تحریر:مشتاق شمیم
سروہ قدس تہ گلہ رُخس رُود مسرور مُدٖے گنڈتھ ۔ جی ہاں ! عبدالمجید شاہ المعروف مجید مسرور ایک ایسانام ہے جس نام سے وادای کشمیر سے تعلق رکھنے والے موسیقی پسند لوگ بالعلوم اور ادبی حلقوں سے وابستہ شاعر ادیب دانشور ا ور بعض دوسرے قلم کارحضرات علی الخصوص بہت زیادہ واقف ہیں ۔اس خوبرو نفاست پسند خوش گفتارمذاقیہ اور ہنس مکھ شاعر کا تعلق بڈگام ضلع کے خانصاحب نامی خوبصورت قصبہ سے ہے۔شعرو شاعری اور ادب شناسی سے اگرچہ زمانہ طالب علمی سے ہی مسرور صاحب کو بہت زیادہ دلچسپی رہی ہے تاہم براڈکاسٹنگ اور کالم نویسی میں بھی گزشتہ چند ایک برسوں سے آپ طبع آزمائی کرنے میں مصروف عمل نظر آرہے ہیں۔شاعر موصوف پیشہ سے ایک سرکاری ملازم رہے ہیں اوربحثیت سرکاری نوکرآپ حال ہی میں سبکدوش ہوچکے ہیں۔ یہاںاتفاق کی بات یہ ہے کہ سرکاری زمہداریوں سے فارغ ہونے کے فوراََ بعد ہی آپ کے دو شاعری مجموعے’’ تاشقہ چانے اور واوہ گرایو منز پو کُس‘‘ کی پہلے جموں میں قائم گلستان نیوز چینل کے آرڈیٹوریم کے اندر اور بعد میں سرینگر میں قائم اسی نیوز چینل کے آفس میں ادیبوں شاعروں میڈیا کے نمائندوں اور بعض دوسرے درجنوں ادب نواز خواتین و حضرات کی موجودگی میں پُر وقار ادبی تقاریب کے دوران نقاب کشائی کی گئی۔ مسرور صاحب فی الوقت گلستان نیوز چینل کے ساتھ لٹرری کارڈنیٹر کی حثیت سے وابستہ ہیں اور چینل ھٰذا سے آپ باقاعدہ گی کے ساتھ گزشتہ دو تین برسوں سے ادبی و لٹرری پروگرام پیش کر رہے ہیں۔ان پروگراموں کو ادبی حلقوں میں خوب سراہا جارہا ہے۔
بہر حال مجید مسرور نامی اس معروف شاعر کا نام جموں و کشمیر کے اُن شاعروں اور ادیبوںکی فہرست میں بہ نفس نفیس شامل ہے جو ایک لمبے عرصہ سے میدان ادب و ثقافت میں بہت ہی زیادہ سرگرم عمل نظر آ رہے ہیں۔ ان کے حلقہ احباب میں وادی کشمیر کے بڑے بڑے شاعر ادیب براڈ کاسٹر موسیقی سے وابستہ فنکار سماجی اراکین سیاسی لیڈران اور بعض دوسرے چھوٹے بڑے سرکاری کارندے شامل ہیں۔ آپ کشمیری زبان و ادب کو فروغ دینے کیلئے بھی فی الوقت مختلف پلیٹ فارموں پر اپنی کوششیں شد و مد سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔مسرور صاحب کشمیری کے علاوہ اردو زبان میں بھی بسا اوقات شعر لکھنے کی کامیاب کوشش کر رہے ہیں۔ آپ کی ادب نوازی اور فن شاعری میں روز افزوں بدرجہ اُتم جوش ولولہ اور خوبصورتی پیدا ہورہی ہے۔شاعر موصوف کی ادب کے تئیں شاندار کار کردگی کی انجام دہی کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے انھیں کئی بار مختلف موقعوں پر ایواڑ اسناد اور اعزازات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔
