ڈاکٹر سہیل زبیری
حضرت محمد ﷺ تاریخ کی عظیم ترین شخصیت ہیں۔ انہوں نے ایک مذہب کی بنیاد رکھی، جس نے ایک عظیم سلطنت قائم کی اور ایک بہترین تہذیب کو جنم دیا۔ عظمت میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔ جب وہ 570 ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تو عرب وہ پسماندہ علاقہ تھا جو اس وقت کی دو سپر پاورز فارس اور بازنطین کی توجہ کے لائق تک نہیں تھا۔ وہ ایک ایسے قبائلی معاشرے میں یتیم پیدا ہوئے جہاں آبائی نسب وقار اور تحفظ کا ضامن تھا۔ سنہ 632 میں 63 سال کی عمر میں جب ان کی وفات ہوئی تو وہ ایک سادہ اور روشن خیال مذہب اسلام قائم کر چکے تھے۔
ان پر 23 سال کے دوران نازل ہونے والی وحی کا مجموعہ قرآن کی صورت میں مرتب کیا گیا جس نے اسلامی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے۔ انہوں نے جزیرہ نما عرب کو ایک مذہب کے تحت یکجا کیا۔ چند برس کے اندر، ان کے پیروکار بحر اوقیانوس کے ساحلوں سے لے کر راجستھان کے صحراؤں تک پھیلی ہوئی ایک سلطنت کے مالک تھے جس نے اس دنیا میں، جو کئی صدیوں پہلے تاریک دور میں چلی گئی تھی، ایک روشن خیال تہذیب کو جنم دیا۔ آج ان کے پیروکاروں کی تعداد 1.9 بلین سے زیادہ ہے، جو دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے۔
حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ پر بہت بڑی تعداد میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان کتابوں میں ان کی پیدائش سے لے کر ان کی وفات تک کے حالات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی زندگی کے بارے میں روایات کی ایک بہت بڑی تعداد کے باوجود یہ موضوع اسلامی معاشروں میں تقریباً کبھی زیر بحث نہیں آتا کہ ان روایات کا ماخذ کیا ہے۔ یہ روایات سب سے پہلے کس نے اور کب بیان کیں؟
اس مقالے کا مقصد سیرت نبوی کے تاریخی ماخذ کا جائزہ لینا ہے۔
ایک حقیقت جس کا ذکر عام طور پر اسلامی معاشروں میں نہیں کیا جاتا، وہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کی زندگی کے بارے میں تقریباً تمام روایات ہمارے پاس آٹھویں صدی کے آخر میں، نبی ﷺ کی وفات کے تقریباً 150 سال بعد کے ذرائع سے آئی ہیں۔ ساتویں صدی کے اواخر میں عبدالملک بن مروان ( 685۔ 705 ) کے دور تک اسلامی معاصر ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صرف چند اسلامی اور غیر اسلامی ذرائع ہیں جو انتہائی مختصر ہیں اور کسی تفصیل سے عاری ہیں۔ یہ مآخذ اگرچہ تاریخی نقطہ نظر سے انتہائی قیمتی ہیں لیکن اپنے اختصار کے لحاظ سے نبی ﷺ کی زندگی کے بارے میں کوئی قابل ذکر تفصیل بیان نہیں کرتے۔
