تحریر: م ق سلیم
زندگی نام ہے جئے جانے کا!
خالدبشیر تلگامی کا تعلق جہاں سے ہے وہ ارضی جنت نشاں کہلاتی تھی۔ چند دہوں سے اس کو نظر لگ گئی اور یہ جنت نشان اپناحسن کھوتا جارہا ہے۔ شاید یہی وہ کرب ہے جو ان کی رگوں میںرچ بس گیا ہے۔ان حالات کو دیکھ کر شاعر نے کہا ؎
پہلے رگ رگ سے مری خون نچوڑا اس نے
اب یہ کہتا ہے کہ رنگت ہی میری پیلی ہے
کتاب کا نام دیکھ کر مصنف کی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوںنے نام کے انتخاب میں افسانچوںکے رگ وپے کو اس میں بسا دیا کہ حقیقتوں کو اس میں پیش کیا اور باطل کو آئینہ دکھایا۔
’’دکھ ‘‘ سنسکرت زبان کا لفظ ہے ، درد فارسی کا ۔ دکھ کے ساتھ دردکا تصور ضروری ہے۔ دکھ یعنی رنج، غم، تکلیف ومصیبت کے ہیں۔ دکھ آتا ہے تو ہم غمزدہ ہوجاتے ہیں، غمگین ہوجاتے ہیں۔دکھ اٹھاتے ہیں، دکھی ہوجاتے ہیں ۔ دکھ کے ساتھ درد بھی بانٹتے ہیں۔دکھ اگر سہ لیں تو دردبھی سہ جاتا ہے۔دکھ اور درد کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک ساتھ جینے اور مرنے کا نام دکھ ہے۔دکھ ختم ہوجائے تو دردخود بخود ختم ہوجاتا ہے۔اسی لئے کہا ہے:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا ہے انساں کو
درد انسان ہی بانٹتے ہیں اور درد جو سمجھنے والااشرف المخلوقات کہلاتا ہے اور یہ درد دل کا درد ہو دکھ ہوتوایک سرمایہ بن جاتا ہے۔وہ عمر بھر ان دکھوں ، آہوں اور آنسوؤں کو اپنے اندرجذب کرکے اپنے خیالات کوصفحۂ قرطاس پربکھیر دیتا ہے۔
یہ دکھتی رگ ہے میاں یہ سوال مت پوچھو
ہم ا ہلِ ہجر سے لطف و جمال مت پوچھو
عموماً دکھ اور درد کا تعلق آنکھ سے ہوتاہے۔جو دکھ اور دردکو ظاہری طور پرپیش کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا ؎
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
یہاں کے دکھ کا تعلق رگ سے ہے ۔رگ دراصل فارسی لفظ ہے جس کو نسل،نبض، جسم کی وہ خلیاںجن میں خون رہتاہے۔ اردومیں اس کو پٹھا، عصب، پھول یا پتے کا ریشہ ، آنکھ کا ڈورا ، اصل، نسل، ذات،تار ، دھاگاکوکہتے ہیں۔
انسانی جسم میں رگوںکاجال ہے اور جب کوئی دکھ اس کوپہنچا ہے تو رگ پھڑکنا شروع ہوجاتی ہے۔رگ پھول جاتی ہے ،رگ وجاں میں لرزہ طاری ہوتا ہے،رگ چڑھ جاتی ہے،رگ وریشہ میں یہ دکھ سرایت کرجاتا ہے تو وہ رگ دکھتی رگ بن جاتی ہے۔
دکھتی رگ یہ ایک ایسا محاورہ ہے جس کا جتنا بھی احاطہ کیا جائے کم ہے۔ دکھتی رگ یعنی اخلاقی کمزوری، دلی احساس، دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنا یعنی کسی کے عیب یا کمزوری پر گرفت کرنا، دکھتی رگ چھیڑنایعنی تکلیف دہ بات شروع کرنا، ناگوار ہ بات کرنا۔
اور یہ دکھتی رگ کہہ اٹھتی ہے ؎
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو وہ لہو کیا ہے