چناچہ مجید مسرور صاحب زمانہ طالب علمی سے ہی ادبی حلقوں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔انہوں نے اپنی ادیبانہ سرگرمیوں کا آغاز مہجور کلچرل فورم خانصاحب نامی ایک مقامی ادبی تنظیم سے شروع کیا تھا ۔آپ کا نام مذکورہ کلچرل فورم کے بانی ممبران کی فہرست میں نمایاں طور پر شامل ہے۔مہجور کلچرل فورم کا قیام لگ بھگ اسی کی دہائی میں عمل میں لایا گیا تھا اور اسکا قیام علاقہ خانصاحب سے تعلق رکھنے والے ذہین نوجوانوں اور طالب علموں میں کئی دہائیوں تک ادیبانہ شوق اور شاعرانہ مزاج ابھار نے میں ایک اہم کردار ادا کرتا رہا۔ بعض کئی دوستوں کے ساتھ ساتھ یہیں سے مسرور صاحب کے وجود کے اندر موجود تخمِ اداکاری شاعری اور قلم کاری پروان چڑنا شروع ہوگیا۔ موصوف نے ایک اسٹیج ڈرامہ اداکار کی حثیت سے اپنا ادبی سفر شروع کیا اور رفتہ رفتہ آپ نے وادی کشمیر کے ایسے ناماور شاعروں کی فہرست میں اپنا نام درج کرانے میں کامیابی حاصل کی جن شعراء حضرات کو مقامی سطح پر عوامی اور ادبی حلقوں میں زبردست پزیرائی حاصل ہے ۔ مہجور کلچرل فورم کے ساتھ اپنا تعلق منقطع کرنے کے بعد آپ نے نبے کی دہائی میں یوتھ گلستان ادب نام سے ایک نئی ادبی تنظیم کی بنیاد ڈال دی تھی جس کے آپ بانی چیر مین منتخب ہوئے اور تا ایں دم موصوف اس تنظیم کے چیرمین کے منصب پربنے ہوئے ہیں۔ یہ ادبی تنظیم ابتدائی ایام میں اگرچہ کچھوے کی چال کے مانند چلتی رہی لیکن فی الوقت یوتھ گلستان ادب نامی یہ ادبی فورم بہت ہی زیادہ سرگرم عمل ہے اور وادی کے اطراف و اکناف میں بڑے اور نو آموزشاعر و ادیب حضرات اسکے ساتھ وابستہ ہوکر اپنی ادبی خدمات انجام دینے میں مشغول ہیں۔ ثقافتی مرکز بڈگام کے علاوہ کئی دوسری معروف ادبی تنظیموں کے ساتھ بھی آپ ایک سرگرم رکن کی حثیت سے جُڑے رہے۔
کم عمری میں سرکاری نوکری حاصل ہونے اور رشتہ ازدواج میں بندھ جانے کے سبب اگر چہ مسرور صاحب اپنی مروجہ تعلیم بہت آگے تک جاری نہ رکھ سکے تاہم لکھنے پڑھنے کی سرگرمیوں کے ساتھ انہوں نے اپنا ناطہ کبھی نہیںتوڑا۔ابتدائی ایام میں مسرور صاحب نے وادی کے معروف شاعر انجان کشمیری کی صحبت میں کافی وقت گزار دیا اور وہیں سے آپ نے شاعرانہ رسوم اصول پیمانے اور رتقاضے ٹھیک طرح سے سمجھنے میں مہارت حاصل کی۔ جانکار حلقوں سے معلوم ہوا ہے کہ شاعر موصوف نے پہلے اپنے لئیـ’’ مظلوم کشمیری‘ ‘تخلص کا انتخاب کر رکھا تھا لیکن انجان صاحب نے اُن کا ہائو بائو اور طرز کلام بھانپ کر مسرور تخلص رکھنے کی صلاح دی جو انہوں نے دل سے قبول کرلی تھی۔اتفاق سے مسرور تخلص مجید نام کے ساتھ اُسی قدر گل مل گیا جس طرح سے دودھ کے ساتھ پانی مل کر اور ہوا کے ساتھ خوشبو تحلیل ہوکر یک رنگ و بوہوجایا کرتے ہیں۔ابتداء میں مسرور صاحب کا کلام ریڈیو کشمیر سرینگر کی یوواوانی سروس سے بر دوش ہوا منظر عام پر آنے لگا۔بس آنے کی دیر تھی کہ آپ کا نام اور کلام موسیقی پسند خواتین و حضرات میں زبان زد عام ہوگیا۔ ’’متہ تراو تم کفن وون دہانس پیٹھ وائے پتہ پھیری ۔۔کال واتکھ میانس مزارس پیٹھ وائے پتہ پھیری ‘‘اس کلام کے منظر عام پر آنے سے مجید مسرور راتوں رات شاعرانہ میدان کے فرش سے اُڑ کر عرش کی طرف محو پروازہو گئے اور پھر اُن کی یہ اُڑان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بناء رُکے اور بناء تھکے تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔مشاعروں میں اُن کی شمولیت خاص بن گئی اور شعبہ موسیقی سے وابستہ فنکاروں میں ان کے کلام کی مانگ بڑھ گئی۔کھیت کھلیانوں سے لیکر شادی بیاہ کی محفلوں تک مجید مسرور کے نغمے گونجنے لگے۔اس طرح سے اُن کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا۔
ابتدائی دور میں مجید مسرورہاتھ کی تنگی کے باوجود اپنا کلام لولئک آلو،ناگراد اول، ناگراد دوم نام سے تین کتابچوںکی صورت میںمنظر عام پر لانے میں کامیاب ہو گئے۔ان تین شاعری کتابچوں کے علاوہ آپ ایک نثری کتابچہ ۔۔ اکھ مختصر تعارُف۔ حضرت سید صالح خانصاحبؒ۔نام سے بھی تصنیف کرچکے ہیں ۔اس کتابچہ میں موصوف نے سرزمین خانصاحب میں موجود کئی سو سال پرانی زیارت گاہ جو ایک اعلیٰ پایہ ولی کامل حضرت سید صالح خانؒ کی بتائی جاتی ہے کی حیات طیبہ اور معجزات و کرامات کے حوالے سے وہ تھوڑی بہت سینہ بہ سینہ منتقل ہوئی باتیں ضبط تحریر لا ئیں جو انہوں نے مقامی بزرگوں اور زیارت سے وابستہ خادموں متولیوں اور ریشیوں سے سماعت کی تھیں تاکہ آنے والی نئی پیڑی کے لوگ باخبر رہیں۔ حالانکہ عقیدت مندوں اور عوامی حلقوں میں اس کتابچہ کو آج کی تاریخ میںمزید تحقیقی معلومات اور موجودہ زمانے کے نئے تقاضوںکے سانچے میں ڈالکر از سر نو شائع کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے ۔امید کی جاتی ہے اس آدھے ادھورے کام کو مسرور صاحب اپنی پہلی فرصت میں پائے تکمیل تک لیجانے کی سعی کرلیں گے انشاء اللہ۔
بہر کیف آج ایک لمبے عرصہ کے بعد شاعر موصوف بیک وقت دو شاعری مجموعے ۔۔ تاشوقہ چانے اور واوہ گرایو منز پُکسُ۔۔ منظر عام پرلانے میں کامیاب ہوگئے۔یہ دونوں شاعری مجموعے قابل دیدبھی ہیں اور قابل داد بھی۔ ان دونوں کتابوںکے سرورق ہارڈ کور پر بہت ہی زیادہ خوبصورت انداز میں ڈیزائن کئے جاچکے ہیں ۔مختلف موضوعات اور عنوانات کے تحت ڈھائی سو کے قریب شاعرانہ کلام ان دو کتابوں میں شامل ہے۔ مجید مسرور نے متذکرہ بالیٰ تین کتابچوں میں درج کلام کو زیر بحث تازہ شاعری مجموعوں میں شامل کردیا ہے تاکہ یہ کلام محفوظ رہ پائے۔ حمد باری تعالیٰ ،نعت نبیﷺ ، مناجات،منقبت اولیاء ، غزلیات، نظمیں آزاد نظمیں، روبائیاں وغیرہ جیسی معروف شاعرانہ اصناف میں زیادہ تر کلام ان دو شاعری مجموعوں میں شامل پایاجاتا ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسرور صاحب ایک مکمل شاعر کی صورت میں حلقہ شعراء میں اپنا نام درج کرانے کی دوڑ میں سنجیدگی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔حسینیات اورمتفرقات جیسی دو نئی اصناف سخن بھی ان دو مجموعہ کلام میں نظر آرہی ہیں۔