اسلام کی پہلی صدی، یعنی 622 عیسوی سے 720 عیسوی تک کے عرصے میں، صرف چالیس ایسے متن موجود ہیں جن میں پیغمبرﷺ کا ذکر موجود ہے۔ ان میں سے اٹھائیس دستاویز ات مسلم تحریروں پر مشتمل ہیں۔ باقی عیسائی ادبی تحریریں ہیں۔ یہ سب مختصر ہیں اور نبی کی زندگی پر روشنی نہیں ڈالتیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عصری تحریروں اور روایات میں ان کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ لیکن یہ تحریریں وقت کے ہاتھوں ضائع ہو گئیں۔ بعد کے مورخین نے ان ابتدائی ماخذوں سے ضرور استفادہ کیا ہو گا، لیکن اہم بات یہ ہے کہ آج ہم پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں جو کچھ بھی جانتے ہیں، وہ ان ذرائع سے حاصل ہوا ہے جو ان کی وفات کے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد لکھے گئے۔
پیغمبر ﷺ کا پہلا تذکرہ 637 عیسوی میں لکھے گئے میں ایک نوٹ میں ملتا ہے جس میں کسی ’جنگ گبیتھا‘ کے ایک عینی شاہد کے بیان کا تذکرہ ہے۔ یہاں ’جنگ گبیتھا‘ سے مراد غالباً جنگ یرموک ہے۔
نبی ﷺ کی مزید تفصیل 660 عیسوی میں لکھی گئی ایک تاریخ کی کتاب میں ملتی ہے جو ایک عیسائی بشپ، سیبیوس، نے، پیغمبر کی وفات کے 28 سال بعد لکھی تھی۔ اس میں کچھ اسلامی عقائد کا ذکر بھی شامل ہے۔ سیبیوس اپنی کتاب میں عرب فتوحات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”اس وقت بنی اسماعیل میں ایک شخص تھے جن کا نام محمد ﷺ تھا، وہ ایک سوداگر تھے، وہ خدا کے حکم سے ان (بنی اسماعیل) کے سامنے ایک مبلغ [اور] راہِ حق کے داعی کے طور پر ظاہر ہوئے۔ انھوں نے انہیں ابراہیم کے خدا کو پہچاننا سکھایا، خاص طور پر اس لیے کہ وہ موسیٰ کی تاریخ سے روشناس تھے۔ اب چونکہ حکم خدا کی طرف سے تھا، اس لیے ایک ہی حکم سے وہ سب ایک دین میں متحد ہو گئے۔ اپنے بیکار فرقوں کو چھوڑ کر ، وہ اس زندہ خدا کی طرف متوجہ ہوئے جو ان کے باپ ابراہیم پر ظاہر ہوا تھا۔
چنانچہ، محمد ﷺ نے ان کے لیے قوانین بنائے : مردار نہ کھانا، شراب نہ پینا، جھوٹی باتیں نہ کرنا، اور زناکاری میں ملوث نہ ہونا۔ انھوں نے بتایا : قسم کے ساتھ خدا نے ہمیشہ کے لیے اس زمین کا وعدہ ابراہیم اور ان کے بعد ان کی نسل سے کیا تھا۔ اور اس نے اس زمانے میں اپنے وعدے کے مطابق عمل کیا جب وہ اسماعیل سے محبت کرتا تھا۔ لیکن اب آپ ابراہیم کے بیٹے ہیں اور خدا آپ کے لئے ابراہیم اور ان کی نسل سے اپنا وعدہ پورا کر رہا ہے۔ صرف ابراہیم کے خدا سے سچے دل سے محبت کرو اور جا کر اس ملک پر قبضہ کرو جو خدا نے تمہارے باپ ابراہیم کو دیا تھا۔ جنگ میں کوئی بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گا، کیونکہ اللہ تمہارے ساتھ ہے۔“
اس طور سیبیوس پیغمبر ﷺ کی تعلیمات کا ایک اچھا خلاصہ پیش کرتے ہیں، جن میں ایک خدا پر یقین، یہودیوں اور عربوں کے مشترکہ اجداد کے طور پر ابراہیم کا ذکر، اور مردار کھانے، شراب پینے، جھوٹ بولنے، اور زنا میں ملوث ہونے پر پابندیاں۔ یہ تعلیمات قرآن میں مذکور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں۔
پیغمبر اسلام ﷺ کا ذکر کرنے والا سب سے قدیم مسلم ذریعہ 685 میں عبداللہ ابن زبیر کے دور حکومت میں ایک سکہ ہے جس پر محمد رسول اللہ لکھا ہے۔
