از:ڈاکٹر نیک عالم راشد
یوں تو دنیا کی تاریخ لاکھوں کروڑوں سالوں پر محیط ہے لیکن جب سے انسان نے ہوش سنبھالا اور اپنی عقل و تدبر سے کام لینے لگا اور تہذیب و تمدن کی شروعات ہوئیں تو حضرت انسان کی اس شعوری اور تہذیبی تاریخ کا آغاز کم و بیش دس ہزار ( 10000 ) سال پہلے ہوا۔ انسانی تاریخ کا یہ دورانیہ بھی طوالت کے لحاظ سے کچھ کم نہیں ہے۔ ان دس ہزاریوں میں بنی نوع انسان نے کئی مرحلے طے کیے، وہ شکاری دور، زرعی دور، صنعتی دور سے ہوتے ہوئے آج کے انتہائی ترقی یافتہ علمی و عقلی دور، جسے زمانہ علم پر مبنی معاشرے (Knowledge society) کا نام دیتا ہے، میں داخل ہوا۔
الغرض، غاروں میں رہنے والا انسان آج کرہ ارضی سے باہر چاند جیسے سیارے کو مسخر کرنے کے بعد مریخ اور دوسرے دور تر سیاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ اس عرصہ دراز کے دوران انسان نے اپنے عقل و دانش اور حکمت و بصیرت کے بل بوتے پر نوع بنوع ایجادات و اختراعات اور فکر و فلسفے کے محیر العقول اجتہادات سے دنیا کو بھر دیا۔ اس عرصے میں جہاں حکمرانی اور جہاں بانی کے مختلف نظام متعارف ہوئے وہاں الہامی اور غیر الہامی مذاہب کا ظہور بھی ہوا۔
تاہم، الہامی مذاہب میں سے ایک اسلام ہے جس کا ظہور ساتویں صدی عیسوی میں عرب میں ہوا اور وہاں سے دنیا کے مختلف حصوں میں اس کا پھیلاؤ عمل میں آیا۔ اسلام دین فطرت اور عالمگیر دین کی حیثیت سے جہاں عقائد و عبادات، روحانیات اور اخروی نجات کے لئے ہدایات موجود ہیں وہاں دنیا کے معاملات، جیسے سیاست و معیشت اور تہذیب و ثقافت کے متعلق بھی رہنما اصول موجود ہیں۔ جس طرح بیسویں صدی عیسوی کئی اعتبار سے گزشتہ زمانوں کے مقابلے میں ممتاز نظر آتا ہے : جیسے سائنسی ایجادات و اختراعات، ٹیکنالوجی، معاشی و اقتصادی ترقی، موروثی خاندانی حکومتوں کے خاتمے، جمہوریت کی بالادستی اور بہتر حکمرانی کے قیام وغیرہ کے لحاظ سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ اسی طرح مسلم امت کے حوالے سے تین اجتہادی کارنامے، جو دینی، فقہی اور سیاسی امور سے متعلق ہیں، ایسے ہیں جو اس صدی کے ہنگامہ خیز دورانیے میں منفرد اور قابل لحاظ شمار ہوتے ہیں۔
مذکورہ بالا تین اجتہادی کارناموں میں سے پہلا اجتہادی کارنامہ اس صدی کے ربع اول کے اواخر میں جدید ترکی کے بانی مصطفٰی کمال اتا ترک ( 1881 ء۔ 1938 ء) اور ان کے رفقائے کار کی سرپرستی میں قائم ہونے والی منتخب اسمبلی، ”مجلس کبیر ملی“ کے کثرت رائے دہی کے ذریعے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور جدید جمہوریہ ترکیہ کا قیام ہے۔ دوسرا اجتہادی کارنامہ بر صغیر پاک و ہند کے عظیم مفکر اور فلسفی شاعر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ( 1877 ء۔1938 ء) کے کریڈٹ میں جاتا ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے دینی فیصلوں کو علماء سے اٹھا کر پارلیمنٹ کو سونپنے کے لئے علمی و اجتہادی بنیادیں فراہم کیں۔ اس اجتہادی فیصلے کی بنیاد پر 1947 ء کو قائم ہونے والے سب سے بڑے مسلمان ملک، پاکستان کا آئین اور نظام حکومت پارلیمانی جمہوری نظام قرار پایا جس کے مطابق قانون سازی کا اختیار منتخب پارلیمنٹ کو تفویض ہوا۔ اسی طرح تیسرا بڑا اجتہادی کارنامہ ایران میں 1970 ء کے عشرے کے اواخر میں انقلاب اسلامی کے مرکزی رہنما آیت اللہ خمینی ( 1902 ء۔ 1989 ء) کی رہنمائی میں ایرانی شیعہ اثناعشری علماء نے ”ولایت فقیہ“ کے عملی نفاذ کی صورت میں انجام دیا جس کے ذریعے ایران میں رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کو ختم کر کے شیعہ اثناعشری علماء کی دینی حکومت قائم ہو گئی۔ اس اجمال کی تفصیل ذیل میں پیش کی جاتی ہے تاکہ اس کے خد و خال واضح ہو سکیں۔
جیسا کہ مسلم تاریخ بتاتی ہے کہ منگول فتوحات کے بعد مسلم دنیا میں تین عظیم سلطنتوں میں سے ایک سلطنت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ تھی۔ جو تیرہویں صدی کے اواخر سے لے کر بیسویں صدی کے ربع اول کے اواخر تک قائم رہی۔ اگرچہ اس کے زوال کا آغاز انیسویں صدی میں ہو چکا تھا لیکن پہلی جنگ عظیم ( 1914 ء۔ 1919 ء) میں عثمانیوں کی شکست کے بعد یہ کلی شکست و ریخت کا شکار ہوئی۔ چنانچہ، 1920 ء میں معاہدہ سیورے کے نتیجے میں عالمی طاقتوں نے اس سلطنت کے حصے بخرے کرنا شروع کیا جس کے خلاف ترکی میں مصطفٰی کمال کی قیادت میں قومی تحریک نے زور پکڑ کیا۔
اس تحریک نے 23 اپریل 1920 ءکو انقرہ میں مجلس کبیر ملی کے قیام کا اعلان کیا، جس نے استنبول میں عثمانی حکومت اور ترکی میں بیرونی قبضے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ جنوری 1921 ء ریاست کا نام ترکی رکھا گیا اور مصطفی کمال کو اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔ انقلابیوں نے بیرونی افواج کو ملک سے نکال باہر کیا اور استنبول پر قبضہ کر لیا۔ یکم نومبر 1922 ء کو اسمبلی کا اجلاس بلا کر سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کی منظوری حاصل کی گئی اور سلطان محمد ششم وحید الدین ( 1861 ء۔1926 ء) 17 نومبر 1922 ء کو معزول کیا گیا اور انہوں نے ترکی چھوڑ دیا۔ سلطان کے چچا زاد عبد المجید ثانی کو سلطان کی بجائے خلیفہ بنایا گیا۔ اگلے ہی سال معاہدہ لوزاں کے تحت 24 جولائی 1923 ء کو باضابطہ طور پر ترک جمہوریہ کو تسلیم کیا گیا اور مصطفٰی کمال، جو اتا ترک کے نام سے مشہور ہوئے، اس کے پہلے صدر بن گئے۔ چند ماہ بعد 3 مارچ 1924 ء کو خلافت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا اور سلطان اور اس کے اہل خانہ کو جلاوطن کر دیا گیا۔
مصطفٰی کمال اور ان کے رفقاء کی کوششوں سے عثمانیوں کی موروثی سلطنت جسے وہ خلافت اسلامیہ بھی کہتے تھے، کا دھڑن تختہ کیا اور نئے بننے والے ملک جمہوریہ ترکیہ کا قیام عمل میں لایا جس میں صدارتی جمہوری نظام نظام رائج کیا گیا جو اب تک اسی حیثیت سے قائم ہے اور جدید دور میں بہتر معیشت اور عسکری طاقت کا حامل ملک قرار دیا جاتا ہے۔
جہاں تک بر صغیر پاک و ہند میں بیسویں صدی کے تقریباً وسط میں بننے والی مسلم ریاست یعنی پاکستان، جس کا تصور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے 1930 ء میں اپنے خطبہ الہ آباد میں پیش کیا تھا، کے قیام کے حوالے سے اقبال کے اجتہاد کی بات ہے تو اس ضمن میں اقبال کا اجتہادی نقطہ نظر یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں اقبال کے خطبات کے چھٹے حصے سے اقتباسات درج کیے جاتے ہیں۔ وہ ترکی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: ”ترکوں کے اجتہاد کی رو سے یہ اسلام کی روح کے بالکل مطابق ہے کہ خلافت افراد کی ایک جماعت یا منتخب اسمبلی کو سونپ دی جائے۔“ (محمد اقبال۔ ’تجدید فکریات اسلام ”، ترجمہ: ڈاکٹر وحید عشرت، اقبال اکادمی، لاہور، 2002 ء، ص 190 )
