در نسل جنگیں جاری رہیں۔ جنگ ایک معمول تھا اور بہادری کا مطلب دشمن کو جانی اور مادی نقصان پہنچانا تھا۔ ان کی تمام توانائیاں قبائل کے درمیان جنگوں نے سلب کر دی تھیں۔
ایسا قبائلی معاشرہ ان ممالک اور سلطنتوں سے مختلف تھا جن میں قوانین کے مطابق حکومت کا نظام قائم تھا۔ یہ ایک غیرمعمولی صورت حال تھی کہ جس وقت حضرت محمد ﷺ منظرعام پر آئے، عرب میں حکومت کا تصور ابتدائی شکل کی صورت میں بھی موجود نہیں تھا۔
سماجی حالات سیاسی حالات سے بہتر نہیں تھے۔ جس معاشرے میں حضرت محمد ﷺ کی ولادت ہوئی وہ مردانہ معاشرہ تھا۔ عورتوں کو جائیداد پر بہت کم یا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ مرد جتنی مرضی بیویاں لے سکتے تھے۔ ایسے دعوے ہیں کہ عرب اپنی بچیوں کو زندہ دفن کرتے تھے۔ غلامی ایک تسلیم شدہ ادارہ تھا۔ مرد اور عورت غلاموں کو جانوروں کی طرح منڈیوں میں بیچا جاتا تھا۔ غلاموں کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ اکثر عرب لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ ان کی دلچسپی صرف کہانی گوئی اور شاعری تک محدود تھی۔ عرب تاریخ کے حاشیے پر رہتے تھے۔ انہوں نے دنیا کے معاملات میں کبھی کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔
اور پھر یہ سب کچھ ایک ہی فرد کی کوشش سے ایک نسل کے اندر ڈرامائی طور پر تبدیل ہو گیا۔ حضرت محمد ﷺ نے ایک سادہ اور روشن خیال مذہب اسلام کی بنیاد رکھی اور جزیرہ نما عرب کو ایک قوم کے طور پر ایک خدا کے تحت متحد کیا تھا۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں تھی۔
انھوں نے ایک قبائلی سوسائٹی کوایک ایسی قوم میں تبدیل کیا جو آئیڈیلزم اور تخلیقی صلاحیتوں سے مزین تھی۔ ان کی وفات کے فوراً بعد یہ قوم عالمی منظر نامے پر نمودار ہوئی اور چند دہائیوں کے اندر سندھ سے لے کر بحر اوقیانوس کے ساحلوں تک ایک سلطنت قائم کی۔
اس اسلامی سلطنت نے ایک ایسی تہذیب پیدا کی جو دنیا کی تاریخ کی بہترین تہذیبوں میں سے ایک تھی۔ تاریخ میں یہ ایک بے مثال واقعہ ہے کہ ایک سلطنت اپنے ساتھ ایک عظیم تہذیب لے کر آئی۔ اس تہذیب نے علم کی تمام شاخوں بشمول طب، فلکیات، فلسفہ، طبیعیات، کیمسٹری اور ریاضی میں کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ انہوں نے الجبرا ایجاد کیا، جدید کیمسٹری کی بنیاد رکھی، اور اپنے دور کے عظیم ترین فلسفیوں کو پیدا کیا۔
پیغمبر اسلام کا پیغام وہ قرآن تھا جو ان تمام وحی کی تالیفات پر مشتمل ہے جو 23 سال تک ان پر نازل ہوتی رہیں۔ نبی خود مجسم قرآن تھے۔ قرآن کی تعلیمات ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا باعث بنیں جو قبائلی ذہنیت سے پاک تھا اور بالآخر ایک جدید اور روشن خیال قوم کے طور پر ابھرا۔ اس سے عربوں میں اتحاد کا ایک نیا احساس پیدا ہوا۔
قرآن، ایک طویل مدت میں نازل کردہ آیات کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے، کوئی عام کتاب نہیں ہے۔ یہ ایک دعا سے شروع ہوتا ہے اور ایک عمدہ زندگی گزارنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ سب سے زیادہ زور خدا، اللہ کی وحدانیت اور قیامت کے دن پر ہے جب ہر ایک کو اس کے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ نماز اور زکوٰۃ پر زور دیا گیا ہے اور وراثت کے قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ قتل، زنا اور چوری جیسے بڑے جرائم کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ اور انبیاء کی زندگی اور ان سے متعلق واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