ایک اور دلچسپ تذکرہ جان بار پینکائی کا ہے جو میسوپوٹیمیا کے رہنے والے تھے اور جان کارمول کی خانقاہ کے رہائشی تھے۔ اس خانقاہ میں ہی انھوں نے ایک کتاب لکھی، جو دنیا کی تخلیق سے لے کر اس وقت تک کی ایک مختصر تاریخ ہے۔ اس کتاب کے آخری باب میں وہ عرب کی فتوحات اور 686 عیسوی کے تباہ کن قحط اور طاعون کا ذکر کرتے ہیں۔ پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں وہ کہتے ہیں :
”ان (فارس اور شام) کے مابین کافی لڑائی ہو چکی تھی، اہل مغرب نے، جنہیں وہ بنی امیہ کہتے ہیں، فتح حاصل کر لی، اور ان میں سے ایک شخص، جن کا نام معاویہ تھا، فارس اور بازنطین، دونوں ریاستوں کے بادشاہ بن گئے۔ ان کے زمانے میں انصاف کا دور دورہ تھا، اور ان کے زیر انتظام علاقوں میں بہت امن تھا۔ انہوں نے ہر ایک کو اپنی مرضی کے مطابق رہنے دیا۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا، ان کے پاس، عیسائیوں اور ان کی خانقاہوں کے بارے میں ایک ایسے شخص کی طرف سے احکامات تھے جو ان کا رہنما تھا۔ نیز اس آدمی کی رہنمائی کے نتیجے میں وہ قدیم قانون کے رواج کے مطابق ایک خدا کی عبادت پر قائم رہے۔ ابتدا میں انہوں نے محمد ﷺ کی روایات کو برقرار رکھا، جو ان کے استاد تھے، اس حد تک کہ جو بھی ان کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا دیکھا جاتا، اس کو سزائے موت دی جاتی۔“
یہ دلچسپ بات ہے کہ عباسی دور میں لکھے گئے بعد کے کچھ مسلم ذرائع کے برعکس، معاویہ کو ایک ایسے شخص کے طور پر بیان کیا گیا ہے جنہوں نے پیغمبر ﷺ کی تعلیمات کے مطابق قانون کی حکمرانی کو نافذ کیا۔
اسلامی مآخذ میں پیغمبر ﷺ کا پہلا تفصیلی تذکرہ جو ہم تک پہنچا ہے وہ یروشلم میں بیت المقدس کے گنبد پر درج نوشتہ جات سے ملتا ہے جسے اموی خلیفہ عبد الملک ابن مروان نے 692 عیسوی کے لگ بھگ تعمیر کروایا تھا۔ مثال کے طور پر گنبد کی بیرونی سطح پر مندر جہ ذیل الفاظ تحریر ہیں :
”محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اللہ ان پر سلامتی عطا فرمائے۔ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ بے شک خدا اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو ان پر درود بھیجو! محمد اللہ کے رسول ہیں، ان پر اللہ کی رحمتیں ہوں اور فرشتے اور اس کے نبیوں کی، اور ان پر سلام ہو، اور اللہ کی رحمت ہو۔ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، ان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں۔ وہ قیامت کے دن ان کی شفاعت کو قبول فرمائے۔“
اسلامی تاریخ کے پہلے سو سالہ دور میں حضور ﷺ کے ارشادات کو مرتب کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ اس دور میں اسلام کی ابتدا کے بارے میں کچھ تحریریں ضرور موجود ہوں گی لیکن وہ سلامت نہیں رہیں۔ نبی ﷺ کی زندگی پر بعد کی تحریریں انہی ابتدائی ماخذوں پر مبنی معلوم ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے اولین عروہ بن الزبیر تھے جو عائشہ کے بھتیجے تھے۔ عائشہ، رسول اللہ ﷺ کی بیوی اور خلیفہ اول ابو بکر کی بیٹی تھیں۔ بعد کے مؤرخین میں سے اکثر نے نبی ﷺ کی زندگی کے پہلوؤں کے بارے میں عروہ بن الزبیر کی ان روایات کا حوالہ دیا ہے جو انھوں نے اپنی خالہ عائشہ سے حاصل کی تھیں۔ عروہ کا انتقال 713 عیسوی کے لگ بھگ ہوا۔
