تحریر:جی ایم بٹ
مرکزی کابینہ نے وقف ترمیمی بل 2024 کو منظوری دی ہے ۔ اس سے پہلے مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ نے کہا کہ بل کو پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا ۔ اس سے پہلے بل کو ایک کمیٹی کے حوالے کیا گیا تھا ۔ کمیٹی نے عوام سے اس سلسلے میں تجاویز مانگی تھیں ۔ باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ عوام کی بڑی تعداد نے اس کے حق میں رائے دی ۔ جبکہ مسلمانوں سمیت کئی طبقوں کے لوگوں نے اس بل کی شدید مخالفت کی ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے علاوہ کئی دوسرے علما نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس کے خلاف رائے دینے کا مشورہ دیا ۔ اس مشورے کو قبول کرتے ہوئے لوگوں نے اس کے خلاف آن لائن پورٹل پر اپنی رائے کا اظہار کیا ۔ تاہم ان تمام باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مرکزی سرکار نے بل کو آگے بڑھاتے ہوئے کمیٹی کی تجاویز کو منظور کیا اور اعلان کیا کہ پارلیمنٹ کے آئندہ سرمائی اجلاس میں اسے پاس کرایا جائے گا ۔ یہ ترمیمی بل اصل میں پہلے سے موجود وقف ایکٹ 1995 میں کچھ ترمیمات کے لئے تیار کیا گیا ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ نئے ترمیمی بل سے وقف املاک کو تحفظ کرنے میں مدد ملے گی ۔ بل کی مخالفت کرنے والوں خاص کر مسلم علما کا کہنا ہے کہ اس سے وقف املاک پر مسلمانوں کے بجائے سرکار کا قبضہ ہوگا اور مسلمانوں کا اس پر کوئی استحقاق نہیں ہوگا ۔ ان علما نے سرکار کی ترمیمات کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک سازش قرار دیا ۔
وقف ترمیمی بلا کے حوالے سے اصل میں قانون جاننے والے صحیح تجزیہ کرسکتے ہیں ۔ یہ بل وقف املاک کو تحفظ فراہم کرے گا یا اس کے خلاف واقعی کوئی سازش ہے عام شہری کے لئے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ حکومت بہر حال اپنے مفاد کی بات کرے گی ۔ حکومت کو اس بل سے کیا اغراض و مفاد جڑے ہوئے ہیں وہ الگ بات ہے ۔ مسلم علما کے تحفظات کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ مسلم علما کے ملی مفاد سے زیادہ اپنے مفاد کی فکر ہے ۔ پچھلے پچاس سالوں سے وقف پر قبضہ جمائے لوگوں نے کبھی بھی اس کو عوامی خاص طور سے پسماندہ مسلمانوں کے مفاد میں استعمال کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ بلکہ ایسی کسی بھی تجویز کو آگے بڑھنے نہیں دیا ۔ اس دوران دیکھا گیا کہ ہندووں کے شرائن بورڈ اور سکھوں کے اکال تخت نے اپنے املاک کو مفاد عامہ کے لئے استعمال کرتے ہوئے اپنے طبقوں کو انتائی فائدہ پہنچایا ۔ عیسائی مشنریوں اور پارسی برادری نے معاشی مسائل حل کرنے میں جو رول ادا کیا مسلمان ادارے اس کی گرد تک پہنچنے کے قابل نہیں ۔ تاہم پچھلے دس بیس سالوں کے دوران شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹیوں نے رفاہ عامہ کے جو کام کئے ہمارے وقف ادارے ایسا کوئی کام کرنے سے قاصر ہیں ۔ حالانکہ سکھ ملک میں بہت ہی چھوٹی کمیونٹی ہیں ۔ اس کے بجائے مسلمان سب سے بڑی اقلیت کے طور یہاں آباد ہیں ۔ اس کے باوجود مسلمان تعلیمی ، سماجی اور معاشی طور سے سب سے پسماندہ طبقے مانے جاتے ہیں ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے اوقاف اور دوسرے دینے ادارے ایک مافیہ بنے ہوئے ہیں ۔ مسلمانوں کے خیراتی ادارے بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ کے شکار ہیں ۔ صدقہ اور زکوات مکمل طور ہڑپ کیا جاتا ہے اور اس پر گربا کا سرے سے کوئی استحقاق نہیں ہے ۔ امیر اور کھاتے پیتے لوگ ان مدات پر آنے والی آمدنی کو ہڑپ کرجاتے ہیں اور غریب بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے ہیں ۔ اب مسلمان ملائوں کے بجائے سرکار وقف املاک اورآمدنی کو اپنے قبضے میں لینا چاہتی ہے تو یہ ملا چیخ و پکار کررہے ہیں ۔ یقینی طور وقف املاک کے حوالے سے سرکار کا موقف تشویش کا باعث ہے اور اوقاف اسلامیہ کے ساتھ بے جا مداخلت ہے ۔ تاہم علما کی چیخ و پکار اس سے کہیں زیادہ بے معنی ہے ۔ پچھلے پچاس سالوں کے دوران ایک مخصوص طبقے نے ااوقاف اسلامیہ پر قبضہ جمائے رکھا اور یہاں حاصل ہونے والی آمدنی کو ذاتی ملکیت سمجھ کر اس کو ہڑپ کر لیا ۔ آج عام مسلمانوں کو اس کی حفاظت کے لئے آگے آنے کو کہا جارہاہے ۔ یہ بے وقت کی راگنی ہے ۔ ان ملائوں کو معلوم نہیں کہ سرکار کتنی طاقتور ہوتی ہے ۔ علما جب مسلمانوں کے اندر انتشار پھیلانے اور گروہی جھگڑوں کو ہوا دینے میں مصروف تھے آر ایس ایس مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے روڈ میپ تیار کررہی تھی ۔ ان مسلمان علما نے اس دوران کسی بھی مشورے کو قبول کرنے سے انکار کیا ۔ یہ لوگ مسلمانوں کو سمجھاتے رہے کہ حنفی اور شافعی مسلکوں کو لے کر لڑنا اور جھگڑنا بنیادی کام ہے اور اسی سے اسلام کی حفاظت کی جاسکتی ہے ۔ ایسے جدت پسندوں کے خلاف محاذ کھڑا کیا گیا جو مسلمانوں کی سیاسی طاقت بڑھانے کا مشورہ دیتے تھے ۔ بلکہ انہیں خارج از اسلام قرار دیا گیا ۔ اس زمانے میں کانگریس کی حمایت کرنا جہاد قرار دیا گیا ۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ کانگریس انہیں مشغول رکھ کر پس پردہ ان کاموں کی مدد کررہی ہے جن کا مسلمان دشمن گروہ جال بن رہے ہیں ۔ اب جبکہ مسلمان اس جال میں پھنس چکے ہیں وہاں سے نکل آنا ہر گز ممکن نہیں ۔ جو قومیں اپنے ماضی کی بھول بھلیوں میں بھٹکتی رہتی ہیں اور جدید طور طریقوں کو اختیار کرنے سے انکار کرتی ہیں ۔ جن کے پاس معاشی استحکام کے لئے کوئی پالیسی نہیں ہوتی اور سیاسی قوت سے خالی ہوتی ہیں ان کو تباہ ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی ہے ۔ وقف املاک کا کیا رونا مسلمانوں کا وجود بہت جلد مٹنے کو ہے ۔ اس پر واویلا کرنے کی ضرورت ہے ۔