پہلی چند صدیوں کے دوران، جب مسلم سلطنت سیاسی کشمکش اور اقتدار کی جنگوں کا شکار تھی، دو چیزیں جنہوں نے اسلامی سلطنت کو متحد رکھا تھا، حضرت محمد ﷺ کی نبوت اور قرآن کی الہامی حیثیت پر یقین تھا۔ قرآن ابتدائی مسلمانوں کے لیے اعلیٰ اخلاق اور علم کی تڑپ کا سرچشمہ بن گیا۔ قرآن کی تفہیم اسلامی فقہ کی تشکیل کا باعث بنی اور قرآنی سیاق و سباق کے اندر خدا کی فطرت کو سمجھنے کی خواہش نے الکندی، الفارابی، ابن سینا، الغزالی اور ابن رشد جیسے بڑے فلسفی پیدا کیے۔ ان فلسفیوں نے نہ صرف اسلام کی فلسفیانہ بنیادوں، بلکہ آنے والی صدیوں میں تھامس ایکیناس اور موسیٰ میمونائیڈز کے کام کے ذریعے عیسائیت اور یہودیت پر بھی بڑا اثر ڈالا۔
یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ قرآن، جو اسلامی تاریخ کے آغاز میں ایک اعلی زندگی کی رہنمائی کا ذریعہ تھا، آج ایک رجعت پسندانہ اور غیر متحرک سوچ کا منبع کیسے بن گیا۔ مسلمانوں کی گزشتہ سات سو سال کی تاریخ سائنس، فلسفے، ریاضی اور دوسرے علوم میں کسی کارنامے سے خالی نظر آتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں قرآن کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قرآن کی ایک مسلمان کی زندگی میں کیا اہمیت ہے۔
قرآن ایک ایسی کتاب کے طور پر ابھرا ہے جس کو پیروی سے زیادہ ”پوجا“ جاتا ہے۔ قرآن کا مقصد تو انسانی اقدار کا فروغ تھا لیکن آج کی مسلم سوسائٹیز میں تو قرآن کی حیثیت محض ایک مذہبی کتاب کی بن گئی ہے جس کی تقدیس کا یہ عالم ہے کہ جس کاغذ پر یہ لکھا جائے اس کی بے حرمتی پر انسانی جان لینا ایک قابل قبول عمل بن گیا ہے۔ یہ مسلم معاشروں میں بڑھتی ہوئی درندگی اور جہالت کی ایک نشانی ہے۔
قرآن اکثر اس کے معنی اور مفہوم سمجھے بغیر حفظ کیا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر والدین اور اساتذہ کے لیے ایک بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے جو حفظ کے عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔ کسی کو احساس نہیں کہ یہ قرآن اور قرآنی تعلیمات کے ساتھ کتنی بڑی زیادتی ہے۔ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ قرآن کے ساتھ ناانصافی ہے۔ قرآن کا مقصد تو معاشرے کی اصلاح تھا۔ اس کی روح تو ایسا معاشرہ قائم کرنا تھا جس میں انسانی اقدار اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ حاصل ہو۔
اور یہاں یہ ہو رہا ہے کہ معصوم بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھا کر ان کی سوچنے کی صلاحیتیں سلب کی جا رہی ہیں۔ یہ بچے جن کی تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری کرنی تھی اور جن کو جدید علوم سے آراستہ کرنا تھا، اپنا پہلا سبق ایک ایسی کتاب سے شروع کرتے ہیں، جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے، لیکن جس کی حرمت اور صداقت پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنا اسلام کی روح قرار دیا جاتا ہے۔
مسلمانوں میں ایک غلط فہمی پھیلائی گئی ہے کہ قرآن عام لوگوں کے لیے قابل فہم نہیں ہے اور صرف مذہبی اسکالرز کے پاس مقدس متن میں موجود گہرے معانی کو سمجھنے اور اس کی تشریح کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ افسانہ انہی لوگوں نے گھڑا ہے جو اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ اس غلط بیانی نے مذہبی اسکالرز کا طبقہ پیدا کیا ہے جس نے وقت کے ساتھ ساتھ مذہب اور مذہبی تعلیمات پر اجارہ داری حاصل کر لی ہے۔ صدیوں کے دوران، مختلف آیات کے نئے معنی تفویض کیے گئے ہیں اور پھر فرقہ ورانہ تنازعات میں استعمال کیے گئے ہیں اور آج بھی بہت شدت سے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا کے الفاظ صرف ایسی تشریحات کے لیے کھلے ہوں جو مخصوص افراد کے ذریعے قابل رسائی ہوں۔ اور اہم بات یہ کہ اکثر اوقات قرآن کی مختلف تشریحات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ عہد نبوی کے عرب زیادہ تر ناخواندہ تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ان کو ایسا پیغام دیا جاتا جس کو سمجھنے کے لیے علماء کی ضرورت محسوس ہو۔ اس طرح تو اس پیغام کی افادیت ہی ختم ہو جاتی۔