ایک اور اہم شخصیت وہب بن منبیح ہے جو آٹھویں صدی کے پہلے نصف میں زندہ رہے۔ ان کی کوئی بھی کتاب ہم تک نہیں پہنچی لیکن بعد کے مورخین ابن اسحاق، ابن ہشام اور ابن جریر الطبری نے ان کی تصانیف کا حوالہ دیا۔
ایک اور مرکزی شخصیت ابن شہاب الزہری ہیں جنہوں نے حدیث اور مغازی (فوجی مہمات کی کہانیاں) دونوں کو جمع کیا۔ ان کے شاگرد موسیٰ بن عقبہ نے کتاب المغازی لکھی، جو کہ نبی ﷺ کے دور میں ہونے والی لڑائیوں کو بیان کرتی ہے۔ اس زمانے میں تاریخ لکھنے کا یہ عام طریقہ تھا۔ مخصوص واقعات، خاص طور پر لڑائیوں کو عموماً شاعری میں بیان کیا جاتا تھا۔ ان ذرائع میں سے کوئی بھی نہیں بچا۔
پیغمبر اسلام (ص) کی مسلسل سیرت لکھنے والے پہلے شخص محمد بن اسحاق تھے جو الزہری کے ایک اور شاگرد تھے۔ نبی ﷺ کی زندگی کی تاریخ کے بارے میں جو کچھ ہم جانتے ہیں ان میں سے زیادہ تر ان کی کتاب سیرت رسول للہ سے آتا ہے جو آٹھویں صدی کے آخر میں لکھی گئی تھی۔
ابن اسحاق کی تصنیف پر بات کرنے سے پہلے، میں ایک مختصر تاریخی جائزہ پیش کرتا ہوں تاکہ اس زمانے کو سمجھا جا سکے جب یہ کتابیں اور ابتدائی اسلام کے دیگر ماخذ لکھے اور مرتب کیے گئے۔
اسلامی دور کے پہلے 150 سال ایک ہنگامہ خیز دور تھا۔ مدینہ کے برسوں ( 622۔ 632 ) کے دوران، تین اہم جنگیں ہوئیں، بدر، احد اور خندق۔ 630 میں، رسول اللہ ﷺ کی وفات سے دو سال پہلے، مکہ فتح ہو گیا۔ کچھ دیگر فوجی مہمات کے نتیجے میں، پورا جزیرہ نما عرب اس وقت تک مسلمان ہو چکا تھا جب 632 میں نبی ﷺ کی وفات ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان اپنے اطراف کی سلطنتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ عمر بن خطاب ( 634۔ 644 ) کے دور خلافت میں قادسیہ (نومبر 636 ) اور یرموک (اگست 636 ) کی مشہور لڑائیوں میں وقت کی دو سپر طاقتوں فارس اور بازنطین (شام) کو شکست دے کر مسلمان عالمی منظر نامے پر نمودار ہوئے۔
عمر بن خطاب کے دور میں فارس، شام اور مصر کی فتوحات نے اسلامی سلطنت کو مشرق وسطیٰ کے ایک بڑے حصے تک پھیلا دیا۔ 662 میں، علی ابن ابو طالب اور معاویہ ابن ابو سفیان کے درمیان خانہ جنگی کے بعد ، بنو امیہ نے اقتدار پر قبضہ کیا، اور دمشق کو دارالحکومت قرار دے دیا۔ امیہ بن عبد شمس، جن کی اولاد میں عثمان بن عفان، ابو سفیان، اور مروان بن حکم شامل تھے، ہاشم کے بھتیجے تھے جو نبی ﷺ کے پردادا تھے۔ بنی امیہ اور ہاشم کے درمیان قبیلے کی بالادستی کے لیے خاندانی دشمنی تھی جس کے اسلامی تاریخ اور اس کے نتیجے میں عالمی تاریخ کے لیے اہم نتائج برآمد ہوئے۔
682 عیسوی میں ہونے والے کربلا کے المناک واقعہ میں رسول اللہ ﷺ کے نواسے حسین اور ان کے ساتھیوں کو یزید بن معاویہ کی فوجوں کے ہاتھوں قتل کیا گیا، اس واقعے نے دونوں قبیلوں کے درمیان دشمنی کو مزید مضبوط کیا۔ اموی خاندان (661۔ 750) کی حکومت کے دوران، شمالی افریقہ، سپین، مغربی چین (سنکیانگ) ، اور مغربی ہندوستان (جدید پاکستان) مسلم حکمرانی کے تحت آئے۔
