از:جہاں زیب بٹ
پرایم منسٹر مودی نے چناؤ مہم کے سلسلے میں وادی کا پہلا دورہ کیا اور عوامی جلسے سے خطاب کے دوران دعویٰ کیا کو وہ جموں و کشمیر میں امن کی بحالی کے لیے ایمانداری سے جٹ گیے ہیں ۔ پرایم منسٹر مودی نے پہلی بار سرینگر کے کر کٹ سٹیڈیم میں تب لوگوں کے مجمع سے خطاب کیا تھا جب مرحوم مفتی سعید نے بھا جپا کے ساتھ اتحادی حکومت بنایی تھی ۔اس کے بعد جب جب پرایم منسٹر مودی یا کویی مرکزی عہدیدار کشمیر کا رخ کرتا تو وادی میں سول کرفیو لگ جاتا ۔آج بھا جپا نے اکیلے ہی سرینگر میں جلسہ بلا یا تو نوجوانوں ،بزرگوں اور عورتوں کی بھاری تعداد میں موجودگی کو امن کا مظہر قرار دیتے ہو یے مودی جی نےکہا کہ یہی نیا کشمیر ہے جس کا لب لباب امن اور تیز تر ترقی ہے۔پرایم منسٹر نے این سی ،کانگریس اور پی ڈی پی کو نشانہ بناتے ہو یے کہا کہ ان ہی تین خاندانوں نے کشمیر کو برباد کیا ہے۔تینوں جماعتوں کو لتاڑتے
ہو یے پرایم منسٹر مودی نے الزام لگا یا کہ جیسے تیسے کرسی پر قبضہ کرنا اور پھر عوام کو لو ٹنا ان کا پیدائشی حق ہے۔ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ ان کے بغیر کو یی اور آگے نہ بڑھے ۔اس غرض کے لیے انھوں نے نفرت کا سامان بیچا اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں پتھر تھما دیے ۔پھر انھوں نے جمہوریت کو روندڈالا ۔اسی کی دہایی کا جمہوریت کش واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انھوں نے کشمیر کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا تھا۔ لیکن اب موسم یکسر بدل گیا ہے۔عوام ہو شیار ہو گیے ہیں اور اس مثبت سوچ کے قایل کہ جمہوری حق ہی صحیح بدلاؤ لا سکتا ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج کشمیر میں جمہوریت کا تہوار چل رہا ہے۔ جنوبی کشمیر تازہ مثال ہے جہاں بھاری اور ریکارڑ توڑ پولنگ ہو یی اوراس پر دہشت کا کویی سایہ نہ تھا ۔مودی نے۔ کہا یہ نیا اتہاس ہے ۔عوام بھی مانتے ہیں یہ نیا اتہاس ہے جس کا سہرا مرکزی سرکار کو جا تا ہے جس نے صاف وشفاف انتخابات کا بھروسہ قایم کیا اور ممنوعہ جماعت اسلامی تک نے یو ٹرن لیا اور آذاد امیدوار میدان میں اتارے جس سے ملی ٹینسی کے گڑھ جنوبی کشمیر میں شرح ووٹنگ میں نمایاں اضافہ ہو ا ۔امن کے ساتھ بھاری پولنگ نیا اتہاس تو ہے ہی کشمیر کے حوالے سے قابل تعریف نیا اتہاس یہ بھی ہے کہ ہڑتالی کلچر کا خاتمہ
ہو گیا۔اس سلسلے میں پرایم منسٹر نے کشمیریوں کی آنکھیں کھولیں اور ان کو بتادیا کہ وہ غور کریں کہ وہ کہاں کھڑے تھے ،کر کیا رہے تھے اور کیسے بہکے ہو یے تھے ۔گزشتہ پینتیس سالوں میں کشمیر پینتیس ہزار دن بند رہا جو آٹھ سال بنتے ہیں ۔لیکن پچھلے پانچ برسوں کا ریکارڑ یہ ہے کہ کشمیر آٹھ گھنٹے بھی بند نہ رہا۔اس ڈر اور انتشار کی کیفیت کو پرایم منسٹر نے تین خاندانوں کے سر چڑھا یا جو کافی حد تک صحیح ہے لیکن اس مصیبت میں دھکیلنے کا ایک اور فیکٹر بھی ہے بیرونی والا جس کو ہذف نہیں کیا جاسکتا۔پرایم منسٹر مودی نے کسانوں کے بینک کھاتوں میں سالانہ دس ہزار ڈالنے،بزرگ خواتین کو اٹھارہ ہزار ،مفت بجلی اور روزگار کے وسایل یہاں ہی پید ا کرنے تک بہت سارے انتخابی وعدے کیے ۔سب سے اہم اعلان سٹیٹ ہڈ کی بحالی ہے جس پر مقامی طور خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔عوامی حلقوں میں مودی کی تقریر زیر بچت ہے ۔وہ کہتے ہیں کیا ہی اچھا ہو تا کہ پرایم منسٹر تمام میٹھی باتوں اور حقایق کے درمیان جامع روزگار پیکیج کا وعدہ بھی کرتے تاکہ کشمیر میں حقیقی امن او ر خوشحالی کی بہار دیکھنے کو ملتی ۔
پرایم منسٹر مودی کے مشن کشمیر کا ماحصل ہے امن ،ترقی اور تین خاندانوں سے نجات ۔ان کی یہ بات اہم سنگ میل کی حثیت رکھتی ہے کہ جن نوجوانوں کو آج تک تین خاندانوں نے دبایے رکھاتھا اور جمہوریت پر ان کا بھروسہ کمزور کردیا وہ اب خاندانی نظام کو چلینج کر رہے ہیں۔تین خاندانوں کو نشانہ بنانے میں
کو یی کسر باقی نہ چھو ڑنے سے یہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ مودی سرکار کشمیر میں ایک متبادل سیاسی سیٹ
اپ قایم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔مودی نے اعلانیہ کہا کہ اب جموں و کشمیر تین خاندانوں کے شکنجے میں رہنے والا نہیں ہے۔