اور پھر قرآن کی آج کی تشریحات زیادہ تر ان کتب اور روایات پر مبنی ہیں جو رسول اللہ کی وفات کے صدیوں بعد وجود میں آئیں۔ میرے نزدیک مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ چودہ سو سالہ تاریخ میں روایات، اقوال، من گھڑت کہانیوں اور واقعات پر مشتمل ایسا مواد جمع ہو گیا ہے جس نے ان کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ ان حالات میں بالعموم ایک ایسا معاشرہ پیدا ہوا ہے جس کا مذہب کی روح سے کوئی تعلق نہیں۔
قرآن کی تو خوبی ہی یہ تھی کہ اس کا پیغام سیدھا سادہ تھا، جس کی پیروی کرتے ہوئے ایک ایسی قوم جس نے کبھی قانون کی حکمرانی نہیں دیکھی تھی، ایک عظیم تہذیب پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اور یہ اسلام کی پہلی دو صدیوں میں ہوا جب نہ حدیثوں کے مجموعے تھے، نہ قرآن کی تفسیریں تھیں، اور نہ ابتدائی اسلامی تاریخ کے ماخذ موجود تھے۔
قرآن کی مختلف آیات کو ڈاکٹری نسخوں کے طور پر تجویز کر کے بہت سے نام نہاد علما نے سادہ لوح عوام سے پیسے لوٹنے کا بندوبست کیا ہے۔ ایک مخصوص آیت اتنی دفعہ پڑھنے سے رزق میں آسودگی ہو گی، اس طرح ایک دوسری آیت پڑھنے سے فلاں بیماری دور ہو جائے گی، وغیرہ وغیرہ۔ ذرا رک کر غور کریں کہ کیا اسلام کے ابتدائی دور میں قرآن کا ایسا کردار رہا ہو گا۔ جس تہذیب نے وقت کے عظیم ترین سائنسدان اور طبیب پیدا کیے، کیا وہ اس قسم کے توہمات پر یقین رکھ سکتے تھے؟ ذرا تصور کریں کہ ابن سینا جن کی کتاب نے جدید میڈیکل تعلیم کی بنیاد فراہم کی، اور یہ کتاب مشرق وسطیٰ اور یورپ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں چھ سو سال سے زیادہ عرصے تک پڑھائی جاتی رہی، کیا اس قسم کی سوچ پر یقین رکھتے ہوں گے؟
مسلمانوں کی زندگی میں قرآن کی حیثیت وہی ہے جو کسی ملک کے شہریوں کے لیے آئین کی ہوتی ہے۔ آئین کو کسی معاشرے یا قوم کے لیے سب سے مقدس دستاویز سمجھا جاتا ہے۔ آئین کا کردار افراد کے حقوق اور ذمہ داریوں کی وضاحت کرنا ہے۔ یہ معاشرے کو چلانے کے لیے عمومی رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔ آئینی شقوں کو شاذ و نادر ہی تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہ معاشرے کو چلانے کے لیے ایک وسیع فریم ورک فراہم کرتا ہے لیکن تفصیل افراد اور معاشرے پر چھوڑ دی جاتی ہے۔ آئین وہ دستاویز نہیں ہے جس کا محض احترام کیا جائے۔ یہ تو وہ دستاویز ہے جس پر عمل کر کے ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس کی بنیادیں انصاف، امن اور باہمی احترام پر قائم ہوں۔
یہ ایسی دستاویز نہیں جس کی باقاعدگی سے نجی یا عوامی جلسوں میں تلاوت کی جاتی ہو۔ نہ ہی یہ ایسی دستاویز ہے جس کو طاقوں میں باعزت طریقے سے رکھا جاتا ہو۔ اور نہ ہی آئین کو حفظ کرنا کوئی کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایسی دستاویز بھی نہیں ہے جس کی مبینہ بے حرمتی پر لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھتے ہوں اور مبینہ بے حرمتی کے الزام میں انسانوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہو۔
یہاں تک کہ ایک عام شہری کو آئین کے صحیح الفاظ یاد نہ ہوں اور ہو سکتا ہے کہ اس نے ان الفاظ کو کبھی نہ پڑھا ہو، تب بھی اسے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اسے اس آئین کے تحت کیا حقوق اور ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ ایک ملک اور معاشرے میں عزت دار وہ فرد ہے جو ملک کے آئین کے الفاظ اور روح کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔
یہ وقت کی ضرورت ہے کہ مسلمان قرآن کو اسی طور اپنی زندگیوں میں نافذ کریں جو اس کا بنیادی مقصد تھا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ہر شخص جو مسلمان ہونے کا دعوے دار ہے، اپنے آپ کو صرف قرآن میں بیان کردہ قوانین کی پابندی تک محدود رکھے اور جن موضوعات پر قرآن خاموش ہے اس میں خود کو اور دوسرے مسلمانوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی سوچ کی بنیاد پر زندگی گزارنے میں آزاد تصور کرے۔ میرے نزدیک اسلامی معاشروں کی تباہی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کے علاوہ بہت ساری کتابوں اور روایات کو مذہب کا حصہ بنا لیا ہے اس سے چھٹکارا حاصل کر کے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔
ذرا غور کریں کہ نمازوں میں قرآن پڑھا جاتا ہے، لیکن عمومی طور پر اس طرح کہ معانی کی بالکل سمجھ نہ ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ یہ قرآن کی کتنی بڑی توہین ہے۔ اسی طرح مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کی جاتی ہے، جب کہ ابتدائی اسلام میں کوئی ایسی مستند روایات نہیں جن کے مطابق ایسا گمان ہو سکے۔ پھر مختلف آیات کے کچھ حیرت انگیز معنی دینے اور ان کی فرقہ ورانہ مقاصد کے مطابق تشریح کرنے کے بعد اکثر فرقہ ورانہ تنازعات میں قرآن کو پکارا جاتا ہے۔ قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں جس میں مستقبل کی پیش گوئی کی گئی ہو، لیکن قرآن کو فال نکالنے اور مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ قرآن کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔
قرآن سے وابستہ ایک اور حکایت نے جنم لیا ہے کہ یہ تو ساری سائنسی معلومات کا منبع ہے۔ اس سوچ نے ہماری نوجوان نسل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ قرآن کا مقصد تو محض زندگی گزارنے کا قرینہ سکھانا تھا۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کوئی ایک ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی نے قرآن کی بنیاد پر کوئی ایسی دریافت کی ہو جو سائنس کی کسوٹی پر پوری اترتی ہو۔ پچھلے سات سو سال کے دوران سائنس اور علم کے میدان میں شرمناک ناکامی نے اس رویے کی آبیاری کی ہے کہ سائنس مذہب کے تابع ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نشے میں دھت شخص کی طرح ہمارے مذہبی رہنما یہ دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ مغربی دنیا میں برپا ہونے والے سائنسی انقلاب اور اس سے وابستہ صنعتی اور ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے سائنسی تعلیم کی بجائے قرآن کو سمجھنا زیادہ اہم ہے۔
جب بھی کوئی مولانا عجیب و غریب اور ہوش ربا حکایات بیان کر کے یہ الفاظ استعمال کریں کہ کتب میں آیا ہے، تو فوراً یہ سوال بنتا ہے کہ وہ کون سی کتابیں ہیں؟ یہ کتابیں کس نے لکھیں؟ اور اہم بات یہ کہ یہ کتب کب لکھی گئیں؟ پتہ چلے گا کہ یہ ان کتب کا حوالہ دے رہے ہیں جو پیغمبر اسلام کی وفات کے سینکڑوں سال بعد لکھی گئیں۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام کی پہلی صدی سے کوئی تحریر یا روایت براہ راست ہم تک نہیں پہنچی۔ جو کچھ ہم ابتدائی اسلام کے بارے میں جانتے ہیں اس کی بنیاد وہ روایات، تاریخ اور تفسیریں ہیں جن کی تدوین کم از کم ڈیڑھ سو سال اور اکثر صورتوں میں کئی سو سال بعد کی گئیں۔
اگر ان مذہبی علما سے یہ سوالات باقاعدگی سے کیے جانے لگیں تو ہم کو اندازہ ہو گا کہ انہوں نے تو مذہب کی روح ہی چھین لی ہے جو صرف قرآن میں دیے گئے احکامات ہیں اور جن کا تعلق ہماری ذاتی زندگی سے ہے۔ انھوں نے تو کربلا، دجال، خلافت اور اسی قسم کے دوسرے تاریخی حوالوں کو دین بنا لیا ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ انہی رویوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہیں، انحطاط کا شکار نظر آتے ہیں۔ وہ ہر جگہ فرقہ بندی کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کی زیادہ تر توانائی، جو مختلف سائنسی علوم میں کارہائے نمایاں میں صرف ہونی چاہیے تھی، فرقہ بندی اور ان کی تاویلات پر صرف ہو رہی ہے۔