750 عیسوی میں خاندان کی ہاشمی شاخ نے اموی خلافت کا تختہ الٹ دیا۔ ابو العباس السفاح جو رسول اللہ ﷺ کے چچا عباس بن عبدالمطلب کے پڑپوتے تھے، امویوں کو شکست دے کر عباسی خاندان کے پہلے خلیفہ بنے۔ یہ تبدیلی بہت خون ریز تھی۔ عباسیوں نے چن چن کر امیہ کی تقریباً تمام اولاد کو قتل کر ڈالا، اور اموی خلفا کی لاشوں کو دریا برد کر دیا۔ السفاح نے صرف چار سال حکومت کی۔ 754 عیسوی میں السفاح کے بھائی المنصور خلیفہ بنے۔
انہوں نے 775 عیسوی تک تقریباً بائیس سال حکومت کی۔ المنصور کے نسبتاً پرامن دور نے عباسی اقتدار کو مستحکم کیا۔ خلافت میں ان کی پیروی ہارون الرشید ( 786۔ 809 ) اور المامون ( 813۔ 833 ) جیسی شخصیات نے کی جن کے دور حکومت اسلامی تاریخ میں سب سے درخشاں ہیں کیونکہ اس دور میں اسلامی سنہری دور کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ المنصور نے دارالحکومت کو دمشق سے عراق میں کوفہ منتقل کیا اور پھر قریب ہی ایک نیا دارالحکومت بنایا اور اس کا نام بغداد رکھا۔ بغداد جلد ہی مذہبی اور غیر مذہبی دونوں لحاظ سے علم کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔ یہ وہ عبوری دور ہے جب اسلامی دور کی تاریخ لکھنے، اسلامی قانون (فقہ) کی تشکیل اور اقوالِ رسول (حدیث) کو جمع کرنے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، پیغمبر اسلام (ص) کی سب سے پہلی تفصیلی سیرت محمد بن اسحاق نے لکھی تھی۔ ابن اسحاق مدینے میں 704 عیسوی میں اموی دور حکومت کے عروج کے دوران پیدا ہوئے۔ ان کے دادا، یاسر، وسطی عراق میں رہتے تھے اور خالد بن ولید کی فوجوں کے ہاتھوں عراق کی فتح کے بعد ان کو ایک غلام کے طور پر مدینہ لایا گیا جہاں انھوں نے اسلام قبول کیا۔ ابن اسحاق کی ابتدائی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔
اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ وہ اپنی کم عمری میں ہی مغازی ادب اور اقوال نبوی کو جمع کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ بعد ازاں زندگی میں، وہ دارالحکومت بغداد چلے گئے جہاں انہیں خلیفہ المنصور نے آدم سے لے کر اس وقت تک کی تاریخ لکھنے کا حکم دیا تھا۔ سیرت رسول اللہ اس بڑے کام کا ایک حصہ ہے جس کا عنوان ہے المبتداء و البطع و المغازی (شروع میں، مشن [محمد ﷺ کا اور مہمات) ۔ ابن اسحاق کی وفات 767 عیسوی میں خلیفہ المنصور کے دور میں ہوئی۔