خالدبشیر تلگامی کے ذہن میں یہ ناما آیا ہوگا تو ظاہر ہے اس کامنظر و پس منظر ان کے سامنے ہوگا۔کیونکہ جس شخص کی نظردکھتی رگ پر ہوتو ایسا شخص نبض دیکھ کرہی حالات کا تجزیہ کرلیتا ہے اور وہ ایک اچھا نباض ہوتا ہے۔جس طرح ایک حکیم نبض دیکھ کر دوا تجویزکرتا ہے اسی طرح مصنف بھی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر انسان کے اندروقوع پذیر ہونے والے واقعات کو قلمبند کرلیتے ہیں۔ ظاہر ہے اس سے ایسے تیرونشترنکلیں گے کہ پڑھنے والابھی اپنی رگ میں دکھ اور درد محسوس کرے گا۔
دکھتی رگ کا سرورق میں ہاتھ کی نس کو کٹا ہوا بتایا ہے۔عموماً یہ تصویر عاشقوں کی ہوتی ہے جو اپنے خون سے معشوقہ کو خط لکھتے ہیںیاپھر اس نس کو کاٹ کراپنا کام تمام کرتے ہیں۔
مصنف کی شاید یہ پہلی تخلیق ہے ۔ہرایک کو اپنی پہلی تخلیق سے بے انتہا محبت ہوتی ہے۔ اسی لئے انہوںنے امّی، ابّو، شریکِ حیات ، جگرپاروں کے نام کتاب کو معنون کیا ہے۔یقینا پہلی کتاب اپنوں کے نام کرنا اس بات کی گواہی ہے کہ اپنے اپنے ہوتے ہیں۔
ابتدامہتاب انور، جمشیدپور کے اس شعرسے
دکھتی رگ پر مری نہ رکھ انگلی
سچ کا اظہار ورنہ کردوں گا
خالد بشیر نے ابتدا میں چھ شخصیتوں سے اس کتاب پرلکھایا ہے۔اس میں بھی تاخیر وتقدیم کا خیال نہیں رکھا گیا۔ان شخصیتوں کے نام اس طرح ہیں۔نورشاہ، ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا،تنویر اختررومانی،ایم مبین، سرور غزالی، پروفیسر اسلم جمشیدپوری۔
ہرکسی نے الٹ پھیر کرکے ان کی کتاب پر خامہ فرسائی کی ہے۔نورشاہ لکھتے ہیں:
’’یہ افسانچے خالد بشیر تلگامی کے تخلیقی ذہن میںپوشیدہ ان کی صلاحیتوں کا خوبصورتی کے ساتھ کاغذ پر بکھیر کر ان کے نام کو روشن کررہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا کا خیال ہے:
’’خالد بشیر نہ صرف اچھے افسانچہ نگارہیں بلکہ اعلیٰ درجے کا تنقیدی شعور بھی رکھتے ہیں۔‘‘
تنویر اختررومانی کا کہنا ہے:
’’منٹواپنے افسانچوںمیںسماج کے زخموں کی نشاندہی کرتے تھے جبکہ خالد بشیر نہ صرف معاشرت کے زخموں اور سیاست ،سیادت، قیادت کے امراض کی نشاندہی کرنے بلکہ سماج کی دکھتی رگوں پر انگلی رکھنے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔‘‘
ایم مبین ایک معروف افسانہ نگار ہیں ، وہ لکھتے ہیں:
’’افسانچوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ محسوس ہوتاہے کہ انہوں نے اپنے افسانچوں میںاس فن پر اپنی مہارت کو جگہ جگہ استعمال کیا ہے۔‘‘
سرور غزالی رقم طراز ہیں:
’’بشیر تلگامی کے موضوعات میں تنوع ہے،کہانیوں میںاچھوتا پن ہے ،کاٹ ہے۔‘‘
پروفیسراسلم جمشیدپوری لکھتے ہیں:
’’جہاں تک خالد بشیر کے افسانچوں کا سوال ہے متعدد افسانچے بہت عمدہ ہیں اور قاری کی توجہ ہی نہیںبلکہ قاری کولرزادیتے ہیں۔‘‘