ان دو کتابوں کی ورق گردانی کے دوران خاکسار نے پایا کہ مسرور صاحب کی شاعری کا بیشتر حصہ رومانوی شاعری پر مشتمل ہے اور صوفیانہ شاعری کا رنگ اس میں قدرے ہلکا پھلکا ہے۔ایسا محسوس ہورہاہے کہ مسرور صاحب عشقیہ شاعری کے امام رسول میر کے نقشہ راہ پر گامزن ہوکر اپنا شاعرانہ سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔امتحان ،کاشر زبان وقتُک آلو،خون،شہر،اخلاق ،رُووداورکتاب جیسے خوبصورت عنوانات کے تحت سماج سدھار،وقت کی پکار ،کردار سازی اور انقلابی شاعری پر مبنی چند رباعیات بھی مذکورہ دوشاعری مجموعوں میں شامل ہیں جس سے شاعر کی دور اندیشی اور سماج کے تئیں اُن کی فکر مندی کی خوب عکاسی ہوتی ہے۔
چناچہ جب کوئی شاعر ادیب سخن ور یا قلم کار کوئی کلام ادب پارہ یا مضمون ضبط تحریر لانے کیلئے قلم اُٹھاتا ہے تو وہ اپنا کوئی خاص تخیل، چشم دید حالات و واقعات کے مناظر ،مقاصد یا ارادے سامنے رکھ کرہی یہ شب کام سر انجام دیتا رہتا ہے اسلئے یہاں تنقید کرنے کی زیادہ گنجائش باقی نہیں رہتی البتہ اگر صحت زبان وزن کلام ردیف قافیہ استعارات اور رموزات وغیرہ کے استعمال میں کسی قسم کی کوئی کمی پیشی نظر آئے تو اُس صورت میں تنقید نگار پر تنقید برائے تعمیراصول کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے خامیوں کی نشاندہی کرنا اور کوتاہیوں کی تصحیح کرنا لازم بن جاتا ہے۔ شاعری اور شاعرانہ طور طریقوں اور تقاضوں سے زیادہ واقفیت نہ رکھتے ہوئے خاکسار نے زیر بحث دو مجموعہ کلام کا تنقیدی جائزہ نہ لیتے ہوئے اس کام کو اصحاب نقاد پر چھوڑ دیا ہے تاکہ وہ شاعرانہ مہارت ، علمی فصاحت اورفنی بلاغت سے اپنا تنقیدی جائزہ پیش کرسکیں ہاں مگر بحثیت ایک ادبی طالب علم کے دو چار نکات پر تنقید برائے تعمیر کرنے کی یہاں جسارت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان دو شاعر ی مجموعوں میں سے ایک کو شاعر موصوف نے اپنے والدین اور دوسرے مجموعہ کو اپنے بچوں کے نام منسوب کیا ہوا ہے ۔ یہاں پر میرے خیال سے شاعر نے معاملہ فہمی سے زیادہ جذباتی کیفیت سے کام لیا ہے۔اگر کسی بڑے شاعر ادیب مفکر یا اُستاد کے نام ان شاعری مجموعوں کو منسوب کیا جاتا تو شاید زیادہ بہتر رہتا۔اکثر دیکھا جارہا ہے کہ شاعر حضرات اپنے کسی خاص کلام کے موضوع یا عنوان کو ہی اپنے شاعری مجموعہ کے ٹائٹل کے طور پر منتخب کرنا پسند کرتے ہیںلیکن شاعر موصوف کے کسی بھی کلام کا عنوان تاشوقہ چانے یا واوہ گرایو منز پکُس نہیں ہے۔مذکورہ کتابوں کے ٹائٹل کس بات یا خیال کو ملحوظ نظر رکھ کر منتخب کئے جاچکے ہیں شاعر موصوف بہتر جانتا ہوگا۔