تحریر:جی ، ایم بٹ
یہ ہے مسلم قیادت کا المیہ ۔ ایک ایسی تنظیم کا سربراہ جو نصف دنیا کے خلاف حالت جنگ میں ہے ، پناہ گاہ سے نکل کر دوسرے ملک کو پہنچ جاتا ہے ۔ جہاں اس پر دن دہاڑے میزائل حملہ ہوتا ہے اور وہ شہید ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد ساری دنیا میں چیخ و پکارشروع ہوتی ہے اور اسے مجرمانہ حملہ قرار دیا جاتا ہے ۔ عالمی اصولوں اور قراردادوں کی ریفرنس دے کر تحقیقات کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔نعرہ بازی ہوتی ہے اور ہلاکت کا بدلہ لینے کااعلان کیا جاتا ہے ۔ اس دوران جنازے پڑھے جاتے ہیں اور تدفین کی جاتی ہے ۔ اس طرح سے پچھلے پچاس یا سو سالوں سے چل رہے ڈراما کا ایک اور سین مکمل ہوتا ہے ۔ پردہ گرجاتا ہے ۔ سب اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں ۔ ہر ایک کو یہی فکر لاحق ہے کہ اس کی جان بچ جائے اور اقتدار محفوظ رہے ۔ بدلہ کون لے گا اور تحقیقات کون کرے گا کسی کو معلوم نہیں ۔ اسماعیل ھنیہ کی ہلاکت کے ساتھ بھی یہی ہوگا ۔ ایک دو ہفتے تعزیتی پیغامات اور تقریبات کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ یہاں تک کہ لوگ بھول جائیں گے کہ ایسا کوئی حادثہ ہوا تھا ۔ اس طرح سے مسلم مزاحمت کا ایک اور باب بند ہوگا ۔
اسماعیل ھنیہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والی عسکری تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ تھے ۔ ان کو ہلاک کرنے کی اس سے پہلے کئی کوششیں کی گئیں ۔ ان کے سارے خاندان کا صفایا کیا گیا ۔ تین بیٹوں اور کئی پوتوں پوتیوں سمیت خاندان کے 60 افراد مارے گئے ۔اطلاعات کے مطابق اسمائیل ھنیہ کئی دوسرے عالمی رہنمائوں سمیت ایران کے صدر کی حلف برداری کی تقریب میں حصہ لینے کے لئے تہران آئے تھے ۔ جہاں ان کی قیام گاہ پر میزائل حملہ کیا گیا اور وہ اس حملے میں مارے گئے ۔ حماس کے علاوہ ایران نے اس ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے ۔ ایسا بدلہ واقعی لیا جائے گا اس حوالے سے کوئی شک و شبہ نہیں کہ ایک روایتی بیان ہے جو عام طور پر ایسی ہلاکتوں کے موقعے پر دیا جاتا ہے ۔ نصف صدی پہلے جب سعودیہ کے سربراہ شاہ فیصل کو ایک سازش میں مارا گیا تو من و عن یہی بیان دیا گیا ۔ پاکستان کے فوجی سربراہ اور صدر مملکت ضیاء الحق کو مارا گیا تو یہی بیان دیا گیا ۔ ایران کے فوجی کمانڈر کو مارا گیا تو زیادہ تند و تیز بیان دیا گیا ۔ اسامہ بن لادن کو فوجی کاروائی میں مارا گیا تو القاعدہ کے لیڈروں نے اس کا بدلہ لینے کی دھمکی دی گئی ۔حماس کے دوسرے کئی لیڈر ہلاک کئے گئے تو بدلے کا یقین دلایا گیا ۔ امت مسلمہ آج تک ان بیانات کا مزہ لے رہی ہے اور بدلے کا انتظار کررہی ہے ۔ معلوم نہیں کہ بدلے کا وقت کب آئے گا اور اسرائیل و امریکہ کے کتنے لیڈر مارے جائیں گے ۔ یہ کہانی پھر سہی ۔ تاہم یہ بات بڑے افسوس کی ہے کہ لوگ ایسے بیانات پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ ایک کے بعد ایک مسلم سربراہ مارا جاتا ہے ۔ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ اس کے باوجود لوگ سہانے خواب دیکھ رہے ہیں اور انتظار کررہے ہیں کہ آج نہیں تو کل ان کے اچھے دن شروع ہونگے ۔ اسماعیل ھنیہ کو پوری دنیا کے حکومتی سربراہوں کی موجودگی میں نشانہ بناکر ہلاک کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل یا امریکہ کا کوئی بال بھانکا نہیں کرسکتا ہے ۔ وہ جب چاہیں اور جس وقت چاہیں کسی بھی مسلم ملک یا سربراہ کے خلاف کاروائی کرسکتے ہیں ۔ یہ ان کی شرافت اور برداشت کا نتیجہ ہے کہ مسلم دنیا اب تک سلامتی کی زندگی گزاررہی ہے ۔ یہ ملک ایک سیکنڈ میں پوری مسلم قیادت کو فنا کی گھاٹ اتارسکتے ہیں ۔ بلکہ کرہ ارض پر مسلمانوں کا جینا حرام کرسکتے ہیں ۔ ان کا کوئی پوچھنے والا ہے نہ روکنے والا ۔ یہ اپنی مرضی سے ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے ۔ اس کے باوجود یہ آگ لگانے اور مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے سے احتراز کئے ہوئے ہیں مسلمانوں کو ان کا شکر گزار ہونا چاہے ۔ اسمائیل ھنیہ اس وقت مسلمانوں کے سب سے چہیتے لیڈر تھے ۔ بلکہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سخت ترین حالات میں بھی بڑی خندہ پیشانی سے اپنی ذمہ داری انجام دیتے تھے ۔ ان کی بے پناہ صلاحتیں تھیں ۔ ایک محنتی اور مدبر سیاست دان کے طور شہرت رکھتے تھے ۔ غزہ کے بجائے بیرون ملک رہ کر سفارتی ذمہ داریاں نبا رہے تھے ۔ اس کے باوجود نازک ترین حالات میں اپنی پناہ گاہ سے نکل کر ایران پہنچ گئے ۔ ممکن ہے کہ اس خوش فہمی میں رہے ہوں کہ وہاں جاکر ایرانی قیادت کے علاوہ دوسرے رہنمائوں سے مل کر فلسطین کے لئے حمایت حاصل کرسکیں ۔ اس سے بڑھ کر کوئی غلط فہمی ہو نہیں سکتی ۔ پورے عرب کے سربراہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ موجودہ عرب سربراہوں میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے خلاف امریکیوں یا اسرائیلیوں کے دل میں کوئی رنجش پائی جاتی ہو ۔ کسی ایک کے خلاف بم گرانا تو کیا پٹاخہ بھی نہیں چھوڑا گیا ۔ عراق کے صدام حسین اور مصر کے محمد مرسی نے معمولی مزاحمت دکھائی ۔ دونوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ۔ بلکہ اس کاروائی میں انہیں ایران سمیت پوری مسلم دنیا کی حمایت حاصل تھی ۔ اس کے باوجود اسماعیل ھنیہ نے اپنی محفوظ پناہ گاہ سے نکل کر تہران آنے کی شدید غلطی کی اور خمیازہ اٹھایا ۔ ایران کی خواہش ہے کہ عرب دنیا میں حزب اللہ ایک واحد مزاحمتی فورس کی حیثیت سے حاصل کرے اور یہی واحد تنظیم موجود رہے ۔ ایران کی مذہبی قیادت کسی اور تنظیم کی جدوجہد کو جہاد ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ باقی تنظیموں کے بجائے صرف حزب اللہ کو سفارتی مدد کر رہی ہے ۔ بیانات کی حد تک حماس کی بھی حمایت کی گئی ۔ لیکن حقیقت میں تنظیم کو علاقے میں ایران مفادات کے متصادم خیال کیا جاتا رہا ۔ حماس کے پاکستان سمیت کئی ایران دشمن حکومتوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیںبلکہ ان ممالک میں حماس لیڈروں کی بڑی عزت کی جاتی ہے ۔ ایران کو یہ سب کچھ قبول نہیں۔ اس کے باوجود اسماعیل ھنیہ جیسے زیرک سیاسی لیڈرنے تہران آنے کی بڑی غلطی کی ۔ مزاحمتی تنظیموں کے لئے ایسی غلطیاں ناقابل معافی ہوتی ہیں ۔ اس وجہ سے ھنیہ بھی مارے گئے ۔ یہ ہلاکت فلسطینی عوام کے لئے دوررس نتائج کی باعث ہوگی اور انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