ابن اسحاق کی کتاب المبتدہ کی تدوین ابن ہشام (متوفی 833 ) نے نویں صدی کے اوائل میں کی۔ ابن ہشام نے آدم سے لے کر نبی ﷺ کی ولادت تک کے واقعات کو ہٹا دیا اور ابن اسحاق کی اصل کتاب کا صرف وہی حصہ باقی رکھا جو رسول اللہ ﷺ کی زندگی سے متعلق تھا۔ یہ ترمیم شدہ نسخہ سیرت رسول للہ کے نام سے ہمارے پاس آیا ہے۔ یہ نبی ﷺ کی زندگی کے واقعات کے بارے میں سب سے قدیم معلوم ماخذ ہے۔ ہر وہ چیز جو ہم ان کی زندگی کے بارے میں جانتے ہیں : ان کی پیدائش، ان کے چچا ابو طالب کی صحبت میں شام کے ابتدائی تجارتی دورے، 25 سال کی عمر میں امیر بیوہ خدیجہ سے ان کی شادی، 40 سال کی عمر میں کوہ حرا پر ان کی نبوت، اللہ کی عبادت کے لیے ان کی دعوت، مکہ میں ایک خدا کے پیغام کی مخالفت، 622 میں ان کی مدینہ کی طرف ہجرت، بدر، احد اور خندق کی لڑائیاں، فتح مکہ، ان کا آخری خطبہ، اور ان کی وفات، ان سب کا منبع ابن اسحاق کی سیرت رسول اللہ کا یہ مختصر نسخہ ہے۔ بعد کے مورخین، جیسا کہ ابن جریر الطبری، نے نبی ﷺ کی زندگی کی وضاحت کے لیے سیرت پر انحصار کیا۔
ابن اسحاق کا نبی ﷺ کی زندگی کے مختلف واقعات کو بیان کرنے کا طریقہ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ روایات کو یکجا کر کے ایک مربوط انداز میں پیش کرنا تھا۔ یہاں ان کے طریقہ انداز کی وضاحت کو تین مثالوں سے واضح کرتا ہوں۔
ابن اسحاق شب معراج اور آسمان کے سفر کی داستان کا تعارف ان الفاظ میں کرتے ہیں :
”مندرجہ ذیل روایت مجھے عبداللہ بن مسعود اور ابو سعید الخدری، اور نبی کی بیوی عائشہ، اور معاویہ بن ابو سفیان اور حسن بن ابوالحسن البصری، اور ابن شہاب الزہری، اور قتادہ اور دوسرے محدثین، اور ام ہانی بنت ابو طالب سے موصول ہوئی۔ میں نے ان روایات کو ایک کہانی کی شکل میں اس طرح ایک ساتھ جو ڑاہے کہ ان میں سے ہر ایک نے ان واقعات کے بارے میں جو انہیں (پیغمبر کے) رات کے سفر کے بارے میں بتائے گئے تھے، کچھ حصہ ڈالا ہے“ ۔
دوسری دو روایتیں، ایک جنگ بدر اور دوسری جنگ احد کے بارے میں، اسی طرح پیش کی گئی ہیں :
”محمد بن مسلم الزہری اور عاصم بن عمر بن قتادہ اور عبداللہ بن ابوبکر اور یزید بن رومان اور عروہ بن زبیر اور ابن عباس سے ہمارے دوسرے علماء، ان میں سے ہر ایک نے مجھے اس واقعے کے بارے میں کچھ بتایا۔ ان روایات کو میں نے بدر کے واقعے کی شکل میں جمع کیا ہے۔ “
”میں نے احد کی جنگ کے بارے میں مندرجہ ذیل کہانی ان روایات کی بنیاد پر تشکیل دی ہے جو مجھے محمد بن علی اور مسلم الزہری اور محمد بن یحییٰ بن حبان اور عاصم بن عمر بن قتادہ اور الحسین بن عبدالرحمٰن بن عمر بن سعد بن معاذ اور دوسرے علمی محدثین نے بتائیں۔ ایک یا دوسرا یا ان میں سے سب ہی مندرجہ ذیل روایت کے ذمہ دار ہیں۔“
یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ ابن اسحاق نے کس طرح ایک ہی واقعہ کی تفصیلات کے مختلف پہلو مختلف ذرائع سے جمع کرنے کے بعد ان کو ایک مربوط واقعے کے طور پر بیان کیا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جب کوئی واقعہ پیش آئے اور ہر موجود شخص اپنے نقطہ نگاہ سے اس واقع کی جزوی یا مکمل تفصیل بیان کرے، اور پھر ان تمام بیانات کی روشنی میں اس واقعے کو پوری تفصیل کے ساتھ ایک مربوط کہانی کی شکل میں بیان کیا جائے۔