اگر چہ ان دونوں شاعری مجموعوں کا سال اشاعت ۲۰۲۲ء ہے اوردونوں کی بیک وقت رونما کی رسم انجام دینے کا پروگرام طے تھا تو پھرشاعرموصوف نے دو الگ الگ کتابوں کی صورت میں اور دو الگ الگ عنوانات کے تحت اپنے شاعرانہ کلام کو شائع کرنا مناسب کیوں سمجھا ۔ خیر یہاں جن کوتاہیوں کی طرف خاکسار نے اشارہ کیا ہے یہ معمولی نویعت کی خامیاں ہیں اور ان گزارشات کے ساتھ شاعر موصوف یا دوسرے بعض اصحاب نقاد کا اتفاق کرنا لازم نہیں ہے۔
’’واسوخت ،، شاعرانہ فن میں ایک اہم صنف تصور کی جاتی ہے۔ اگرچہ صنف ھٰذا سے ہمارے یہاں اکثر شاعر حضرات ناواقف ہیں تاہم اس صنف کے بارے زیادہ واقفیت نہ رکھنے کے باوجود وادی کے اکثر و بیشتر رومانوی شاعر اپنے کلام میں اس صنف کا خوب استعمال عمل میں لایاکرتے ہیں۔واسوخت صنفِ شعر کا لغوی معنی ہے محبوب کی بے وفائی کاتذکرہ شاعرانہ کلام کی صورت میں پیش کرنا۔ یہاں مسرور صاحب کے ان دونوں شاعری مجمعوں میں درج کلام کا اچھا خاصا حصہ اسی صنف شعر کے ارد گرد گھومتا دکھائی دے رہا ہے۔ شاعر موصوف کا یہ مشہور کلام ’’از تہ رودُس انتظارس آکھ ما۔چھوس بہ پیاران دیدارس آکھ ما۔۔ صنف ھٰذا کی روح کو بے باکی سے ظاہر کرتا ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو میں وثوق سے بتا سکتا ہوں کہ زیر بحث شاعری مجموعوں کے ٹائٹل ــ’’ تاشوقہ چانے اور واوہ گرایو منز پ کُس ‘‘ میں بھی مذکورہ صنف شعر کی خوشبو خوب محسوس ہو رہی ہے۔ــ
گلستان نیوز چینل کے ایگزیکیٹیو ڈائیریکٹر جناب اشفاق گوہر صاحب نے اپنے خاص انداز بیان میں مجید مسرور کی ذاتی زندگی اورشاعرانہ وجود کے بارے اپنا نکتہ نگاہ پیش کیا ہے۔گوہر صاحب بڑی بے باکی سے اور ماہرانہ انداز میںاپنی ذمہ داری نبھا چکے ہیں۔ ان کی تحریر پڑھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آپ مجید مسرور کو بہت قریب اور ایک لمبے عرصہ سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ بعض دوسرے شعراء اور ادباء جن میں معروف شاعر استاد اور نقادپروفیسر شاد رمضان، کالم نویس عرفان بشیر ،کالم نویس نقاد اور استادبشیر اطہر اورمعروف قلم کار ماگرے سمیر وغیرہ شامل ہیں نے بھی مجید مسرور کی شاعرانہ اور ذاتی زندگی پر جو مختصر الفاظ میں اپنی آرائیں پیش کیں ہیں ان آراوئوں کو شاعر موصوف کی طرف سے خصوصیت کے ساتھ کتابوں کے آخری صفحات پر جگہ دی جاچکی ہے۔ جن دوستوں اور ہمدردوں نے مسرور صاحب کے کلام کو کتابی شکل دینے اور منظر عام پر لانے میں اپنا تعاون پیش خدمت رکھا ہے شاعر موصوف ان تمام خیر خواہوں کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولے ہیں۔بطور خاص جمیل انصاری صاحب جو ان کتابوں کے سرورق اپنی مہارت سے خوبصورت انداز میں ڈیزائن کرچکے ہیں کا شکریہ بھی صاحب کتاب نے دل کی عمیق گہرائیوں سے کیا ہے۔