از:ڈاکٹر جی ایم بٹ
مختلف فرقوں کے درمیان زبانی جنگ محرم سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھی ۔ محرم میں اس جنگ نے شدت اختیار کی ۔ کربلا میں امام حسین اور اس کے ساتھیوں کی شہادت کے حوالے سے نام نہاد علما کو چھوڑکر امت مسلمہ میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا ہے ۔ عام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ یزید کی تخت نشینی صحیح فیصلہ نہیں تھا ۔ بعد میں یزید کے ہاتھوں اہل بیت کی شہادت ایک ایسا سانحہ ہے جس پر یزید کو معاف کرنے کو کوئی کم تر مسلمان بھی تیار نہیں ۔ عام لوگوں میں یہ متفقہ سوچ پائی جاتی ہے کہ حسین حق پر تھا اور یزید کی باضابطہ سازش سے مظلوم کی موت مارا گیا ۔ تاہم سعودی عربیہ میں وہابی حکومت قائم ہونے کے بعد اس نظریے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ وہاں کے حکمران چور دروازے سے داخل ہوکر وہاں کے نظام پر غلبہ پانے میں کامیاب ہوگیا ۔ امام عالی مقام اس طرح کے نظام کے خلاف ایک علامت کے طور مانے جاتے ہیں ۔ ملوکیت کو تسلیم کرنے کے بجائے انہوں نے اپنی جان دے دی ۔ اب سعودی حکمران حسینی نظریے کی حمایت کریں تو ظاہر سی بات ہے کہ یہ ان کے اپنے ہی نظام کے خلاف اعلان جنگ ہوگا ۔ کوئی بھی حکمران ایسا کرنے کو تیار نہیں ہوگا ۔ ایسی صورت میں انہیں حکومت سے دستبردار ہونا ہوگا ۔ ایسا عقل و فہم سے عاری کوئی شخص ہی کرسکتا ہے ۔ شہنشایت کے اپنے طویل دورانیہ میں انہوں نے سخت کوشش کی کہ مسلمان یزید کی ملوکیت کو حق بجانب سمجھنے لگیں ۔ لیکن کامیاب نہ ہوئے ۔ تاہم اپنے مال و زر کی مدد سے وہ علما کا ایک ایسا طبقہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے جو نہ صرف یزید کی حکمرانی کو صحیح بلکہ اہل بیت کی بغاوت کو باطل کہنے لگے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایسے نام نہاد علما جو ایک طرف اہل بیت کے قتل کو جائز اور دوسری طرف سعودیہ میں شاہی خاندان کی حکومت کو عین اسلام قرار دے رہے ہیں وہ ایسا صرف اور صرف مالی مفاد کے لئے کررہے ہیں ۔ سعودی شہنشاہیت قائم ہونے کے بعد چند علما نے کسی طرح کی لالچ سے بے پروا ہوکر شہادت حسین کو حق و صداقت قرار دیا ۔ تاہم ان کی تعداد قلیل ہے ۔ اس دوران ایسے مدرسوں اور دارالعلوموںسے جن کا پورا خرچہ سعودی حکومت سے حاصل کیا جاتا ہے نکلنے والے علما کی ذہن سازی کی گئی کہ وہ یزید کے اٹھائے گئے تمام اقدام کو صحیح اور اس کے خلاف نکلنے والوں کو غلط قرار دیں ۔ کشمیر میں تین دہائیاں پہلے تک ایسی کوئی آواز اٹھائی گئی نہ اس کی حمایت کرنے کو کوئی تیار تھا ۔ لیکن دیوبند اور اس قبیل کے کئے دوسرے وظیفہ خوار اداروں سے بڑی تعداد میں ایسے لوگ تیار کئے گئے جنہوں نے کشمیر میں بڑے منظم انداز میں تحریک چلاکر حسینی قافلے کو بھٹکا ہوا قافلہ اور یزیدی کاروائی کو عین اسلام قرار دینا شروع کیا ۔ وہ اس حوالے سے براہ راست حسین کا نام لے کر اس کی تکفیر تو نہیں کرسکے ۔ تاہم شیعت کی آڑ لے کر پورے کشمیر میں ایک ایسی جنگ شروع کی جس کی اس سے پہلے عوامی حلقوں میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔ اس دوران شیعہ علما بھی سامنے آگئے اور علمائے اہل سنت کی آڑ لے کر اصحاب رسول پر تنقید و طعن کرنے لگے ۔ اس طرح سے دونوں طرف سے گالی گلوچ ہونے لگا ۔ مبارک بادی کے حق دار ہیں کشمیر کے عوام کہ انہوں نے لاکھ کوششوں کے باوجود اس لڑائی کا حصہ بننے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ۔ یہاں تک کہ دونوں طرف کے علما خجل و خوار ہوگئے ۔ پہلے ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ دے کر آگ بڑھکانے کی ہر کوشش کی گئی ۔ سب کچھ بے کار ہوگیا تو صلاح کرنے کی ٹھان لی اور جاری کئے گئے بیانات سے مکمل طور انکار کیا ۔ پہلے جو جنگ چھیڑی گئی وہ بھی معنی خیز تھی ۔ بعد میں مضبوط ، مربوط اور مستحکم اتحاد کا جو اعلان کیا گیا وہ بھی معنی خیز ہے ۔
کشمیر کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک جو فرقہ وارانہ لڑائی لڑنے کی کوشش کی گئی وہ تو ناکام ہوکر رہ گئی ۔ تاہم اس سرپھٹول میں دونوں طرف کے علما پوری طرح سے عریان اور ننگے ہوکر رہ گئے ۔ یہاں تک کہ میر واعظ منزل اورامامیہ ہائوس سے جاری ہونے والے بیانات کی نفی کردی گئی ۔ رہا سوال بانڈی پورہ کے کوٹھے سے پلنے والی سازشوں کا تو ان سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے ۔ یہ تجارتی منڈی شہر وگام ایک وسیع کاروبار پھیلانے میں کامیاب ہوئی جس کی بنیاد شر اور فساد پر مبنی ہے ۔ سود ، ڈاکہ اور بھیک کے اس کاروبار میں سب کچھ ہے ۔ صرف اسلام یہاں سے غائب ہے ۔ یہاں پر پلنے والی شر انگیزی نے وقف بورڈ کو بھی ناکام کردیا اور اپنے پر سمیٹنے پر مجبور کیا ۔ کہا جائے تو ان کی خاموشی بھی معنی خیز ہے ۔ فی الوقت ان اداروں سے اٹھنے والے خطرے کو ٹالا گیا ۔ لیکن یہ کسی بھی وقت دوبارہ سر نکال سکتا ہے ۔ آج کے ڈیجیٹل زمانے میں شر کو پھیلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا ہے ۔ ایسی ڈیجیٹل شرانگیزی سرپھٹول تک ہی محدود نہیں رہ سکتی بلکہ مسلح تصادم اور خون خرابے کا رنگ اختیار کرسکتی ہے ۔ ہمسایہ ملک میں اس کا نتیجہ پہلے ہی دیکھا گیا ہے ۔ امن قائم کرنا سیول لوگوں کا نہیں بلکہ سرکار کاکام ہے ۔ لوگ آہستہ آہستہ سمجھ رہے ہیں کہ دین کے نام پر ایک مافیا کام کررہاہے ۔ اس کے ذرایع آمدنی پر روک لگ جائے اور کالے دھندے سے کمایا گیا پیسہ کم پڑنے لگے تو ان کے لئے اپنا ٹھاٹھ باٹھ جاری رکھنے کا ایک ہی طریقہ باقی بچتا ہے ۔ وہ طریقہ ہے عوام میں تفرقہ پھیلانا ۔ تفرقہ بازوں کو زیادہ موقع دیا جائے تو وہ فرقہ واریت کی جنگ کو کسی بھی وقت دوبارہ چھیڑ لیں گے ۔ معاشرے میں پہلے ہہی جرائم کی شرح تشویش ناک حد سے بڑھ گئی ہے ۔ اس دوران مذہبی منافرت پھیلانا کوئی مشکل کام نہیں ۔ جن لوگوں کی روزی روٹی اس مسئلے سے جڑی ہے وہ کسی بھی صورت میں اس کو ختم نہیں ہونے دیں گے ۔