ابن اسحاق تک، نبی ﷺ کی زندگی کے واقعات حدیث یا مغازی ادب میں عام طور پر بغیر سیاق و سباق کے پائے جاتے تھے، سیرت نے ان کی زندگی کو پہلی بار ایک تسلسل کے ساتھ بیان کیا۔
جیسا کہ اوپر کی مثالوں میں دکھایا گیا ہے، ابن اسحاق مختلف ذرائع سے تفصیل جمع کر کے ایک مربوط انداز میں واقعہ بیان کرتے ہیں، لیکن وہ تقریباً کبھی بھی اپنی رائے نہیں دیتے ہیں اور جب کسی روایت پر شک ہو تو ، ’خدا بہتر جانتا ہے‘ یا ’خدا مجھے ایسے الفاظ استعمال کرنے سے بچائے جو رسول نے استعمال نہیں کیے‘ ، اور یا پھر ’یہ مذکور ہے‘ ، جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
ابن اسحاق کی سیرت کو بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن یہ رائے عالمگیر نہیں ہے۔ ان کی اپنی زندگی میں بھی ان کے بہت سے مخالف تھے، جن میں سے کچھ نے انہیں علی ابن ابو طالب کو ترجیح دیتے ہوئے پایا۔ ان کے تلخ ناقدین میں سے ایک ان کے ہم عصر، مالک ابن انس ( 711۔ 795 ) تھے، جو امام مالک کے نام سے مشہور ہیں۔ ابن مالک نے خاص طور پر مدینہ منورہ کے اس واقعہ کے بارے میں ان کی وضاحت پر تنقید کی جب نبی کریم ﷺ نے جنگ خندق کے موقع پر یہودی قبیلے بنو قریظہ کے تمام مردوں کو مکہ والوں کا ساتھ دینے پر قتل کرنے کا حکم دیا۔ ایک حالیہ تحقیق نے بھی اس واقعہ کا جائزہ لیا ہے اور اسے ناقابل فہم پایا ہے۔
”جانچ پڑتال کرنے پر ، کہانی کی تفصیلات کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ یہ دعویٰ کہ بنو قریظہ کے 600 یا 800 یا 900 آدمیوں کو سرد مہری سے قتل کیا گیا، درست نہیں ہو سکتا، کہ یہ بعد کی ایجاد ہے، اور یہ کہ اس کا ماخذ یہودی روایات میں ہے۔ درحقیقت قدیم یہودی تاریخ میں تفصیلات کے ماخذ کی طرف حیرت انگیز درستی کے ساتھ نشاندہی کی جا سکتی ہے۔“
یہ مثال ابن اسحاق کے بیان کردہ بعض واقعات کی متنازع نوعیت کو ظاہر کرتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی دور کے پہلے سو برسوں کے معلوم ذرائع میں پیغمبر ﷺ کا ذکر تقریباً ناپید ہے اور اسلام کی پہلی صدی میں پیغمبر اسلام ﷺ کی زندگی کے واقعات اور ان کے اقوال کو منظم طریقے سے مرتب کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ رسول اللہ ﷺ کی پہلی تفصیلی سوانح عمری ابن اسحاق نے 750 عیسوی میں اموی حکومت کے خونی خاتمے کے بعد عباسیوں کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد لکھی۔ یہ وہ دور تھا جب عباسی خلفا امویوں پر مذہبی اور سیاسی برتری ثابت کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ابن اسحاق کے بعد سیرت نبوی اور احادیث کے مجموعوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو بہت عرصے تک جاری رہا ہے، جس میں کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تاریخ کی دیگر اہم شخصیات کی سوانح عمریوں کی طرح سیرت میں بیان کیے گئے نبی ﷺ سے متعلق تاریخی واقعات تو غالباً درست ہیں لیکن تفصیلات قابل اعتبار نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ، بدر اور احد کی جنگیں ہوئی ہوں گی، لیکن ان کے بارے میں جزوی تفصیلات کہ کس نے کس کو قتل کیا اور کس نے کس موقع پر کیا کہا، مکمل طور پر قابل اعتبار نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس بات پر قطعی اتفاق ہے کہ 1965 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی تھی لیکن یہ روایات کہ جنگ کے مختلف مرحلوں میں سپاہیوں، جرنیلوں اور سیاسی قیادت کے مابین کن خیالات کا تبادلہ ہوا، ان پر کوئی اتفاق رائے موجود نہیں اور ہر شخص اپنے غیر معتبر ذرائع کی بنیاد پر ایسی کہانیاں بیان کرتا ہے جو اس کے نکتہ نظر کی تصدیق کرتی ہیں۔
یہ ایک قدرتی چیز ہے کہ تاریخ دانوں کا زمانہ اور پس منظر تعصب پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ تعصب کئی بار غیر ارادی طور پر موجود ہوتا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ عباسی دور میں لکھی گئی تاریخ میں ابو سفیان اور ان کے بیٹے معاویہ جیسے اموی رہنماؤں کے بارے میں تعصب کا امکان موجود ہے۔ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ علی بن ابو طالب کے پیروکاروں کے سیاسی مقاصد کے ساتھ عباسی حکمرانوں کی ہم آہنگی نے علی بن ابو طالب کو کافی مثبت روشنی میں پیش کرنے میں مدد دی ہو گی۔
اگر سچائی کا حصول ہمارا مطمح نظر ہو تو یہ انتہائی ضروری ہے کہ ان روایات کو تاریخ کی روشنی میں انتہائی ایمانداری کے ساتھ پرکھا جائے جن کو مذہبی بنیادوں جیسی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ اس تاریخ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو روایات ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے کسی بھی روایت کا مکمل معروضی ثبوت موجود نہیں۔ کوئی بھی روایت چشم دید ذرائع سے نہیں آئی۔ سب کا منبع ڈیڑھ سو سال سے زیادہ پرانی سنی ہوئی روایات پر ہے۔ اس طور اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ بعض روایتیں غلط بیان کی گئی ہوں یا ان میں راویوں کے ذاتی تعصب موجود ہوں۔ یہ تمام روایات واقعات کے وقوع ہونے کے سینکڑوں سال بعد لکھی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیرت نبوی سے جڑی پاکیزہ روایات دین کا حصہ نہیں بن سکتیں۔
یہی صورت حال خلفا سے وابستہ روایتوں اور ان کے حالات زندگی کے بارے میں ہے۔ یہاں تک کہ معاویہ کے بارے میں، جن کی سلطنت فارس، شام اور مصر تک پھیلی ہوئی تھی، ان کے دور کے شاید ہی کسی واقعے کی چشم دید گواہی موجود ہو۔ ان سے وابستہ تقریباً تمام واقعات پہلی دفعہ سینکڑوں برسں بعد لکھی گئی تاریخ میں ملتے ہیں۔ اس بارے میں ایک مفصل مضمون کی ضرورت ہے۔
اس طور منبروں سے سنی گئی ہر بات کے بارے میں یہ تحقیق لازمی ہونی چاہیے کہ اس بات کے تاریخی شواہد کیا ہیں؟ ان باتوں کے سب سے پہلے راوی کون تھے؟ وہ کس دور میں حیات تھے؟ اور انھوں نے کس کی تحریک پر یہ روایات جمع کیں؟ اگر ایسا ہونے لگے تو روایات اور واقعات کا بہت بڑا بوجھ جس نے اسلام میں فرقہ واریت کو خوب ہوا دی، اسلام اس سے آزاد ہو جائے گا۔