ابتدا میں چھ شخصیتوں کے تعارفی مضامین کے بعد آخرکے ۲۸؍صفحات میں ملک اور بیرون ملک کے ۴۷؍معروف اہلِ قلم کے تاثرات کو احاطہ کیا گیاہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صاحبِ کتاب نے اہلِ قلم سے ہی نگارشات منگوانے میں کافی وقت صرف کیا۔ان معروف اہلِ قلم حضرات میں پاکستان، مغربی بنگال،پنجاب،مہاراشٹر ،کشمیر، بنگلہ دیش،سویڈن،آسٹریلیا،اترپردیش،آندھرا پردیش،تلنگانہ،راجستھان اور بہار کے اضلاع شامل ہیں۔ جنوب میں صرف مہاراشٹر کے زیادہ قلمکارہیں۔ راقم الحروف کے تاثرکے باوجودفہرست میں نام چھوٗٹ گیاہے اور سلسلہ نشان بھی غلط ہے۔
کتاب کے سرورق کے عقب میں رونق جمال کے خیالات کو پیش کیا ہے اور پورے آب وتاب سے رونق جمال اس صفحہ پر رونق افروز ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’اچھے افسانچہ نگاروں کی اس مختصر فہرست میں خالد بشیر تلگامی کا نام تیزی سے ابھر رہا ہے۔‘‘
صاحبِ کتاب کامختصرتعارف پڑھنے کے بعدیہ کہنا بجا ہوگاکہ بہت ہی کم عرصہ میں یعنی ۲۰۱۶ء سے ۲۰۲۱ء تک، پانچ سال کے قلیل عرصہ میں وہ سب کے خلیل بن گئے ۔اس طرح وہ اردو اور کشمیری میں لکھتے رہیں گے توایک دن وہ ملک کے نامور افسانچہ نگاروں میں شمار کئے جائیں گے۔کیونکہ یہاں پر ان کے افسانچوں کولکھوں تو کافی طویل مضمون ہوگا۔ ایک دو افسانچے ملاحظہ کیجئے۔
مصروفیت
’’ایک روٹی مجھے بھی دے دو سیٹھ جی۔۔۔۔دو دنوں سے بھوکا ہوں۔‘‘بھکاری نے صدا لگائی۔
کتّے کو روٹی کھلاتے ہوئے سیٹھ جی نے بھکاری کو حقارت سے دیکھا اور ڈانٹتے ہوئے کہا۔’’دکھائی نہیں دیتا کیا۔۔۔۔ابھی میں مصروف ہوں۔‘‘
٭٭٭
صفائی
اپنے دروازے کے سامنے کھڑی جوان اور قبول صورت بھکارن کے سوال پر گھر کے مالک نے کہا۔’’بھیک مانگتے تمہیں شرم نہیں آتی۔۔۔۔۔ تمہارے ہاتھ پاؤں صحیح سلامت ہیں۔۔۔تمہاری صحت بھی اچھی ہے ۔۔۔ ۔۔دوچار گھروں میں برتن اور کپڑے صاف کرنے کا کام کرسکتی ہو۔‘‘
بھکارن نے درد بھرے لہجے میں کہا۔’’کہتے تو آپ ٹھیک ہیں صاحب ۔۔۔۔۔۔ میں کئی گھروں میں برتن مانجھنے اور گھر کی صاف صفائی کا کام مانگنے گئی تھی ،مگر وہاں مجھے صفائی کا کیا کام دیتے۔۔۔۔ لوگ مجھ پر ہی ہاتھ صاف کرنا چاہتے تھے ۔‘‘
٭٭٭
مجموعی اعتبار سے ۱۸۰؍صفحات کی کتاب میں ۱۱۰؍صفحات پر ۱۰۶؍ افسانچے ہیں۔ہر صفحہ پر ایک افسانچہ ہے۔ایک پر دو افسانچے بھی آسکتے تھے۔۷۰؍صفحات مضامین اور معتبر قلم کاروں کی رائے سے پُرہیں۔افسانچوں کی دنیا میں ایک اچھا اضافہ ہے۔قلم کو رواں رکھئے ان شاء اللہ اس کو جلا ملتی جائے گی اور دکھتی رگ میںجتنی رگیں ہیںوہ ایک ایک کرکے اپنا درد خودبیان کرے گی۔بقول حفیظ جالندھری:
دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب
میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں