اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے دھمکی دی ہے کہ ایران کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ نیتن یاہو کا یہ بیان بدھ کی شام کو اس وقت سامنے آیا جب ایران کی طرف سے اسرائیل پر مبینہ طور دو سو سے چار سو کے قریب میزائل پھینکے گئے ۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے امریکہ کی مدد سے ایسے بیشتر میزائل ہوا میں ہی ضایع کئے ۔ تاہم کئی میزائل زمین پر گرنے اور ان سے مالی و جانی نقصان ہونے کی اطلاع ہے ۔ ان حملوں سے اسرائیل کے اندر سخت خوف و ہراس پھیل گیا ۔ تل ابیب میں پہلے سے ہی لوگوں کو کسی بھی طرح کے خطرے سے نمٹنے کے لئے خبردار کیا گیا تھا۔ حملہ ہوتے ہی پورے اسرائیل میں خطرے کے الارم بجائے گئے اور لوگ وہاں موجود محفوظ بینکروں کے اندر چلے گئے ۔ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ بہت کم جانی نقصان ہوا ۔ ایک یا دو لوگوں کے مارے جانے کی اطلاع ہے ۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ پھینکے گئے میزائیلوں سے طے شدہ پلان کے نوے فیصد اہداف کو نشانہ بنایا گیا جسے بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنانے کے بجائے وہاں کے آرمی کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا اور کامیاب حملے کئے گئے ۔ اسرائیل کی طرف سے ان تمام بیانات کو مسترد کیا گیا ۔
ایران اسرائیل جھڑپوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب لبنان میں کئے گئے اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو کئی ساتھیوں سمیت مارا گیا ۔ اس کے بعد اسرائیل نے لبنان پر زمینی حملوں کا سلسلہ شروع کیا جس کے خلاف ایران نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے تیز بیان دیا اور میزائل برسانے کی کاروائی کی۔ اسرائیل پرکئے گئے حملوں کا جواز فراہم کرتے ہوئے ایران نے دعویٰ کیا کہ حملے اپنے دفاع میں کئے گئے اور اسرائیلی جارحیت کو روکنا ان کے لئے ضروری تھا ۔ اسرائیل کے سب سے بڑے حلیف امریکہ نے ایرانی دعووں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہنے کی یقین دہانی کی اور دعویٰ کیا کہ یوایس اسرائیل کے ساتھ برابر تعاون کررہاہے ۔
ایران اور اس کے دوست ممالک اسرائیل پر میزائل داغنے کی کاروائی کو حسن نصراللہ اور اسماعیل ہانیہ کی ہلاکت کے ردعمل میں کئی گئی کاروائی سمجھتے ہیں اور اسے حق بجانب قرار دیتے ہیں ۔ ایران کی طرف سے پچھلے کئی ہفتوں سے خبردار کیا جارہاتھا کہ اسرائیل پر کسی بھی وقت حملہ کیا جائے گا ۔ ایران کی کاروائی صحیح ہے یا غلط اس بارے میں ہمارا فیصلہ کسی طور بھی اثر انداز نہیں ہوسکتا ہے ۔ بلکہ اسرائیل کی طرف سے واضح کیا گیا ہے کہ اپنے دشمنوں کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کے حوالے سے وہ کسی کا مشورہ ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ اس سے پہلے یو این کی طرف سے کئی بار اسرائیل کو جارحیت سے پر ہیز کرنے کے لئے کہا گیا ۔ لیکن اس نے ایسے تمام مطالبات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنی جنگی کاروائیاں جاری رکھیں ۔ ایران میں کی گئی کاروائی سے پہلے غزہ میں خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ یہ صرف اسرائیل نہیں جو ایسی جارحانہ کاروائیاں کررہاہے ۔ بلکہ دنیا میں کئی طاقتور حکومتوں کی طرف سے اپنے کمزور حریفوں کے خلاف قتل و غارت گری جاری ہے ۔ دنیا میں اس وقت ایسا کوئی نظام نہیں پایا جاتا ہے جو انصاف سے کام لے کر ظالم کو روکے اور مظلوم کو پناہ دے سکے ۔ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون چلتا ہے ۔ اس دوران بدقسمتی یہ ہے کہ کمزور ممالک اور وہاں رہنے والے عوام اس طرح کے جارحانہ نظام سے بے خبر ہیں ۔ انہیں خبردار بھی کیا جائے وہ ایسا ماننے سے انکار کررہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے ممالک کے اندر بڑے پیمانے پر تباہی ہورہی ہے اور آئے دن مار دھاڑ کے واقعات پیش آتے ہیں ۔ ایسے واقعات میں کم سن اور شیر خوار بچوں کے ساتھ خواتین اور بوڑھے لوگ مارے جاتے ہیں ۔ ان ہلاکتوں پر کاغذی بیانات تو دئے جاتے ہیں ۔ یو این اسمبلی کے اجلاسوں میں اس پر افسوس تو کیا جاتا ہے ۔ لیکن کوئی جوابی یا عملی کاروائی نہیں کی جاتی ہے ۔ ہلاکتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ یہ بات طے ہے کہ موجودہ دنیا طاقت ، ٹیکنالوجی اور جنگی ساز و سامان کی برتری پر قائم ہے ۔ یہ نظام دوسری جنگ عظیم سے جاری ہے اور اس نظام کو بدستور تقویت مل رہی ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ طاقت ور حکمران اس کی پشت پناہی اور کمزور عوام اس کے خلاف صف آرا ہیں ۔ اس وجہ سے ظالم مزید مضبوط اور ضعیف مزید کمزور بن رہے ہیں ۔ کمزور حماقت پر حماقت کرتے جارہے ہیں ۔ ان کے پاس ایسے لوگ موجود نہیں جو انہیں ظلم سے نمٹنے کا آسان طریقہ بتائیں ۔ اس کے بجائے طاقت ور حکمرانوں کے پاس ایسا پالیسی ساز ہیں جو ان کو تقویت فراہم کررہے ہیں ۔ اس دوران بغیر ساز وسامان کے جنگ لڑنے والے مغلوب اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس لوگ آگے بڑھنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ ایران اسرائیل جنگ کا انجام اس سے مختلف ہونا ممکن نہیں ۔ یہ بات صحیح ہے کہ اسرائیل کی جارحیّت برداشت سے باہر ہوگئی ہے اور اس کے خلاف صف آرا ہونا ضروری ہے ۔ لیکن اس دوران طاقت کا توازن دیکھنا ضروری ہے ۔ نہتے عوام ایسی طاقت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوجائیں جس نے پوری دنیا کی گردن پر خنجر رکھ کر اسے زیر عتاب لایا ہے ۔ عام لوگ اور کمزور ممالک اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں ۔ عرب ممالک پہلے ہی اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہیں ۔ ان ممالک نے لبنان اسرائیل جنگ کو شیعہ فرقے کے خلاف لڑائی قرار دے کر راہ فرار اختیار کی ہے ۔ مصر ، پاکستان اور ہندوستان امریکہ کے اتحادی ہیں اور اپنے آقا کے دوست ملک کے خلاف کوئی کاروائی تو دور کی بات ہوئی وہ اپنی زبان بھی نہیں کھول سکتے ہیں ۔ جب اتنی بڑی دنیا اسرائیل کے خلاف کسی قسم کا تعاون کرنے کی جرات نہیں کرسکتے تو ایران تنہا ایسی مضبوط طاقت کے خلاف کیسے اٹھ سکتا ہے ۔ نمونے کے لئے دوچار سو میزائل داغنا ایک بات ہوئی ۔ اصل بات اس کو میدان جنگ میں شکست دینے کی ہے جو ناممکن نظر آتا ہے ۔ اس کے بجائے اسرائیل ایسا کسی بھی دشواری کے بغیر کرسکتا ہے ۔ اس کے پاس ایسے وسائل اور جدید آلات ہیں جن کی مدد سے پوری دنیا کو زیر کیا جاسکتا ہے ۔ اس کا نمونہ اسماعیل ہانیہ اور حسن نصراللہ کو نشانہ بناکر دکھایا گیا ۔ ان ہلاکتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہوسکتا ہے ۔ ایسی حماقت کرنے والا کوئی بدشاہ ، صدر یا وزیراعظم ہر گز محفوظ نہیں ۔ اسرائیل اپنے کسی بھی دشمن کو کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ ٹارگٹ بناکر صفحہ ہستی سے مٹاسکتا ہے ۔اس کے پاس بہترین انفارمیشن سسٹم اور تباہ کرنے والے بہترین آلات ہیں ۔ اس بل بوتے پر دنیا کو اپنے پائوں تلے لانا کوئی مشکل کام نہیں ۔ پھر بھی کوئی اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوجائے تو اس سے بڑی حماقت کوئی دوسری نہیں ہوسکتی ہے ۔
