تحریر:رشید پروین،سوپور
میرے اس قصبے کی آبادی اب خاصی ہے اسی لحاظ سے نواحی بستیاں بھی بستی گئی ہیں اور مارکیٹ یعنی بازار بھی کافی وسعت پاچکے ہیں اور اب بھی اپنے بازو پھیلا رہے ہیں ،، لیکن ایسا کہا جاتا ہے کہ اس بازار میں ہر چیز ذرا مہنگی پڑتی ہے، اس لئے کہ یہاں کے لوگوں کا معیارِ زندگی دوسروں سے اونچا ہے ، بہر حال مجھے ا اونچ نیچ سے کچھ لینا دینا نہیں ،میں نے مارکیٹ کی بات کی ہے کیونکہ میں بھی اسی مارکیٹ کا حصہ ہوں بلکہ یہ کہ میری دکان بھی یہاں کے مین مارکیٹ میں ہے ،میں چونکہ اپنی مارکیٹ سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر رہتا ہوں اس لئے بہت سارے دکانداروں کی طرح میں کھانا کھانے دوپہر کو گھر نہیں جاسکتا ، اور صبح اکثر میرا کھانا اس لئے تیار نہیں ہوتا کہ بیگم صاحبہ بچوں کو سکول کیلئے تیار کرتی ہے پھر انہیں خود سکول تک بھی اکثر چھوڈ دیتی ہے ،اور خود بھی اپنی ڈیوٹی پر جانے کی تیاری کرنے لگتی ہے میں اس سے پہلے ہی دکان کی راہ لیتا ہوں اور کسی نہ کسی طرح جلدی اپنے جنجال (گھر )سے نکل کر سکون کی سانس لیتا ہوں ، مجھے لگتا ہے کہ ملازم عورت کے ساتھ شاید ملازم مرد ہی ایک اچھی اور عمدہ جوڈی بنا دیتا ہے ، لیکن وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا ، بہر حال میں اپنی بیوی سے ڈگریوں میں دو ڈگریاں آگے ہوں لیکن کسی سکول میں بچوں کے ساتھ مغز کھپائی سے بہتر اپنے باپ کی دکان ہی جانی اور اب بھی یہی سمجھتا ہوں ،، یہ کہنے سے اصل مراد یہ ہے کہ آپ کو بتادوں کہ میں لنچ اکثر قصبے کے ایک نزدیکی ہوٹل پر کرتا ہوں ،، دال چاول یا سبزی اور کبھی کبھار ہی مٹن یا چکن کھانے کا من کرتا ہے استانی جی کو خوش کرنے کے لئے کبھی کبھی یہاں کے رستے یا گوشتاب بھی لے جاتا ہوں جو بڑے اچھے ہوتے ہیں ،اب ہوٹل کے مالک حاجی عبداللہ سے اچھے مراسم بنے ہیں ،، میرا انتظار بھی کرتے ہیں ،میرے ہی ساتھ اب خود بھی کھاتے ہیں ، اور یقین مانئے اب گاہکوں جیسی بات ہی نہیں رہی ہے بلکہ اب ایک دوسرے کے ساتھ غم اور خوشیاں بانٹنے کی بھی حدیں شروع ہوچکی ہیں ، ہوٹل کا نام بھی (حاجی ہوٹل ) ہی ہے ، اور اب میں اپنی پسند کے سالن بھی نہیں منگاتا بلکہ یہ بھی حاجی کی پسند سے آتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم رہتا ہے کہ کس سالن میں کیا قباحت اور کیسے مصالعے پڑے ہیں ،،، میں دو تین دن کبھی اگر کھانا کھانے حاضر نہیں ہوتا تو فوراً ہی اپنے کسی بیرے کو میری خیرو عافیت پوچھنے کے لئے بھیجتے ہیں ۔ ماہِ مبارک کی آمد آمد تھی ،، اب بس کچھ ہی دن باقی تھے ،،، حاجی نے کھانا پروسا ،،، اور میں نے بے تکلفی سے کہا ’’یار اب تو فصلِ بہار آرہی ہے ،، یعنی ماہ،ِ مبارک کی برکتیں نازل ہونے والی ہیں ، اب ہوٹل بند ہی رہے گا ‘‘حاجی ہنس پڑا ، ماہِ مبارک تو ہے ہی برکتوں والا مہینہ اس مہینے میں توبرکتوں کا نزول ہوتا ہی رہتا ہے ۔