اقبال نہ صرف ترکی کے اس اقدام کو درست قرار دیتے ہیں بلکہ برصغیر پاک و ہند اور مصر کے علماء کو بھی اس پر غور کرنے بلکہ اسے اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ نیز وہ ترکوں کے طرز عمل، یعنی خلافت کی جگہ پارلیمنٹ کو اختیار دینے کے عمل، کو جمہوریت اور جمہوریت کو اسلامی سیاسی طرز عمل قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ”ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ترکوں کا موقف بالکل درست ہے اور اس بارے میں بحث کی بہت کم گنجائش ہے۔ جمہوری طرز حکومت نہ صرف یہ کہ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے بلکہ یہ عالم اسلام میں ابھرنے والی نئی طاقتوں کے لحاظ سے بہت ضروری ہے۔“ (ایضاً، ص 190 )
جب تحریک پاکستان کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقائے کار کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں 14 اگست 1947 ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو اگرچہ برٹش انڈیا ایکٹ 1935 ء کے عملی نفاذ کی صورت میں برطانیہ میں رائج پارلیمانی جمہوری نظام یہاں نافذ ہوا لیکن، در اصل، علامہ اقبال کا مذکورہ اجتہادی فیصلہ ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام کے نفاذ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ لہذا، مذہبی اور سماجی امور سے متعلق فیصلے صادر کرنے کے اختیار کو علماء سے اٹھا کر پارلیمنٹ کو سونپے جانے کا غیر معمولی اجتہادی فیصلہ بلا شرکت غیرے اقبال ہی کا کارنامہ تھا جنہوں نے یہ حق چند افراد سے اٹھا کر عوام کے منتخب ادارے یعنی پارلیمنٹ کو دے کر ایک جمہوریت پسند اور عوام دوست روایت کی داغ بیل ڈالی دی۔
جہاں تک ولایت فقیہ کے معنی کے تعین کا تعلق ہے اس کے بالعموم معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسلام نے فقیہ کو ایک قسم کی قانونی تدبیر اور شرعی قدرت عطا کی ہے، جس کے ذریعے لوگوں کے عمومی امور کی زمام سنبھالا ہے۔
در اصل، شیعہ اثناعشری مذہب میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ امام کی غیبت کے بعد من حیث المجموع جماعت اثناعشریہ کی دینی اور دنیوی احکامات صادر کرنے اور امور حکمرانی کرنے کا اختیار کسی فرد یا جماعت کو حاصل نہیں ہو سکتا ہے یہاں تک کہ امام غائب ظہور کرے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے۔ لیکن شیعہ اثناعشری فقہاء کی ایک بڑی اکثریت نے امام کی غیبت سے لے کر دوبارہ ظہور تک کے دورانیے میں جماعت کی قیادت کے لئے ولایت فقیہ کا فقہی نظریہ پیش کیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ امام کی عدم موجودگی میں شیعہ اثناعشری فقہاء و مجتہدین حکومت کریں گے۔ فقہی اصطلاح میں، ولایت فقیہ ایسے نظریہ کا نام ہے جس کے ذریعے مجتہد جامع الشرائط، فقیہ، کو اسلامی اقدار اور اسلامی احکام کے نفاذ کے لیے اسلامی معاشرے پر حکومت کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔
ولایت فقیہ کی عملی صورت گری انقلاب اسلامی ایران کے بانی حجت الاسلام امام خمینی اور ان کے قریبی ساتھیوں نے کی۔ اسی بنیاد پر، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، ایران میں اپنی دینی حکومت قائم کی۔ بات علامہ خمینی کی ولایت فقیہ کی ہو رہی تھی کہ آیا ولایت فقیہ ولایت امام کی جگہ سنبھالے گی یا اس سے فرو تر ہوگی۔ اس ضمن میں خمینی مرحوم نے وضاحت کی ہے کہ کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ فقیہ کو عطا کردہ ولایت کی یہ اہلیت اسے نبوت یا امامت کی منزلت تک بلند کر دے گی۔ لہذا ولایت فقیہ ہرگز ولایت امام کے مقابل میں نہیں۔
(سید محمد علی نقوی. ”اور تم کیا جانو ولایت فقیہ کیا ہے؟“ ، ’پڑتال امام خمینی‘ ،
یہاں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایران میں، اگرچہ، آیت اللہ خمینی اور ان کے رفقائے کار نے ”ولایت فقیہ“ ، جو شیعہ اثناعشریت کا ایک خالص دینی و فقہی نقطہ نظر ہے، کے تحت شیعہ مجتہدین اور علمائے دین کی قیادت میں دینی حکومت قائم کی لیکن ساتھ ہی یہ کوشش بھی کی گئی کہ ولایت فقیہ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور اس میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے۔
المختصر یہ کہ بیسویں صدی عیسوی کی مسلم دنیا میں تین عظیم شخصیتوں نے تین بڑے اجتہادی کارنامے انجام دینے۔ ان میں اولیت و افضلیت کا تاج ترکی کے مصطفٰی کمال اتا ترک کے سر پر سجتا ہے جنہوں نے مسلمانوں کے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قدیم دینی و سیاسی ادارے، جو خلافت کے نام سے موسوم تھا، کو نئی جمہوریہ ترکیہ کی پارلیمنٹ کی کثرت رائے کے ذریعے ختم کر دیا۔ یہ ایک ایسا محیر العقول کارنامہ تھا جسے افراد تو افراد بڑی بڑی تنظیمیں اور طاقتور حکومتیں انجام نہ سکیں تھیں۔
دوسرا بڑا اجتہادی کارنامہ بر صغیر پاک و ہند کے نامی گرامی مفکر، عالم اور شاعر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے انجام دیا۔ انہوں نے اپنی اجتہادی قوت کے ذریعے دینی و سماجی شعبوں میں فیصلے کرنے کا اختیار علمائے دین سے اٹھا کر عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو سونپا جس کی بنیاد پر پاکستان کے آئین کی تشکیل ہوئی۔ یہ بھی بلاشبہ اسلامی تاریخ کا غیر معمولی اجتہادی کارنامہ شمار ہوتا ہے جس نے قانون کو مخصوص شخصیتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے کے عمل سے بچا کر منتخب عوامی اداروں کے حوالے کیا۔
جبکہ تیسرا بڑا اجتہادی کارنامہ جدید ایرانی انقلاب کے بانی علامہ آیت اللہ روح اللہ خمینی مرحوم نے انجام دیا۔ انہوں بے ولایت فقیہ کے قانون کے عملی نفاذ کے ذریعے امام کی غیر موجودگی میں اس کے نائب کی حیثیت سے پہلی مرتبہ سر زمین ایران میں شیعہ اثناعشری فقہاء و مجتہدین کی حکومت قائم کی جو گزشتہ بارہ سو سالوں کے دوران شیعہ اثناعشری مذہب کے علماء اور پیروکار اتنا بڑا فیصلہ نہ کر سکے تھے۔
بلاشبہ یہ تینوں شخصیات، یعنی مصطفٰی کمال، علامہ اقبال اور امام خمینی، صرف بیسویں صدی کی عظیم ترین مسلم شخصیات تھیں بلکہ اس حوالے سے پوری اسلامی تاریخ میں انہیں عظیم المرتبت قرار دینا چاہیے۔ البتہ یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ ترکی، ایران اور پاکستان میں بننے والی حکومتیں کس حد تک کامیاب رہی ہیں اور کس حد تک جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہو سکی ہیں۔ خاص طور پر ایران کی دینی حکومت (تھیوکریسی) پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہاں اصل اختیارات ”مجلس نگہبان“ کے پاس ہیں جن کے ارکان نامزد کیے جاتے ہیں جبکہ عوام کی منتخب اسمبلی اس ضمن میں ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