سبھی تجارتوں پر برکتیں ہی بر کتیں نازل ہوتی ہیں اس میں کیا شک ہے ‘‘حاجی نے کہا پھر اچانک ہی مجھ سے پوچھ بیٹھا .’’یار حج پر کب جاؤگے،، میں بھی دوبارہ آپ کے ساتھ ہی جاؤں گا ، بڑا مزا آئے گا ‘‘ ’’حاجی صاحب ابھی میرا کوئی ارادہ نہیں ، بچے چھوٹے ہیں ، بیوی ٹیچر ہے ، میں یہاں دکان کے جھمیلوں میں پڑا ہوں ، دیکھئے اللہ کی کیا مرضی ہو ‘‘میں نے لقمہ منہ میں رکھتے ہوئے کہا ’’وہ تو ٹھیک ہے ۔پر جانا چاہئے جوانی میں ہی ،، بڑھاپے میں کیا خاک عبادت ہوتی ہے اور جب میں گیا تھا تو ایک پل نہیں سو یا تھا ، بس نمازیں ، عبادات ، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ پھر جاوں گا تو دوگنی محنت اور عبادات میں وہ ایام گذاروں گا ‘‘ ‘‘حاجی نے اپنے زمانہء حج کو یاد کرتے ہوئے کہا ’آپ نے درست فرمایا وہاں عبادات کے سوا اور کام ہی کیا رہ جاتا ہے ‘‘ میں نے کہا ۔ ۔روزے شروع ہوئے، اب دن میںکھانے پینے کی فکر سے بھی آزاد تھااور اس مہینے میں ہماری دکانداری بھی کم ہوجاتی ہے ، لوگ زیادہ تر آرام کرنا ہی پسند کرتے ہیں ،،،، میرا پہلے ہفتے حاجی ہوٹل کی طرف دھیان بھی نہیں گذرا، اس کے باوجود کہ کئی بار میں نے سوچا کہ حاجی کیا سوچ رہا ہوگا ؟نویں روز میں نے قصد کیا کہ دوپہر کو ظہر کے بعد ہی حاجی سے مل لوں گا ،، اور اسی لئے اس طرف چلا آیا ،، میں نے دیکھا کہ ہوٹل بند ہے اور فلیکس کا ایک دیدہ زیب بورڈ شٹر پر چسپاں ہے جس پر جعلی حروف سے تحریر تھا ( ہوٹل ماہ مبارک کے احترام میں بند رہے گا) میں نے سوچا کہ اب حاجی سے فون کرکے پوچھوں گا کہ کہاں رہتے ہو آجکل ،، لیکن اسی وقت ایک چھوٹا سا لڑکا میرے سامنے کھڑا ہوا ،، ایک چھوٹا سا وزیٹنگ کارڈ جیسی کوئی چیز میرے ہاتھ میں تھما کے چلا گیا، میں نے اس سے پڑھا ، اس پر جعلی حروف میں لکھا تھا
(ہوٹل حاجی ماہِ مبارک کے احترام میں بند رہے گا
نوٹ ،،، کھانا کھانے کے لئے پچھلے دروازے سے تشریف لائیں)
یہ کیا تماشہ ہے؟ میں پچھلے دروازے کو تلاش کرکے اندر آیاکیونکہ ابھی تک مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ اس کوئی پچھلا دروازہ بھی ہے،، حاجی بہت مصروف تھے بلکہ یوں کہنا صحیح ہوگا کہ سب ہی ملازم اور بیرے زبردست مصروف کار تھے اور کہیں بھی کوئی جگہ خالی نہیں تھی بلکہ کچھ لوگ ٹیبلوں کے ساتھ کھڑے کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے ،، واللہ میں نے اتنی بھیڑ اس ہوٹل میں کبھی نہیں دیکھی تھی ، میں واپس جانے کے لئے مڑا ہی تھا کہ کسی نے میرا ہاتھ پکڑا ، دیکھا تو حاجی مسکرا رہے تھے ،، میری حیر ت ابھی میرے چہرے سے عیاں تھی ،شاید یہ نظارہ میرے لئے خلاف توقع ہی تھا
’’ یارکیا سوچ رہے ہو یہ مبارک مہینہ برکتوں والا مہینہ ہے ،میں نے کہا تھا نا ، میں اس ایک مہینے میں گیارہ مہینے سے زیادہ کمائی کرتا ہوں ، یار برکت ہی برکت ہے ،،،اللہ ہی برکت کرنے والا ہے،اور اسی کو برکت کہتے ہیں،،حاجی کہہ رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ ایسے بھی برکتیں نازل ہوتی ہیں .